اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک روز قبل جو کچھ ہوا، وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ اس ریاستی رویے کی جھلک ہے جو آزاد اداروں اور صحافتی حرمت کو روند رہا ہے۔ شام کے وقت کی مختصر ویڈیوز نے وہ منظر محفوظ کر دیا جسے کوئی بھی آزاد معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا: پولیس اہلکار لاٹھیاں لہراتے اندر گھس رہے تھے، کیمرے ٹوٹ رہے تھے، صحافی اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے لپک رہے تھے، اور کیفے ٹیریا میں بیٹھے ملازمین بھی تشدد اور گرفتاری سے نہ بچ سکے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ایک بار پھر چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کر دیا ہو۔
یہ مناظر صرف سوشل میڈیا کی اسکرینوں پر نہیں آئے بلکہ قومی اخبارات اور بڑے چینلز نے بھی ان کی تصدیق کی۔
عینی شاہدین اور فوٹیجز کے مطابق پولیس نے پریس کلب میں گھس کر سامان توڑا، کیمرے تباہ کیے اور ان لوگوں پر بھی ہاتھ اٹھایا جو صرف اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے۔ متعدد صحافی زخمی ہوئے، کلب کے ملازمین کو پیٹا گیا اور بعض کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ پولیس کا مؤقف یہ سامنے آیا کہ وہ مظاہرین کا پیچھا کرتے ہوئے پریس کلب میں داخل ہوئے، لیکن صحافتی حلقے اس دلیل کو مسترد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پریس کلب جیسی جگہ میں زبردستی گھسنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
وفاقی حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لیا، وزیرِ داخلہ نے انکوائری کا حکم دیا اور بعض بیانات میں معذرت یا وضاحت بھی سامنے آئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انکوائری آزادانہ اور شفاف ہوگی؟
مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔
صحافتی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے اس پر گہری تشویش رکھتے ہیں اور انہوں نے ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ محض ایک وقتی زیادتی نہیں بلکہ ایک خطرناک علامت ہے۔ اگر پولیس جیسے ادارے پریس کلب میں گھس کر صحافیوں کو مار سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرے کا وہ طبقہ جو عوام کو سچ بتاتا ہے، اب محفوظ نہیں رہا۔ جب صحافیوں کے اوزار توڑے جاتے ہیں تو اصل نقصان عام شہری کو ہوتا ہے، کیونکہ معلومات تک رسائی ختم ہو جائے تو احتساب کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے۔
پریس کلب اور صحافیوں کی حفاظت صرف ان کا ذاتی حق نہیں، یہ جمہوریت اور آئین کی بنیادی شرط ہے۔ اگر کوئی مظاہرہ قانون شکنی کر رہا تھا تو اس کے لیے دیگر قانونی راستے موجود تھے، لیکن یہ ہرگز جواز نہیں کہ پولیس صحافتی مرکز میں داخل ہو کر تشدد کرے اور لوگوں کو خوفزدہ کرے۔
یہ واقعہ کئی سمتوں میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ صحافیوں میں خوف اور سنسرشپ بڑھ سکتی ہے۔ عوام میں یہ تاثر گہرا ہو سکتا ہے کہ معلومات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر اہلکاروں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہوئی تو یہ عمل آئندہ بھی دہرایا جائے گا اور ہر چھوٹی سی سیاسی کشیدگی آزادیِ صحافت پر حملے میں بدل سکتی ہے۔
عالمی ادارے پہلے ہی نوٹس لے چکے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ملک کی بین الاقوامی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ لمحہ دراصل صحافیوں کے لیے خود احتسابی کا بھی ہے۔ اختلافات، گروہ بندیاں اور اندرونی کھینچا تانی ہمیشہ صحافتی برادری کو کمزور کرتی ہیں۔ آج اگر صحافیوں پر حملہ ہوا ہے تو کل کسی اور طبقے یا فرد پر بھی ہو سکتا ہے۔
جب کسی ادارے کی حرمت ٹوٹتی ہے تو سب کی عزت خطرے میں آ جاتی ہے۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحافی اپنے اندرونی چھوٹے چھوٹے
لا یعنی، بے مقصد اور فضول اختلافات کو ایک طرف رکھ کر متحد ہوں۔ ایک مضبوط، مشترکہ محاذ ہی ہے جو آئندہ ایسے حملوں کے خلاف دیوار بن سکتا ہے، شفاف تحقیقات کا تقاضا کر سکتا ہے اور مستقبل کے لیے حقیقی حفاظتی اقدامات کو یقینی بنا سکتا ہے۔
یہ پہلو بھی کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کیا واقعتا وہی وجہ ہے جو پولیس نے بتائی ہے یا حکومت نے اور پولیس نے صحافیوں کی کوئی اور "گستاخی” دل میں اور نظر میں رکھتے ہوئے انتقامی کاروائی کی ہے
خیال رہے کہ اگر اج چوہا گزرا ہے تو کل ہاتھی بھی گزرے گا کیونکہ راستہ تو بن گیا ہے۔ یہ ایک وارننگ ہے۔ اگر آج اس پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو آنے والا کل زیادہ خطرناک ہو گا۔ غیر شفاف انکوائریاں، بے جا آمرانہ و وحشیانہ مداخلتیں اور گرفتاریاں معمول بن سکتی ہیں۔ اس کے بعد نہ صحافت بچے گی نہ آزادیِ اظہار۔ اس لیے آج کی مزاحمت، اتحاد اور جواب دہی ہی کل کی حفاظت ہے۔