آخرکار سچ یہ ہے: ہم حکومتیں بدلتے ہیں مگر عادتیں نہیں بدلتیں۔ سیاستدان بدل جاتے ہیں مگر عوامی رویے وہی رہتے ہیں۔ اگر کسی کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے تو آئین کی کسی شق پر نہیں، اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے کہ آپ نے آخری بار کب اخلاق کو ترجیح دی، کب وعدہ پورا کیا، کب سچ بولا؟ جب تک ہم اپنی تصویر صاف نہیں کریں گے، دوسروں پر داغ تھوپنا فضول ہے۔
ہماری قومی عادت بن گئی ہے کہ ہر ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرایا جائے۔ بجلی چلی جائے تو حکومت نالائق، مہنگائی بڑھے تو سیاستدان کرپٹ، سڑک ٹوٹ جائے تو ایم این اے مجرم، اور اگر دفتر میں رشوت دی جائے تو الزام پورے نظام پر۔ لیکن کبھی ہم یہ سوچتے بھی ہیں کہ ہم خود کس کھاتے میں ہیں؟ کیا ہم دکان پر تول پورا کرتے ہیں یا اپنی ترازو کا کانٹا ذرا سا ٹیڑھا رکھ دیتے ہیں تاکہ دو روپے بچ جائیں؟ کیا ہم دفتر میں وقت پر پہنچتے ہیں یا چائے اور ناشتہ ختم کیے بغیر گھڑی کی طرف دیکھتے بھی نہیں؟ قطار دیکھ کر ہمیں خارش کیوں ہوتی ہے کہ کوئی بھی لائن توڑ کر نکل جانا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم دوسروں کے جرم کو "کرپشن” اور اپنے جرم کو "ہوشیاری” کا لقب دیتے ہیں۔
حکمران کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی ہم ہی میں سے نکلتے ہیں۔ دودھ کی نہروں سے پیدا نہیں ہوتے؛ ہمارے ہی ووٹ اور ہمارے ہی رویے انہیں اوپر پہنچاتے ہیں۔ عوام اگر دودھ بیچتے ہوئے پانی ملاتی ہے تو پھر حکمران بھی وزارت میں پانی ملائیں گے۔ جب استاد کلاس کا آدھا وقت سگریٹ پی کر گزار دے گا تو پھر تعلیمی وزیر سے کون سی قربانی کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ یہ وہ نکتہ ہے جو ہم ماننے کو تیار ہی نہیں، کیونکہ اگر یہ مان لیا تو آئین اور حکومت پر گالیاں دینے کا مزہ کم ہو جائے گا۔
ہماری منافقت بھی نایاب ہے۔ ووٹ دیتے وقت ہم اپنی برادری، ذات، چائے کے کھانے یا تھانے کے کام کو دیکھتے ہیں۔ پھر جب وہی نمائندہ اسمبلی میں جا کر اپنے ذاتی کام نکالتا ہے تو ہم حیران ہو کر پوچھتے ہیں: "یہ سیاستدان ایسے کیوں ہیں؟” بھائی، جیسے بیج بوؤ گے ویسا پھل کھاؤ گے؛ مگر ہم چاہتے ہیں بیج گنے کا بوئیں اور کھیت میں آم اگ آئے۔
سڑک پر لین کاٹنے والے ہم ہی ہیں۔ امتحان میں نقل کرنے والے ہمارے ہی بچے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے ہم ہی ہیں۔ پڑوسی کا حق مارنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ پھر شکایت کرتے ہیں کہ ملک میں انصاف نہیں! یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پورا سال ورزش نہ کرے اور پھر شیشہ دیکھ کر حیران ہو کہ پیٹ کیوں نکل آیا۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں — کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی آمریت کے نام پر، کبھی کسی نعرے کے نام پر۔ لیکن جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے، نتیجہ وہی رہے گا۔ ایک نئے لیڈر کے نعرے لگیں گے، نئے جھنڈے بنیں گے، جلسے ہوں گے، اور چند مہینے بعد وہی پرانی آہیں، وہی پرانی شکایتیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ شرم، حیا، غیرت، انسانیت اور ادب امپورٹ کیے نہیں جا سکتے؛ نہ درخت سے توڑے جا سکتے ہیں، نہ دکان سے خریدے جا سکتے ہیں، نہ کسی حکم سے نافذ ہو کر فوراً بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اندر سے اُگنے والی عادتیں ہیں، چھوٹے چھوٹے اعمال کا مجموعہ ہیں جو روزمرہ کے انتخابوں سے بنتی ہیں۔
آخرکار، سچ یہی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل ہمارے اندر ہی چھپا ہے۔ اگر ہم اپنی تصویر صاف نہ کریں تو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے صرف ہاتھ گندے ہوتے ہیں، چہرہ کبھی صاف نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے اندر تھوڑی سی شرم، حیا، غیرت، انسانیت اور ادب پیدا کرنا پڑے گا۔ ورنہ باقی سب نصیحتیں اور دعوے محض تماشہ ہیں۔