وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف آج ضلع چکوال کے دورے پر تشریف لا رہی ہیں۔ ان کے اس دورے کے دوران الیکٹرک بسوں کا افتتاح، طلبہ میں لیپ ٹاپ اور مستحقین میں چیک تقسیم کیے جائیں گے، جبکہ وہ ضلع چکوال اور راولپنڈی ڈویژن کے بعض اہم منصوبوں کے حوالے سے ممکنہ طور پر میٹنگز کی صدارت بھی کریں گی۔ عوامی توقعات بجا طور پر یہ ہیں کہ وزیراعلیٰ سرکاری اعلانات تک محدود نہ رہیں بلکہ ان دیرینہ مسائل کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کروائیں جنہوں نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔
چکوال شہر کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک سرگودھا روڈ یا ”بھون روڈ“ ہے۔ یہ سڑک اسلامیہ چوک سے بسم اللہ ہوٹل تک برسوں سے تباہ حالی کا شکار ہے۔ پی ڈبلیو ڈی کے ریکارڈ کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل ہو چکی ہے، بجٹ لگ چکا ہے، حتیٰ کہ مختلف رپورٹس میں بجٹ کے اخراجات بھی ظاہر کیے جا چکے ہیں۔ مگر بیوروکریسی کی روایتی سستی، کرپشن اور سابقہ ادوار کے بعض سیاسی و انتظامی رویوں نے اس منصوبے کو نہ صرف ادھورا چھوڑ دیا۔ بلکہ مزید اس کی شکل کو گھناؤنا کر دیا۔ عوام کے لیے یہ بحث بے معنی ہے کہ پیسہ کہاں گیا یا کس نے کھایا، کیونکہ بھگتنا تو صرف عوام کو ہی پڑ رہا ہے۔ اس خستہ حال سڑک پر روزانہ حادثات ہوتے ہیں۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، عام شہریوں کو مالی نقصان الگ سہنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر صبح کے وقت جب بچے اسکولوں کو جا رہے ہوتے ہیں تو یہ راستہ عذاب بن جاتا ہے۔ لوگ بروقت اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتے اور کئی شہری مستقل کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ غرباء کے موٹر سائیکل پنچر ہو جاتے ہیں، پیدل چلنے والے اذیت میں مبتلا ہیں، مگر ان سب مصائب کے باوجود منصوبہ صرف اور صرف فائلوں اور کاغذی کارروائی تک محدود ہے۔
اسی طرح دوسرا سنگین مسئلہ ملہال مغلاں سے آگے پنڈی گجراں سے جانے والی وہ سڑک ہے جو ضلع جہلم کے ایک گاؤں ڈھوک موچیاں سے آکر ملتی ہے۔ تقریباً 12 کلو میٹر طویل یہ سڑک بھی بدترین حالت کا شکار ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں اس کی مرمت تک نہیں کی گئی، جس کے باعث اس راستے پر سفر کرنا نہ صرف دشوار ہو گیا ہے بلکہ حادثات کا خطرہ بھی بڑھ چکا ہے۔ عوامی رائے یہی ہے کہ بھون روڈ اور پنڈی گجراں والی سڑک دونوں کی فوری تعمیر و بحالی کا حکم دیا جائے، تاکہ لوگوں کو روزمرہ کے عذاب سے نجات مل سکے۔
تیسرا اہم مسئلہ ضلع چکوال کے اسپتالوں، بالخصوص ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) اسپتال کی خستہ حالی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک ایک بستر پر دو دو اور تین تین مریض ڈالے جاتے ہیں، جو نہ صرف علاج کے معیار کو متاثر کرتا ہے بلکہ مریضوں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اس اسپتال کو کم از کم ایک ہزار بستروں پر مشتمل جدید سہولتوں سے آراستہ ادارہ بنایا جانا چاہیے تاکہ عوام کو بہتر علاج کی سہولت میسر آ سکے۔
چوتھا بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے۔ خصوصاً چکوال شہر میں یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ شہریوں کو صاف اور صحت بخش پانی فراہم کرنے کے لیے فلٹریشن پلانٹس اور واٹر سپلائی اسکیموں کی فوری اشد ضرورت ہے۔ زیر زمین پانی مزید کم ہوتا جا رہا ہے، اس کے حل کے لیے حکومتی سرپرستی میں شہر کے آس پاس پانی چوس کنوئیں ہونے چاہیے جو بارشوں کے پانی کو اپنے اندر سمو لیں اور زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لے کر آئیں۔
پانچواں مسئلہ جنگلات اور قدرتی ماحول کی تباہی ہے۔ ضلع چکوال کے پہاڑ اور جنگلات بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے سرمایہ کار پرائیویٹ زمینیں خرید کر ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کی تیاریوں میں ہیں۔ اگر یہ عمل نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں چکوال اپنی سبز پٹی اور قدرتی حسن سے محروم ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کو محفوظ بنایا جائے، نئی شجرکاری مہمات شروع کی جائیں، پہاڑوں کی کٹائی کو روکا جائے اور زرعی رقبے کو ہاؤسنگ سکیموں کے بجائے زیتون اور دیگر پھل دار درختوں کی کاشت کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ چوآسیدن شاہ اور ملحقہ علاقوں میں قائم سیمنٹ فیکٹریوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جائیں۔
چھٹا بڑا مسئلہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کا فقدان ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ بھی بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اگر ضلع چکوال میں انڈسٹریل زون یا چھوٹی صنعتوں کے فروغ پر توجہ دی جائے تو نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ہنر مند افراد اپنے گھر کے قریب ہی روزی کما سکیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس موقع پر صرف افتتاحی تقاریب اور اعلانات تک محدود نہ رہیں بلکہ ان مسائل کے مستقل حل کو یقینی بنائیں۔ عوامی سہولت ہی اصل خدمت ہے، اور یہی حکومت پر اعتماد کی سب سے بڑی دلیل بن سکتی ہے۔