لائبریریاں وہ مقامات ہیں، جہاں اذہان علم سے، حال ماضی سے اور طلب تسکین سے گویا بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ علم کے فروغ، شعور کے پھیلاؤ اور تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں لائبریریوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ زمین پر انسان کے قدم رکھتے ہی اسے سب سے پہلے اپنی لاعلمی کا احساس ہوا اور یوں اس کا ذہن اور وجدان دونوں علم کے تلاش میں چل پڑے جس کا سلسلہ آج تک بلا توقف جاری ہے۔ چند برس قبل معروف امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کی ایک بہت ہی گہری بات نظر سے گزری کہہ رہے تھے کہ "انسانی اذہان اور اشیاء کے درمیان ازل سے قدرتی لہریں مسلسل گردش میں ہیں اور یہی گردش علم کے تخلیق اور ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں”۔ یہ نہایت ہی گہری اور بامعنی بات ہے کہ قدرت نے اذہان اور اشیاء کے درمیان آغاز سے ہی ایک گہرا رشتہ قائم کیا ہے۔ اذہان اور علم کے درمیان ملاقات کی جگہ لائبریری ہوتی ہے۔
لائبریریاں کسی بھی صحت مند شعور یافتہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ عوامی علم کے وہ شہرِ آشنا ہیں جہاں ہر شہری کو حقِ معلومات تک یکساں رسائی حاصل ہوتی ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے یا فکر سے ہو۔ ایک ایسے دور میں جب غلط معلومات اور تعصبات کی وبا عام ہے، لائبریریاں حقائق پر مبنی، مستند اور معیاری معلومات کا ایک محفوظ پناہ گاہ ہیں۔ یہ شہریوں کو تنقیدی سوچ سے لیس کرتی ہیں، انہیں مختلف آرا سے روشناس کراتی ہیں اور اس قابل بناتی ہیں کہ وہ معاشرے کے باشعور اور ذمہ دار افراد بن کر ابھریں۔ اسی طرح، لائبریریاں شہریوں کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کر کے شفاف طرزِ حکمرانی اور جمہوری عمل میں فعال شراکت کے لیے تیار کرتی ہیں۔
لائبریری محض کتابوں کا ڈھیر نہیں، بلکہ انسانی شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے کا ایک زندہ و تابندہ ادارہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طالب علم اپنے نصاب سے آگے کے علوم سے آشنا ہوتا ہے، ایک محقق اپنے میدان کی گتھیاں سلجھاتا ہے، اور ایک عام قاری اپنے شوق اور ذوق کی تسکین کرتا ہے۔ لائبریریاں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا بھی اہم ذریعہ ہیں۔ علم و ادب، علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی پر مشتمل کتب کے وسیع ذخیرے نئی نسل کے تخیل کو مہمیز کرتے ہیں، ان میں جستجو اور ایجادات کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر پڑھی گئی ایک کتاب، دریافت ہونے والا ایک خیال، یا دیکھا گیا ایک نقشہ مستقبل کے کسی عظیم سائنسدان، مصنف یا محقق کے سفر کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
عہدِ حاضر میں لائبریریوں کا دائرہ کار روایتی کتابوں سے نکل کر لامحدود ڈیجیٹل دنیا تک پھیل چکا ہے۔ جدید لائبریریاں اب "نالج ہب” کا کردار ادا کر رہی ہیں، جہاں قارئین کو ای بُکس، آن لائن جرنلز، ڈیٹا بیسز اور تحقیقی سافٹ ویئر تک رسائی میسر آتی ہے۔ یہ ادارے ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جہاں معمر افراد سے لے کر نوجوانوں تک سب ہی کو انٹرنیٹ کے مؤثر استعمال، آن لائن رسائی اور نئی ٹیکنالوجیز سے ہم آہنگ ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس طرح، لائبریریاں نہ صرف علم کے دیے کو روشن رکھ رہی ہیں بلکہ اس کی لو کو تیز تر اور وسیع تر بھی کر رہی ہیں۔
دنیا کی عظیم لائبریریاں، چاہے وہ لائبریری آف کانگریس ہو یا برٹش لائبریری، محض عمارتیں یا کتابوں کے ذخیرے نہیں ہیں۔ یہ انسانی تاریخ، فکر اور تخلیق کے زندہ میوزیم ہیں۔ ان کے مخطوطوں میں صدیوں پرانے راز دفن ہیں، ان کی نایاب کتابیں ماضی کے دریچے کھولتی ہیں، اور ان کے ڈیجیٹل آرکائیوز مستقبل کے لیے علم کا خزانہ محفوظ کر رہے ہیں۔ یہ لائبریریاں قومی سرحدوں سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کی مشترکہ میراث بن چکی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اساتذہ، طلباء اور محققین ان کے وسائل سے استفادہ کرتے ہیں، جس سے بین الثقافتی مکالمہ، باہمی افہام و تفہیم اور عالمی تعاون اور ہمدردی کو تقویت ملتی ہے۔ یہ ادارے اس بات کا ثبوت ہیں کہ علم کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں، بلکہ ساری انسانیت کا مجموعی اثاثہ ہے۔
لائبریریوں کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تحفظ اور ترقی کے لیے مربوط حکمت عملی اپنائی جائے۔ حکومتوں، کارپوریٹ اداروں اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ لائبریریوں کے ڈیجیٹلائزیشن کے منصوبوں، جدید سہولیات کی فراہمی اور لائبریرینز کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر لائبریریوں کے درمیان نیٹ ورکنگ کو مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مختلف ممالک کی لائبریریاں ایک دوسرے کے ڈیجیٹل ذخائر سے مربوط رہ کر، مشترکہ تحقیقی منصوبے بنا کر، اور علم کے تبادلے کے پروگراموں کے ذریعے ایک ایسی عالمی دانشمندانہ برادری کی تشکیل و تعمیر میں مدد دے سکتی ہیں، جو کہ تمام تر انسانی مسائل اور بحرانوں کے پرامن اور عالمانہ حل پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
لائبریریوں کو طویل عرصے سے علم کے بنیادی ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو تعلیم و تحقیق اور فکری کھوج کے لیے قابلِ قدر وسائل کی فراہمی کا کام کر رہی ہیں۔ ان کی اہمیت اور افادیت تک رسائی کو عمومی بنانے، تمام افراد کو استفادے کی اجازت دینے اور معاشرے میں علم کے شوق کو بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانا ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔
اسی مقصد کے حصول میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ لائبریریوں سے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یکساں استفادے کا موقع میسر آئے۔ مالی اور سماجی حیثیت، عمر کا فرق یا تعلیمی پس منظر سے قطع نظر، لائبریریاں سب کے لیے قابلِ رسائی ہونی چاہیے۔
یہ علم کی کھڑکیاں ہیں ان سے لوگوں کو اپنے ذہنی افق کو وسعت دینے، نت نئی مہارتیں سیکھنے اور اپنی اپنی دلچسپیوں کو آگے بڑھانے کا موقع میسر آتا ہے۔ لائبریریاں کتابیں، رسائل، اخبارات، ڈیجیٹل میڈیا اور بہت سارے آن لائن وسائل فراہم کر رہی ہیں اور اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ ہر کوئی باخبر رہے، فکری طور پر بیدار رہے اور سماجی و ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے آگاہ بھی رہے۔
لائبریریاں اہم سماجی مراکز کے طور پر بھی کام کے لیے مناسب جگہیں ہیں، یہ لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں اور یوں سماجی روابط کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ ملاقاتوں، ورکشاپس، لیکچرز اور دوسری ثقافتی تقریبات کے لیے موزوں مواقع پیش کرتی ہیں، جس سے تعمیری مشاغل، علمی مکالمے اور دو طرفہ خیالات کے تبادلے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہر جگہوں پر لائبریریاں کمیونٹی مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں، ایسے پروگراموں کی میزبانی کرتی ہیں جو مقامی آبادی کی ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کرنے میں مددگار ہو، مثلاً کتب میلے، تحریری مقابلے، علمی ورکشاپس اور ٹیکنالوجی کے تربیتی سیشنز وغیرہ۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، لائبریریوں نے اپنے قارئین کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی خدمات کو توسیع و تنوع بخشی ہیں مثلاً وہ کمپیوٹرز، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹل وسائل تک رسائی فراہم کر رہی ہیں، ڈیجیٹل محدودیت کو ختم کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ مواصلاتی ٹیکنالوجی تک عمومی رسائی ممکن ہو۔ اس کے علاؤہ لائبریریاں علمی اور ثقافتی ورثے کو تحفظ دینے، نایاب کتابوں، مخطوطات، تصاویر اور تاریخی دستاویزات کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
اگر چہ دنیا میں اپنے حجم، تنوع، ذخائر اور تاریخی حیثیت کے اعتبار سے بے شمار منفرد لائبریریاں موجود ہیں اور ہر ایک کی اپنی افادیت بہر صورت قائم ہے لیکن دنیا کی سب بڑی لائبریری کا اعزاز امریکہ کو حاصل ہے۔ یہ واشنگٹن ڈی سی میں قائم لائبریری آف کانگریس ہے۔ اس کو بین الاقوامی طور پر اہم معلوماتی مرکز کا درجہ حاصل ہے۔ کانگریس کی یہ لائبریری ایک تحقیقی اور علمی لائبریری ہے جو امریکی وفاقی حکومت کے شعبہ قانون کی ایک شاخ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ یہ 1800 میں قائم کیا گیا تھا اور یہ ملک کا سب سے قدیم وفاقی ثقافتی ادارہ ہے۔ لائبریری آف کانگریس میں لاکھوں کتابیں، ریکارڈنگز، تصاویر، نقشے، مخطوطات اور دیگر مواد مختلف شکلوں اور زبانوں میں موجود ہیں۔ یہ کتابوں اور مضامین کے ایک وسیع ذخیرے کو دامن میں سموئی ہوئی ہے۔ لائبریری آف کانگریس کے مجموعوں میں نایاب کتابیں، تاریخی دستاویزات، بڑے پیمانے کا ادبی کام، سائنسی اشاعتیں اور بہت کچھ اس کے علاؤہ بھی شامل ہے۔
اپنے وسیع و عریض مجموعوں کے علاوہ، لائبریری آف کانگریس اپنے وسائل تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے مختلف خدمات اور سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہ اسکالرز، طلباء اور عام لوگوں کو آن لائن کیٹلاگ، ڈیجیٹل کلیکشن، نمائشیں، تعلیمی پروگرامز اور تحقیقی معاونت پیش کرتی ہے۔ دنیا بھر میں لائبریری آف کانگریس کو سب سے بڑی لائبریری کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس کے علاؤہ کچھ دیگر قابل ذکر لائبریریاں بھی موجود ہیں جن میں وسیع ذخیرہ اور نمایاں ثقافتی ورثہ محفوظ ہیں۔ ان میں سے لندن کی "برٹش لائبریری”، بیجنگ میں چین کی "نیشنل لائبریری” اور ماسکو میں "اسٹیٹ لائبریری” شامل ہیں۔ ان لائبریریوں میں سے ہر ایک نے عالمی سطح پر علم کے تحفظ اور پھیلاؤ میں اپنا قابلِ ذکر حصہ شامل کیا ہے۔
دنیا کے تمام دولت مند اور اختیار مند حضرات کو چاہیے کہ وہ لائبریریوں کے قیام اور پھیلاؤ میں خصوصی دلچسپی لے کر اس شعبے میں باقاعدہ سرمایہ کاری کریں اور اس کو سیاحت کی طرح ایک صنعت کا درجہ دیں۔ مختلف عالمی لائبریریوں سے استفادے کے خاطر بین الاقوامی اسفار کو آسان بنایا جائیں یہی حکمت عملی افراد، اذہان اور اقوام سب کو قریب لانے میں بے حد موثر ثابت ہوگی اور اس سے ایک زیادہ مربوط، منسلک، پرامن اور ہم آہنگ دنیا وجود میں اجائے گی جس کی تمام انسانیت کو اشد ضرورت ہے۔