زندگی کو اگر ایک مسلسل امتحان تصور کیا جائے تو یہ خیال محض تشبیہ نہیں ہوتا ہے یہ تو ایک حقیقت کی ترجمانی ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ غیر مرئی سوالات کے درمیان جیتا ہے۔ یہاں نہ کوئی طے شدہ نصاب ہے، نہ مخصوص پرچہ، لیکن ہر لمحہ، ہر سانس، ہر فیصلہ ایک امتحان بن کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ بچپن میں معصوم خواہشات کا ٹوٹنا، جوانی میں خوابوں کی کسوٹی پر پرکھا جانا، اور بڑھاپے میں وقت کے بے رحم سلوک کا سامنا کرنا، یہ سب اس کائناتی امتحان کے مختلف مراحل ہیں۔ ہم ہر دن کسی نہ کسی کیفیت کا سامنا کرتے ہیں: کبھی سکون کی تلاش میں بے قراری سہنی پڑتی ہے، تو کبھی شور کی تھکن کے بعد تنہائی کی طلب جاگتی ہے۔ زندگی ہمیں کبھی آزمائش کی دھوپ میں جلاتی ہے، تو کبھی امید کی ہلکی سی چھاؤں دے کر تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ اسی مسلسل امتحان میں ہمیں خود سے، لوگوں سے، وقت سے اور حالات سے سیکھنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی کامیابی مطلق نہیں، اور کوئی ناکامی مکمل تباہی نہیں۔ بس توازن ہی وہ معیار ہے جس سے انسان اپنے قدموں کو سنبھالتا ہے اور راستوں کو پہچانتا ہے۔
وقت کا ایک اپنا مزاج ہے، جو ہمیں مسلسل بدلتا ہے۔ جو لمحہ ہمیں مسکرا کر گزرتا نظر آتا ہے، وہی پل کبھی دل کو چیر دینے والا زخم بن جاتا ہے۔ ہم خوشیوں کی قدر تب ہی کرتے ہیں جب غم ہمیں چھو لیتے ہیں، اور کامیابی کی گہرائی تب ہی محسوس کرتے ہیں جب ناکامی کی تلخی چکھ چکے ہوتے ہیں۔ یہی تضاد زندگی کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے۔ ہم روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں کچھ کھوتے ہیں، کچھ پاتے ہیں، اور اکثر اس کیفیت میں ہوتے ہیں جہاں دونوں حالتیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ کوئی فیصلہ ہمیں نیا راستہ دیتا ہے، مگر ساتھ کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ کوئی تعلق ہمیں جوڑتا ہے، لیکن کہیں دل کی پرتوں میں ہلکی سی دراڑ بھی ڈال دیتا ہے۔ زندگی اپنے اندر ایسا پیچیدہ توازن رکھتی ہے جہاں خوشی کا مطلب صرف مسکرانا نہیں ہوتا ہے، آنسوؤں سے گزر کر ان کی قدر کرنا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہر حال میں ٹھہراؤ ضروری ہے، تاکہ ہم گرنے کے بعد اٹھنے کا سلیقہ سیکھ سکیں۔
احساسات کے بہاؤ میں ڈوبتے انسان کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ خود کو خود سے جدا نہ ہونے دے۔ جب وقت کٹھن ہو، تب اندر کی روشنی کو بجھنے نہ دے، اور جب حالات سازگار ہوں تو تکبر میں خود کو گم نہ کر بیٹھے۔ یہی داخلی آزمائشیں انسان کے ظرف کو ناپتی ہیں۔ اکثر دکھ، محض دکھ نہیں ہوتے یہ تو وہ آئینے ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتے ہیں۔ اسی طرح خوشیاں صرف مسرت کا وسیلہ نہیں بلکہ شکر کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ انسان جب ان دونوں کیفیتوں کو ایک ساتھ جینے کا فن سیکھ لیتا ہے، تو اس کا اندرونی توازن اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طوفان میں اپنی بنیادیں نہیں کھوتا۔ آزمائشیں اسے کمزور نہیں کرتیں بلکہ سنوارتی ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے وہ زندگی کو ایک کتاب کے طور پر دیکھنے لگتا ہے، جس کے ہر ورق پر تضاد، تنوع اور تجربات کی تحریریں نقش ہیں۔ کبھی یہ بے انتہا خوشیوں سے لبریز ہوتی ہے تو کبھی غموں کی دھند سے دھندلا جاتی ہے۔ ہم سب اس کتاب کے کردار ہیں، اور ہمارا سفر انہی تضادات کے درمیان جاری رہتا ہے۔
میرا نظریہ ففٹی ففٹی ہے کہنے سے میری مراد صرف یہ نہیں کہ زندگی آدھی اچھی اور آدھی بری ہوتی ہے، بلکہ اس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ انسان ایک ایسی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے جہاں وہ اختیار اور مجبوری کے سنگم پر کھڑا ہے۔ کچھ معاملات اس کے کنٹرول میں ہیں، کچھ اس کے فہم سے ماورا۔ یہی وہ توازن ہے جو زندگی کو نہ صرف معنی بخشتا ہے بلکہ انسان کو سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ وہ ایک قدم آگے بڑھاتا ہے، دوسرے پر رک جاتا ہے۔ یہی رُکنے اور چلنے کی درمیانی کیفیت، اسی کشمکش کو ہم ففٹی ففٹی کہتے ہیں۔ تدبیر اسے آگے بڑھاتی ہے اور تقدیر اسے ٹھہرا دیتی ہے۔ اسی عمل میں زندگی کی اصل خوبصورتی پوشیدہ ہے۔
اگر کائنات پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ہر شے میں توازن دکھائی دیتا ہے۔ روشنی اور اندھیرا، دن اور رات، زمین اور آسمان، سب کچھ ایک تناسب میں بندھا ہوا ہے۔ یہی توازن انسانی زندگی کا بھی حصہ ہے۔ ہم موسموں کے تقاضوں کو تو اپناتے ہیں، مگر افراط و تفریط کے بغیر، جیسے گرمی میں پنکھا چاہتے ہیں مگر آگ میں جلنا نہیں چاہتے، سردی میں دھوپ مانگتے ہیں مگر برف باری میں جمنا نہیں چاہتے۔ اسی طرح ہم پانی سے پیاس بجھاتے ہیں مگر غرق ہونے سے ڈرتے ہیں۔ آگ سے کھانا پکا لیتے ہیں لیکن جلنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ انسان خیر چاہتا ہے، مگر شر سے بھی باخبر رہتا ہے۔ نیکی کی امید رکھتا ہے، لیکن برائی کے وجود کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ یہ سارے جذبات، احساسات اور تجربات بتاتے ہیں کہ زندگی ایک مکمل خاکہ ہے جو متوازن عناصر سے تشکیل پایا ہے، اور یہی ففٹی ففٹی کے نظریے کی بنیاد ہے۔ ہر جذبہ اپنے مقابل جذبے کے بغیر ادھورا ہے۔
انسانی فطرت میں خیر و شر، نیکی و بدی، روشنی و تاریکی، شرافت و رذالت کے تصورات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ یہ تصورات ہمیں ایسے معاملات کی نشان دہی کرتے ہیں جو ہم شدت سے محسوس تو کرتے ہیں مگر انہیں مکمل طور پر دیکھ نہیں سکتے۔ پانچ وقت کی اذان میں خدا کی طرف بلایا جاتا ہے لیکن دل کبھی کبھار بہلاوے میں آکر شیطانی وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی انسانی کشمکش ہے، جو اسے لمحہ بہ لمحہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر میدان میں کامیاب ہو، ہر خواب پورا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناکامی اور پریشانی اکثر اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ بعض اوقات بندہ ہزاروں اندیشے پال کر بیٹھا ہوتا ہے مگر وہ اندیشے کبھی حقیقت نہیں بنتے، اور دوسری طرف کچھ اچھائیاں غیر متوقع انداز میں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر ناکام ہوتا ہے نہ مکمل طور پر کامیاب۔ وہ دونوں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے۔
زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے عقل اور ہمت دونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک قدم تدبیر کا ہوتا ہے تو دوسرا تقدیر کا۔ اگر انسان صرف عقل کے سہارے چلے تو وہ جذبات سے محروم ہو جاتا ہے، اور اگر صرف جذبات پر انحصار کرے تو حقیقت کی زمین اس کے قدموں سے کھسکنے لگتی ہے۔ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ہم مشورہ لیتے ہیں، رہنمائی چاہتے ہیں، اور بعض اوقات ہم خود کسی کی مدد کرتے ہیں۔ دن بھر کی محنت کے بعد رات کا سکون، شور کے بعد خاموشی، بے ترتیبی کے بعد ترتیب یہ سب زندگی کے وہ پہلو ہیں جو اسے متوازن بناتے ہیں۔ ہر احساس، ہر جذبہ، اور ہر کیفیت اپنی ضد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم ایک کو تسلیم کریں اور دوسرے سے انکار کریں، تو توازن بگڑ جاتا ہے۔ یہی توازن اصل خوشی کا ضامن ہے۔ ہمیں اس بات کو بہر صورت سمجھنی چاہیے کہ زندگی میں صرف مثبت پہلو ہی نہیں ہوتی ہیں منفی پہلو بھی اتنے ہی اہم ہوتے ہیں۔
انسان مسلسل خواہشات، اصولوں، جذبات اور حقیقتوں کے درمیان سفر کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ سب کچھ فوراً حاصل ہو جائے، کبھی اصول راستہ روک لیتے ہیں۔ دوست اور دشمن، محبت اور نفرت، امن اور اضطراب، سکون اور بے چینی یہ سب انسان کے اندر ایک ہی وقت میں موجود ہوتے ہیں۔ انسان کبھی پھولوں کی نرمیاں محسوس کرتا ہے اور کبھی کانٹوں کی چبھن سہتا ہے۔ کچھ محرکات اندرونی ہوتے ہیں، کچھ بیرونی۔ کچھ فیصلے ہم خود لیتے ہیں، کچھ ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ، سختی و نرمی، روشنی و تاریکی، اپنا و پرایا، سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر ہم ان سب کی موجودگی کو تسلیم نہ کریں تو ہم حقیقت سے منہ موڑنے لگتے ہیں، اور یہی انکار انسان کو غیر متوازن اور غیر مطمئن بنا دیتا ہے۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم ہر حال کو زندگی کا حصہ سمجھیں اور خود کو اس کے مطابق ڈھالیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے ففٹی ففٹی صرف ایک نظریہ ہی نہیں ہے یہ ایک حفاظتی دائرہ بھی ہے۔ جو انسان اس کو سمجھ جاتا ہے وہ زندگی کے ہر رنگ کو پہچان لیتا ہے، ہر درد کو محسوس کرتا ہے، اور ہر خوشی کا لطف دوبالا کرتا ہے۔ لیکن جو اس توازن کو نظر انداز کرتا ہے، وہ یا تو حد سے زیادہ پرجوش ہو جاتا ہے یا پھر حد سے زیادہ مایوس۔ نتیجہ؟ وہ زندگی کی شاہراہ پر لڑکھڑاتا ہے، گرتا ہے، کٹتا ہے اور تڑپ تڑپ کر جیتا ہے۔ خوشی کی ایک خبر اسے آسمانوں پر پہنچا دیتی ہے اور دکھ درد کا ایک موقع اسے زمین میں دفن کر دیتا ہے۔ وہ جذبات کی لہروں میں بہتا رہتا ہے۔ حالانکہ اصل سکون تب آتا ہے جب انسان خوشی کو انعام اور غم کو سبق سمجھے۔ یہی طرزِ فکر انسان کو نہ صرف مضبوط بناتا ہے بلکہ اس کے اندر وہ حوصلہ پیدا کرتا ہے جس کی بدولت وہ ہر آزمائش میں سرخرو ہو سکتا ہے۔