اقوامِ متحدہ کی قیادت: اب ایک خاتون کی باری آئے

دنیا کی حقیقی ترقی تب ہی ممکن ہے جب ہر انسان کو بلا امتیاز، بلا تعصب، برابری کے مواقع میسر آئیں اور اس مساوات کا پہلا زینہ خواتین کو ہر ادارے، ہر شعبے اور ہر عہدے میں برابر کی شرکت دینا ہے۔ خواتین کمزور نہیں ہوتیں دراصل وہ ہمت، برداشت، بصیرت اور تدبر کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ تاریخ سے لے کر حال تک، خواتین نے نہ صرف کامیاب فیصلے کیے، بلکہ امن، استحکام، انصاف اور انسان دوستی کے فروغ میں بھی وہ کردار ادا کیا ہے جو صرف طاقت یا اختیار سے ممکن نہیں ہوتا۔ جب عورت قیادت سنبھالتی ہے تو فیصلوں میں محض حکمرانی شامل نہیں ہوتی، بلکہ ہمدردی، توازن، اور دیرپا اثرات بھی ان کا حصہ بنتے ہیں۔

یہ دعویٰ محض نظریاتی یا جذباتی نوعیت کا نہیں یہ کئی عملی مثالوں پر مبنی ہے۔ جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل نے یورپی مالیاتی بحرانوں، مہاجرین کے مسئلے اور عالمی سیاست میں نہایت سنجیدگی اور ثابت قدمی سے فیصلے کیے۔ ان کے دور میں جرمنی صرف یورپ کی اقتصادی طاقت بن کر نہیں ابھرا، بلکہ انسانی ہمدردی کی ایک مثال بھی بن گیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جَسِنڈا آرڈرن نے کورونا وبا کے دوران جس قدر فوری، مؤثر اور عوام دوست اقدامات کیے، وہ دنیا بھر کے لیے ایک مثالی طرزِ قیادت بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف وائرس پر قابو پایا، بلکہ عوام کو اعتماد اور یکجہتی کے ساتھ بھی جوڑے رکھا۔

اسی طرح، لائبیریا کی صدر ایلین جانسن سرلیف، جنہیں نوبیل انعام بھی ملا، نے خانہ جنگی کے بعد ملک کو امن، تعلیم اور جمہوری عمل کی راہ پر ڈالا۔ ان کی قیادت اس حقیقت کی مظہر ہے کہ خواتین نہ صرف مشکل حالات میں فیصلے کر سکتی ہیں، بلکہ وہ امن قائم کرنے والی قائدین کے طور پر بھی ابھر سکتی ہیں۔ چلی کی سابق صدر مشیل بیچلیٹ کا ذکر بھی ضروری ہے، جنہوں نے ملکی سیاست میں قیادت کرنے کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین اور ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سربراہی میں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی قیادت سفارتی فہم، نرم قوت، اور انسانی ہمدردی کا امتزاج پیش کرتی ہے۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی پیغام دیتی ہیں: قیادت صرف مردوں کا حق نہیں اور عورت کی قابلیت پر سوال اٹھانا غیرمنصفانہ ہے۔ بین الاقوامی ادارے، بالخصوص اقوامِ متحدہ جیسے بااثر پلیٹ فارمز، ان غیر معمولی خواتین کی خدمات کو تسلیم کریں اور قیادت میں صنفی انصاف کو عملی شکل دیں۔

خواتین کو ہر ادارے میں مساوی مواقع دینا محض ایک سماجی تقاضا نہیں یہ تو ترقی یافتہ عالمی معاشروں کا بنیادی اصول بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ، جو امن، برابری اور انسانی حقوق کی علمبردار ہے، وہ خود صنفی مساوات کے میدان میں پیچھے نظر آتی ہے۔ 80 سالہ تاریخ میں یہ ادارہ آج تک کسی خاتون کو سیکریٹری جنرل کے بلند منصب پر فائز نہ کر سکا۔ یہ محض علامتی خلا ہی نہیں ہے یہ ادارہ جاتی سوچ اور عالمی طاقت کے ڈھانچوں میں گہرے عدم توازن کا عکاس ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے اور قیادت کے باب میں صنفی انصاف کو حقیقت کا روپ دے۔

انتونیو گوٹیرس 2026 کے اختتام پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے اپنی دوسری مدت مکمل کر رہے ہیں۔ اس موقع پر عالمی سطح پر نئی قیادت کے انتخاب کی تیاریاں جاری ہیں۔ حالیہ جنرل اسمبلی اجلاس میں کئی ممالک نے زور دے کر کہا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب ایک خاتون کو یہ تاریخی ذمہ داری سونپی جائے۔ ایسٹونیا کے صدر الار کیریس نے بجا طور پر کہا: ہم انتخابی عمل میں مزید تاخیر یا کوتاہی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کا بیان اقوامِ متحدہ کی ساکھ کی بحالی کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

سلووینیا کی صدر نتاشا پیرک موسر نے اقوامِ متحدہ کی تاریخ کے اس افسوسناک پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج تک 193 رکنی جنرل اسمبلی کی صرف پانچ خواتین صدور رہی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، اگر اس اجلاس کے اختتام تک جنرل اسمبلی کی خاتون صدر منتخب ہو سکتی ہیں تو سیکریٹری جنرل کی کرسی پر بھی خاتون کی موجودگی ممکن ہے۔ ان کا نعرہ ’’آئیے تاریخ بنائیں‘‘ اب ایک عالمی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس کی بنیاد صنفی مساوات اور ادارہ جاتی اصلاحات پر رکھی گئی ہے۔

سیکریٹری جنرل کا انتخاب آج بھی ایک بند کمرے کی مشاورت کا نتیجہ ہوتا ہے، جہاں پندرہ رکنی سلامتی کونسل خفیہ گفت و شنید کے بعد ایک امیدوار کا نام جنرل اسمبلی کو پیش کرتی ہے۔ 2015 میں اس عمل کو نسبتاً شفاف بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے، جیسے امیدواروں کی نامزدگی اور سی وی کی اشاعت، تاہم فیصلہ سازی کا دائرہ اب بھی محدود ہے۔ ایسی صورتِ حال میں خواتین اُمیدواروں کے لیے خود کو منوانا ایک کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ اس پس منظر میں شفاف اور کھلے انتخابی عمل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

منگولیا کے صدر اوخناگین خورلسوخ نے اس بات پر زور دیا کہ اعلیٰ قیادت کے عہدوں پر صنفی توازن سے اقوامِ متحدہ کی فیصلہ سازی میں شفافیت، توازن اور شمولیت کو فروغ ملے گا۔ درحقیقت، خواتین قیادت صرف نرم قوت کی نمائندگی نہیں کرتیں بلکہ وہ مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور دیرپا حل تجویز کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے کو ایسی قیادت درکار ہے جو طاقت، ہمدردی، تجربہ اور تدبر کا حسین امتزاج ہو۔

روایتی طور پر، اقوامِ متحدہ کی قیادت مختلف جغرافیائی خطوں کو مدِنظر رکھ کر تفویض کی جاتی ہے۔ 2016 میں جب گوٹیرس منتخب ہوئے تو مشرقی یورپ کی باری تھی، مگر اس اصول کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اب تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگلی باری لاطینی امریکہ کی ہے ایک ایسا خطہ جو امن پسندی، سفارتی شعور، اور خواتین قیادت کی مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔ اگر جغرافیائی توازن اور صنفی مساوات کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ موقع لاطینی امریکی خاتون رہنما کے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چلی کی سابق صدر مشیل بیچلیٹ اس عہدے کے لیے ایک موزوں امیدوار کے طور پر ابھری ہیں۔ وہ دو بار چلی کی صدر رہ چکی ہیں، اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین اور ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سربراہی بھی کر چکی ہیں۔ ان کا سیاسی، سفارتی اور انسانی حقوق کا وسیع تجربہ انہیں ایک ہمہ گیر رہنما بناتا ہے۔ چلی کے موجودہ صدر گیبریئل بورک نے ان کی حمایت کرتے ہوئے انہیں ایسی شخصیت قرار دیا جو دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان پُل بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔

ڈومینیکن ریپبلک کے صدر لوئس ابیناڈر نے بھی اس موقف کی تائید کی کہ لاطینی امریکہ میں تنوع، صلاحیت اور وژن کی کمی نہیں۔ ان کے مطابق اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ایک خاتون اس اعلیٰ عالمی عہدے پر فائز ہو۔ اس خطے کی یہ اجتماعی خواہش ہے کہ اقوامِ متحدہ کا اگلا سربراہ ایک ایسی خاتون ہو جو امن، موسمیاتی انصاف اور انسانی حقوق کی سچی نمائندہ ہو۔ لاطینی امریکہ کا جنگ سے پاک ماحول اور سفارتی مزاج اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے عالمی قیادت میں نمائندگی دی جائے۔

رافیل گروسی، جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ ہیں اور ارجنٹائن سے تعلق رکھتے ہیں، بھی اس عہدے کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی قابلیت، تجربہ اور عالمی شناخت اپنی جگہ مسلمہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک اور مرد امیدوار کو اس وقت ترجیح دی جانی چاہیے جب دنیا بھر میں قیادت میں صنفی توازن کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے؟ ان کا سامنے آنا اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ صنفی امتیاز ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب اقوامِ متحدہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ روایتی ڈگر پر گامزن رہے گی یا واقعی ایک پائیدار، مساوی اور انسان دوست مستقبل کی طرف پیش قدمی کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے