"سواره” — ایک ظالمانہ رسم

پشتون قوم اگرچہ غیرتمندی، مہمان نوازی اور بہادری کے لیے مشہور ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس میں کچھ ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں جو نہ صرف ظلم کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ پورے قوم کی بدنامی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ان ظالمانہ رسومات میں سے ایک بدترین رسم "سواره” ہے۔

"سواره” اُس رسم کو کہا جاتا ہے جس میں اگر کسی گھرانے یا قبیلے کا فرد کسی کو قتل کرے یا کوئی اور سنگین جرم سرزد هوجاۓ تو صلح یا ہرجانے کے بدلے میں مجرم کے خاندان سے ایک لڑکی مقتول یا متاثرہ فریق کے گھر شادی کے نام پر دے دی جاتی ہے۔ یہ لڑکی عموماً نہ صرف بے قصور اور مجبور ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے کوئی رائے بھی نہیں لی جاتی۔ نہ اُسے شادی پر رضا مندی کا حق حاصل ہوتا ہے۔نہ اس کو کوئی اختیار دیا جاتا ہے۔ ایسی زبردستی کی شادی کو "سواره” کہا جاتا ہے۔

اس رسم کی وجہ سے بے شمار لڑکیاں خوشحال زندگی گزارنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ نہ وہ اپنے والدین کے گھر کی رہتی ہیں۔ نہ انہیں شوہر کے گھر عزت ملتی ہے۔ وہ ظلم جبر اور ذلت کا شکار بنتی ہیں پھر ان رسومات کو "رواج” کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ کوئی رسم نہیں بلکہ سراسر ظلم ہے۔ ایک انسان جرم کرے اور سزا کسی معصوم کو دی جائے یہ کیسا انصاف ہے؟

سواره کے تحت دی گئی لڑکی اکثر ایک عزت دار زندگی سے محروم رہتی ہے۔ دوسرے فریق کے لوگ اس سے انتقام لیتے ہیں اس پر تشدد کرتے ہیں، اور اس کا پورا مستقبل برباد کر دیتے ہیں۔ اگرچہ قانوناً یہ رسم جرم ہے مگر بدقسمتی سے بعض علاقوں میں یہ روایت آج بھی قائم ہے۔

۲۰۱۱ میں پاکستان کے پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جس میں سواره، ونی اور دیگر ظالمانہ رسموں کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا، اور سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ قوانین صرف کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ کیونکہ قبائلی علاقوں کی جرگے اور بااثر افراد کی مرضی اکثر قانون پر حاوی ہو جاتی ہے۔

اسلام نے بھی عورت کو بلند مقام دیا ہے۔ اسلام میں نکاح عورت کی رضا مندی سے مشروط ہے۔ مگر سواره میں یہ حق پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف شریعت کے خلاف ہے بلکہ انسانیت اور پشتون روایات کے بھی منافی ہے۔

سواره کے خاتمے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

1= قانونی آگاہی اور عملدرآمد

عوام کو واضح طور پر یہ بتانا ضروری ہے کہ سواره ایک جرم ہے، اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ حکومت اور پولیس کو چاہیے کہ اس قسم کے معاملات میں فوری کارروائی کرے مجرموں کو گرفتار کرے اور عدالت کے کٹہرے میں لائے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ قانون سے باخبر رہیں اور جہاں کہیں اس طرح کا ظلم دیکھے تو فوری رپورٹ کریں۔

2= دینی علما کا کردار:

علما کو چاہیے کہ وہ اپنے خطبات اور وعظ میں یہ واضح کریں کہ یہ عمل اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام میں نکاح لڑکے اور لڑکی کے مرضی و خوشی سے ہوتا ہے۔نہ کہ زبردستی یا بدلے کی بنیاد پر۔ چونکہ لوگ دین کی بات مانتے ہیں۔ اس لیے اگر علما کرام آواز بلند کریں تو بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔

3= تعلیم اور شعور:

تعلیم ہر قسم کے ظلم کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار ہے۔ اگر ہماری بہنیں، بیٹیاں اور بیٹے تعلیم یافتہ ہوں گے تو وہ ایسی ظالمانہ رسومات کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینا ضروری ہے۔ تعلیم اور شعور کے ذریعے ہی ہم اس ظلم کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

4=جرگوں کا اصلاح:

ہماری روایتی جرگوں کو انصاف پر مبنی فیصلے کرنے چاہئیں نہ کہ مجرم کے بدلے میں کسی بے گناہ لڑکی کو قربان کرنا۔ جرگوں کو قانون شریعت اور انسانیت کے اصولوں کے مطابق فیصلے دینے چاہئیں۔ اگر کوئی جرگہ غلط فیصلہ کرے تو وہ جرگہ نہیں بلکہ ظلم کی آماجگاہ ہے۔

5=سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار

سماجی کارکن این جی اوز اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس موضوع کو عوام کے سامنے لائیں۔ عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ سواره نہ کوئی عزت ہے، نہ غیرت بلکہ یہ ایک شرمناک ظلم ہے۔ جب یہ مسئلہ اجاگر ہو گا تو عوام بھی اٹھ کھڑے ہوں گے اور یہ رسم ختم ہو گی۔

آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ پشتون اور دوسری علاقاٸی لوگوں کو چاہیے کہ اپنے ثقافت کو ظلم سے پاک رکھے۔ عورت ہماری ماں، بہن، بیٹی ہے۔ عزت کی نشانی ہے۔ سواره پشتون ثقافت کا حصہ نہیں بلکہ باعثِ شرم ہے۔ آئیں، ہم سب اس ظالمانہ رسم کے خلاف ایک آواز بنیں اور انصاف علم اور انسانیت کی اقدار کی حمایت کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے