دنیا کا سکون، اہنسا میں ہے

صدیوں سے اپنی طاقت کے گھمنڈ، قومی،قبائلی ،مذہبی، لسانی، نسلی، ثقافتی، نظریاتی یا کسی بھی قسم کی گروہی برتری کے غرور، فنا ہو جانے کے خوف اور اپنے مفادات کے اندھے جنون میں، اوراقِ تاریخِ انسانی کو تشدد کے دھبوں سے داغدار اور انسانی خون کی بُو سے بدبودار کرنے والا، قفسِ خوف، لالچ ،غصہ، انا اور انتقام کا اسیر، جسدِ ترابِ حقیر آج اہنسا یعنی عدم تشدد کا عالمی دن منا رہا ہے.

تاریخِ انسانی کے اوراق اس کے گواہ ہیں کہ پینتیس سو سال پر مشتمل اس سفر میں صرف بمشکل 250 سال ایسے گزرے ہیں جن میں اِس مٹی اور پانی کے پتلے یعنی انسان نے ظلم، تشدد اور بربریت کا مظاہرہ نہیں کیا. گویا جنگلوں اور غاروں سے نکل کر شہروں میں آباد ہو جانے کے باوجود بھی سماج میں ظلم اور تشدد کا سلسلہ رُک نہیں سکا.

ظلم، تشدد، بربریت، سفاکیت ،وحشت اور درندگی کے سلسلوں کی ابتداء تو کہیں نا کہیں انسان کے بس میں ہو سکتی ہے لیکن انجام کے حوالے سے یہ سلسلے خود مختار ہوتے ہیں.

تاریخِ انسانی کے مطابق ایک انسان یا انسانی گروہ نے، اپنے سرکش جذبات سے مغلوب ہو کر تشدد یا ظلم کی ابتدا کی تو وحشت اور بربریت کا یہ سلسلہ نسلوں تک چلتا رہا یا چل رہا ہے.

پہلی جنگ عظیم کے بعد، ہٹلر کے دل میں یہودیوں کے خلاف نفرت انتہائی درجے تک پہنچ گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر ہٹلر نے تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو بدترین موت مارا. جبکہ اُس کا اپنا انجام یہ ہوا کہ اُس نے 30 اپریل 1945 کو اپنے بنکر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی.

ہمارے اپنے مُلک میں آج بھی کئی خاندان اور قبائل، خاندانی یا قبائلی دشمنیوں کے نام پر ظلم و تشدد کر بھی رہے ہیں اور سہہ بھی رہے ہیں. بے شمار لاشیں گِر چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ ختم ہو رہا ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ نکل رہا ہے. جبکہ صورتحال یہ ہے کہ دونوں حریفوں کے ہاتھ اب تک خالی ہیں.

اہنسا، یعنی عدم تشدد کوئی کمزوری نہیں، بزدلی نہیں ،بلکہ یہی بہادری ہے، قوت ہے، شجاعت ہے اور دانش مندی ہے. ظلم، جبر اور تشدد کا نتیجہ ہمیشہ انتہائی بھیانک ہوتا، کسی کے حق میں نہیں ہوتا، فاتح کے لئے بھی، ندامت کی صورت نکلتا ہے.

اسی نتیجے پر تاریخِ انسانی کا ہر مہاتما ،ہر بڑا انسان پہنچا ہے.

رام چندر جی نے کہا تھا کہ
اہنسا پرم دھرم ہے.
یعنی عدم تشدد سب سے بڑا دھرم ہے.

کرشن جی نے کہا تھا کہ جو دوسروں کو دُکھ دیتا ہے، وہ خود کبھی سکون نہیں پاتا.

بُدھ نے کہا تھا کہ، نفرت کا خاتمہ نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے ہوتا ہے. یہی ابدی قانون ہے. تشدد مزید تشدد کو جنم دیتا ہے، جو انسان برداشت کرتا ہے، اپنے بپھرے ہوئے جذبات پر قابو پا لیتا ہے وہی حقیقی بہادر ہوتا ہے.

عیسٰی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو تلوار اٹھاتا ہے، وہ تلوار سے ہلاک ہو گا.

حضرت محمد ص نے طائف میں پتھر مارنے والوں کو دعا دی تھی.

فرمایا تھا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس سے لوگ سلامتی میں رہیں.

نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ظلم اور تشدد کی ابتدا کرنے والا کل ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹے گا.

بابا گرو نانک نے کہا تھا کہ ظلم و جبر انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے، اصل بہادری یہ ہے کہ امن قائم رکھا جائے.

آج جبکہ کرہ ارض بائیس ہزار جوہری ہتھیاروں سے اٹا پڑا ہے، تو عدم تشدد کا پیغام محض اخلاقی نصیحت نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کی شرط بن چکا ہے، امن کوئی عیاشی نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے. اگر ہم نے نفرت اور تشدد کے بیج بونے کا سلسلہ جاری رکھا تو آنے والی نسلوں کے لیے صرف خاک اور راکھ بچے گی. کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.

اگر جوہری ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے، آج چند نادان اور احمق کرداروں نے تیسری عالمی جنگ کی طرف، بڑھتے ہوئے اپنے قدم نہ روکے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دو سالوں میں 63 فیصد انسان مَر جائیں گے اور بچ جانے والے سسکتی ہوئی زندگیاں بسر کریں گے.

قیامت نہ بھی آئی تو انسان ہی ایک دوسرے کو مار ڈالیں گے. جبکہ یہی تو قیامت ہے!

اہنسا کی روش اپناؤ کہ دنیا کا سکوں اس میں ہے، انسانیت کی بقا اس میں ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے