میں نے زندگی میں کئی تقاریب دیکھی ہیں، کئی چہروں پر مسکراہٹیں ابھرتی اور کئی آنکھوں میں خواب بکھرتے دیکھے ہیں، مگر اس شام کا منظر دل پر ایک ایسی مہر کی مانند ثبت ہو چکا ہے جو وقت گزرنے کے باوجود دھندلا نہیں ہو رہا ہے۔ سامعین کے درمیان بیٹھی ایک ننھی بچی جب اسٹیج کی طرف بڑھی، تو ہر قدم کے ساتھ جیسے ایک پورا خاندان فخر کی چادر اوڑھتا نظر آیا۔ باپ کی آنکھوں میں چمک تھی، وہ چمک جو برسوں کی دعا، تربیت اور قربانی کے بعد کسی پھل کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔
یاد رکھیں کچھ چمک لفظوں کی محتاج نہیں ہوتیں، اور کچھ لمحے صرف دل سے محسوس کیے جاتے ہیں یہ وہی لمحہ تھا۔ اسٹیج پر قدم رکھتے ہی جیسے بیٹی کے چہرے پر ایک روشنی سی پھیل گئی، وہ روشنی جسے صرف وہی بیٹیاں لے کر آتی ہیں جنہیں اعتماد کا خزانہ اپنے والد کی محبت سے ملا ہو۔ سامعین دم سادھے دیکھ رہے تھے، اور میں سوچ رہی تھی: رشتے اگر کردار سے جُڑ جائیں، تو عمر، مرتبہ یا طاقت ان کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد کے نیشنل کونسل آف آرٹس میں ایک یادگار اور باوقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جو کہ نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم کے زیرِ اہتمام چوتھے تاریخی امن ایوارڈ، انقلابی شاعر اور سیاستدان اجمل خٹک مرحوم کی صد سالہ جشنِ ولادت کے موقع پر سجائی گئی۔ یہ صرف ایک تقریب نہ تھی یہ ثقافت، اتحاد، فلاح عامہ، محبت، اور انسان دوستی کی حسین تصویر تھی۔
اس موقع پر پشتون کلچر ڈے اور گرینڈ میوزیکل نائٹ کو بھی بھرپور طریقے سے منایا گیا، جس نے نہ صرف ثقافتی ورثے کو اجاگر کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں اپنی شناخت پر فخر کا جذبہ مزید گہرا کر دیا۔
اس تنظیم کے ساتھ میری حیثیت بطور پریس سیکرٹری ہے، اور میں نے اس تقریب کے ہر لمحے کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ دل سے محسوس بھی کیا۔ اس تقریب میں جس شخصیت نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی، وہ تنظیم کی ننھی، خوش اخلاق اور غیر معمولی طور پر باہمت چھ سالہ لیڈر، تانیہ مسکان تھیں۔ اتنی کم عمر میں ان کے جذبے، ان کی باتوں اور ان کے مقاصد نے وہاں موجود ہر فرد کے دل کو چھو لیا۔
تقریب کا آغاز تانیہ مسکان کی دل آویز اور معصوم آواز میں کی گئی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جس نے فضا کو روحانیت سے بھر دیا۔ اس پل مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی فرشتے نے حاضری دی ہو۔ تانیہ مسکان اس تنظیم کے چیئرمین نسیم مندوخیل کی لختِ جگر ہیں، جو بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ جب بیٹیوں کو بھرپور سپورٹ دی جائے تو وہ معاشرے میں تبدیلی کی علامت بن سکتی ہیں۔
اسی تقریب کے دوران ایک اور یادگار لمحہ اس وقت آیا جب معروف علمی و ادبی شخصیات پروفیسر نورالامین اور جناب افراء سیاب خٹک نے تانیہ مسکان کو "چائلڈ ایمبیسڈر” کے اعزاز سے نوازا۔ یہ اعزاز ان کی کم عمری میں خدمت خلق کے جذبے، چائلڈ لیبر کے خلاف آواز اٹھانے اور غریب بچوں کے حقوق کی جدوجہد پر دیا گیا۔ ان کے چہرے پر اس اعزاز کی وصولی کے بعد جو مسکراہٹ تھی، وہ امید، فخر، اور ایک نئے عزم کی آئینہ دار تھی۔
تقریب میں چیئرمین نسیم مندوخیل نے اپنے بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر ایک جذباتی خطاب کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر بیٹوں کو ترجیح دی جاتی ہے، مگر میں چاہتا ہوں کہ بیٹیوں کو سب سے پہلے سپورٹ کیا جائے، کیونکہ یہی بیٹیاں کل کو قوم کا مستقبل سنواریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کو ہمیشہ یہ اعتماد رہے کہ اس کا باپ اس کے ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے معاشرے میں بہتری لائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تانیہ کو یہ اعزاز ان بزرگوں کے ہاتھوں سے ملا ہے جنہوں نے معاشرے میں بھلائی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی، اور کل جب تانیہ بڑی ہو جائے گی تو اس لمحے کی اہمیت اور ذمہ داری کو بخوبی سمجھے گی۔
ایک اور خوبصورت اور روح پرور منظر اس وقت سامنے آیا جب خیبر پختونخوا کی معروف سماجی رہنما، محترمہ بشریٰ فرح، نے جشنِ ولادتِ رسولِ اکرم ﷺ کے سلسلے میں نوے ژوند تنظیم کے تمام ممبران کو میڈلز بطور تحفہ پیش کیا اور اس دوران تانیہ مسکان کے والد صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ میرا میڈل میری بیٹی کو پہنایا جائے۔ اس کے بعد یہ میڈل گل اکبر صاحب کے مبارک ہاتھوں سے تانیہ کو پہنایا گیا، اور یہ منظر دلوں پر ایک خوشگوار نقش چھوڑ گیا، جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
تانیہ ایک ہونہار طالبہ ہیں جو ہر امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتی ہیں۔ ان کی ذہانت صرف دنیاوی تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ دینی مدرسے میں بھی وہ سب سے آگے ہیں۔ ان کے اساتذہ ان کی ادب و احترام، محنت اور لگن کی کھل کر تعریف کرتے ہیں۔ ان کے والد صاحب جب انہیں اسکول اور مدرسے چھوڑنے جاتے ہیں تو تانیہ سفر کی دعائیں اور آیت الکرسی بھرپور انداز میں پڑھتی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، نہ ہم کسی حادثے کا شکار ہوں، اور نہ کسی کو ہماری وجہ سے تکلیف پہنچے۔
تانیہ مسکان کا سب سے بڑا خواب ایک ایسا اسکول قائم کرنا ہے، جہاں وہ غریب اور یتیم بچوں کو بلا معاوضہ تعلیم دے سکیں۔ وہ اکثر کہتی ہیں: اگر میرے جیسے بچے پڑھ سکتے ہیں، تو وہ کیوں نہیں؟ ان کا دل ان بچوں کے لیے تڑپتا ہے جنہیں تعلیم جیسا بنیادی حق حاصل نہیں۔ ان کی یہی خواہش اب ایک مشن بن چکی ہے، جس کے لیے وہ نہ صرف تنظیم کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہیں بلکہ بااثر شخصیات سے اپیل بھی کر رہی ہیں کہ اُن کے اس خواب کو حقیقت بنانے میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے باقاعدہ درخواست کی ہے کہ ان کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی ایوانوں تک پہنچایا جائے تاکہ وہ دن جلد آئے جب ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو، اپنے پاؤں پر کھڑا ہو، اور ایک بہتر مستقبل کی جانب بڑھ سکے۔
تانیہ مسکان نہایت سادہ، اصول پسند اور باشعور بچی ہیں۔ ان کا اصول ہے: نہ کسی کو تنگ کرو، نہ کسی کو تنگ کرنے دو۔ وہ کہتی ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا ایک دھوکہ ہے، تو پھر ہم دن رات دنیاوی خواہشات کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں؟ وہ اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام اس انداز سے کرتی ہیں کہ ان کے کردار کی عظمت واضح ہو جاتی ہے۔ اپنی دادی جان سے انہیں خاص محبت ہے۔ جب بھی اس سے ملتی ہیں، ان سے معصوم مگر گہرے سوالات کرتی ہیں، جیسے: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا؟ اس دنیا میں سب لوگ ایک جیسے کیوں نہیں؟ دادی جان! کیا آپ نے پاکستان بنتے دیکھا؟ کیا اس جنگ کے زمانے میں آپ نے ہجرت کی؟ ان سوالات میں تجسس بھی ہے اور شعور بھی، جو ان کی عمر سے کہیں بڑھ کر ہے۔
تانیہ مسکان فضول خرچی سے سخت پرہیز کرتی ہیں۔ وہ اپنے پیسے جوڑتی ہیں تاکہ کسی ضرورت مند کی مدد کر سکیں۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ انتہائی ادب سے گفتگو کرتی ہے اور گھر کے کاموں میں دل سے مدد کرتی ہیں، اور اپنی چھوٹی سی عمر میں بھی پڑوسیوں کی خبرگیری رکھتی ہیں۔ اگر کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو فوراً اپنے والدین کو آگاہ کرتی ہیں تاکہ بروقت مدد ممکن ہو۔ اگرچہ وہ گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہیں، مگر ان کی سوچ، ان کا شعور اور ان کا کردار بہت بلند ہے۔
تانیہ مسکان کا پیغام نہایت سادہ مگر دل میں اتر جانے والا ہے: زندگی میں محبتیں بانٹو، دوسروں سے نرمی سے پیش آؤ، خلوص دل سے بات کرو، اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دو۔ ان کی یہ سوچ نہ صرف بچپن کی معصومیت ہے، بلکہ یہ ایک نیک دل کی وہ آواز ہے جو اگر سنی جائے، تو معاشرہ امن، محبت اور بھائی چارے کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
ایسی بچیاں نہ صرف ایک خاندان کی چراغ ہوتی ہے یہ تو پوری قوم کی روشنی ہوتی ہیں۔ ان کے خواب، ان کی باتیں اور ان کے اصول ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ تبدیلی عمر سے نہیں، ارادے اور نیت سے آتی ہے۔ تانیہ مسکان صرف ایک بچی نہیں بلکہ وہ ایک امید کا نام ہے، ایک پیغام ہے محبت، خلوص، خدمت اور کردار کی طاقت کا پیغام۔
محترم نسیم مندوخیل کا پیغام: بیٹیاں رحمت، فخر اور تبدیلی کا استعارہ۔ نوے ژوند تنظیم کے چیئرمین، نسیم مندوخیل صاحب، بیٹی کو نہ صرف اولاد بلکہ ایک نعمت، ایک ذمہ داری اور ایک خواب کی تعبیر سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بیٹی کا رشتہ محض جذباتی وابستگی ہے، یہ ایسے اعتماد اور تحفظ کا اظہار ہے جو لفظوں کی محتاجی نہیں رکھتا۔
ان کے مطابق باپ بیٹی کے لیے ایک مضبوط سائبان، پہلا محافظ، پہلا دوست اور پہلا استاد ہوتا ہے۔ جب دنیا سوال کرتی ہے، باپ جواب بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب زندگی آزمائشوں کی راہوں پر لے جاتی ہے، تو باپ بیٹی کے لیے حوصلہ بن جاتا ہے۔ یہ اعتماد اور تحفظ ہی وہ بنیاد ہے جس پر بیٹی اپنی شخصیت، خواب اور کردار کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔
محترم نسیم مندوخیل کا کہنا ہے کہ بیٹی کی مسکراہٹ، باپ کے لیے دنیا کی سب سے قیمتی خوشی ہے۔ وہ لمحہ جب بیٹی کسی کامیابی پر چہکتی ہے، باپ کی تمام تھکن، فکر اور قربانیوں کو امر کر دیتا ہے۔ وہ اس یقین کے قائل ہیں کہ اگر بیٹی کو سپورٹ کیا جائے، اس کے خوابوں کو سنا جائے، اور اس کی رائے کو اہمیت دی جائے، تو وہ معاشرے میں ایسی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے جو محض نعروں سے ممکن نہیں۔
ان کا نظریہ واضح اور پُرعزم ہے: بیٹیوں کو ہر ممکن موقع دیا جائے، ان پر یقین رکھا جائے، اور ان کی تربیت ایسے کی جائے کہ وہ معاشرتی بیداری کی مثال بن سکیں۔ یہی سوچ ہے جس نے انہیں نہ صرف اپنی بیٹی تانیہ مسکان کی حوصلہ افزائی پر آمادہ کیا بلکہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے دیگر والدین کو بھی یہ پیغام دینے پر مجبور کیا کہ:
بیٹیوں کو پیچھے مت رکھو۔ اُنہیں آگے بڑھنے دو۔ اُن کے خوابوں کی قدر کرو۔ اور انہیں یہ یقین دو کہ ان کے والد ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
محترم نسیم مندوخیل اس امر پر بھی زور دیتے ہیں کہ بیٹی کو صرف محبت سے پالنا کافی نہیں، اُسے تعلیم، کردار، اور اعتماد کے ساتھ پروان چڑھانا ضروری ہے۔ جب باپ بیٹی کی بات غور سے سنتا ہے، اُس کے فیصلوں میں شریک ہوتا ہے، اور اس کی جدوجہد میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، تب ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو محبت، برابری اور احترام پر قائم ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: میری بیٹی تانیہ صرف میری بیٹی نہیں، وہ اس قوم کی روشنی ہے۔ اگر ایک بچی میں اتنی سوچ، درد اور خدمت کا جذبہ ہو سکتا ہے، تو سوچو اگر ہر بیٹی کو موقع دیا جائے، تو یہ قوم کہاں سے کہا تک پہنچ سکتی ہیں
ان کا یقین ہے کہ اسلام نے بیٹی کو عزت، رحمت، اور جنت کا دروازہ قرار دیا ہے۔ سیرتِ رسول ﷺ میں حضرت فاطمہؓ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی محبت اس بات کا واضح پیغام ہے کہ بیٹیاں محض خاندان کا حصہ ہی نہیں، روحانی سرور اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا وسیلہ ہیں۔
محترم نسیم مندوخیل کے یہ جذبات ان کے عمل میں بھی جھلکتے ہیں۔ وہ صرف اپنی بیٹی کے لیے کھڑے ہے ہر اُس بیٹی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں جسے معاشرہ ابھی تک مکمل موقع دینے کو تیار نہیں۔ ان کا پیغام ہر والد کے لیے ایک یاد دہانی ہے:
باپ ہونا ایک رتبہ ہے، لیکن بیٹی کا باپ ہونا ایک اعزاز ہے۔ بیٹی اگر مسکرا رہی ہے، تو سمجھو خدا راضی ہے۔