کل دنیا بھر میں بزرگوں کا دن محبت اور احترام سے منایا گیا۔ اس موقع پر وہ مہربان چہرے ذہن میں آئے جنہوں نے اپنی زندگی کی دولت آنے والی نسلوں کے لیے وقف کی۔ یہ دن محض یاد رکھنے کی رسم ماننا بلکہ یہ اس تہذیب کی علامت ہے جو عمر کے ساتھ ملنے والی بصیرت، تجربے اور دعاؤں کو معاشرتی قدر جانتی ہے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ ہتھیلیاں جو ہمیں چلنا سیکھاتی تھیں، آج خود سہارا چاہتی ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لوگ اس دن کو گرمیِ دل اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں تاکہ بزرگوں کو وہ مقام دیا جائے جن کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار ہیں۔ مہذب معاشروں کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو وقار سے نوازیں، انہیں بوجھ نہ جانیں۔ ایک دن کی یاد شاید نشان ہو، مگر یہ سوچ کی بُنیاد بدل سکتی ہے۔ اگر ہر لمحے کو تحریر کیا جائے، تو کتابوں کی جلدیں کم پڑ جائیں گی۔ ان کی دعاؤں کی چھاؤں اور قربانی کے بغیر معاشرہ ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ ترقی کے رنگ بکھر سکتے ہیں مگر بزرگوں کی موجودگی روح کی روشنی اور دلوں کا سکون باقی رکھتی ہے۔ بزرگ ایک سایہ دار درخت کی مانند ہیں جو تپتی راہوں میں ٹھنڈی چھاؤں بخشتی ہیں۔ یہ دن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ وہ چہرے جن میں ہمارا ماضی بسا ہے، آج ہمارے سامنے ہیں۔ بزرگ خود جل کر روشنی پھیلاتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ سکون ہے، اور ان کی خاموشی میں صدیاں چھپی ہوتی ہیں۔ ان کی خدمت محبت کا اظہار ہے، اور اس کا اعتبار انسانیت کی بلندی ہے۔
خاندان کا تن آدم محبت، قربانی اور وفا سے بُنا ہوتا ہے، اور اس کا قلب بزرگوں کی موجودگی ہے۔ دادا، دادی، نانا، نانی جیسے القاب صرف رشتہ نہیں، وہ ستون ہیں جن کے بغیر نسلیں بے سہارا ہوں گی۔ ان کے بغیر گھر صرف اینٹ پتھر کا خالی ڈھانچہ نظر آئے گا۔ وہ خاندانی نظام کے محافظ اور ورثے کے امین ہیں۔ ان کی نصیحتیں، لطیف مزاح اور تلخ حقیقتوں کو نرمی سے پیش کرنے کا انداز نسلوں کی تربیت کا اساس ہے۔ گھر میں بزرگوں کی موجودگی دیواروں کو محبت سے بھرتی ہے۔
ان کا تجربہ یوں کام آتا ہے جیسے زندگی کا سفر پہلے ہی طے کر لیا گیا ہو۔ وہ گھر کو برکت، سکون اور ہم آہنگی کا مسکن بناتے ہیں۔ خاندان کی اقدار نسل در نسل انہی کی وساطت سے منتقل ہوتی ہیں۔ وہ بچوں کے لیے زندہ تاریخ ہیں، جن کے قصے ہمارے ماضی کو روشن کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مٹھاس ہے، اور ان کی خاموشی معنیٰ کی گہرائی لیے ہوتی ہے۔ جب ان کا ہاتھ سر پر پڑے، دعا شروع ہوتی ہے۔ بزرگوں کے بغیر خاندان کا تصور نامکمل رہ جاتا ہے۔ انتشار کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ان کی رائے فراموش کی جائے۔ وہ محبت کا محور، رشتوں کی قوت اور رابطے کی کڑی ہیں۔ ان کے چہرے کی لکیریں، آنکھوں کا نور، آنے والی نسلوں کو رہبری کا پیغام ہیں۔
معاشرت کا حُسن اس بات میں ہے کہ وہ بزرگوں کو کس قدر عظمت دے۔ جنہوں نے دشواریوں کا مقابلہ کیا، محنت کی اور اپنی زندگی کی خوشیوں کو قربان کیا، انہیں نظرانداز کرنا ظلم ہے۔ نوجوانوں کی رہنمائی، بحرانوں میں روشنی اور مسائل کا حل بزرگوں کی مرہون منت ہے۔ ان کی خاموشی دانش کا ترجمان ہے، اور ان کا ہر کلمہ زندگی کی سنہری سطر بن جاتا ہے۔ وہ زمانوں پر پھیلے بحرانوں کے گواہ ہیں، اور ان کی بصیرت معاشرے کے لیے روشنی بن جاتی ہے۔ اگر بزرگوں کو تنہا چھوڑ دیا جائے تو یہ صرف اخلاقی زوال نہیں، اجتماعی ناکامی ہے۔ ان کی عزت صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی شان ہے۔ ان کی دعاؤں سے سماج میں رحمت، تحفظ اور برکت کا رنگ گھلتا ہے۔
جوانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی صحبت کو قدر سے اپنائیں، ان کے سکوت میں حکمت سنیں اور ان کی سادگی، قناعت، صبر و شکر کو اپنا شعار بنائیں۔
بزرگ صرف جسمانی بڑھاپے کی علامت نہیں بلکہ روحانی کمال کا آئینہ بھی ہیں۔ ان کے دلوں میں عبادت کی خوشبو، زبان پر ذکر کا رس، اور زندگی میں عاجزی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ سجدے میں آنسو بہاتے ہیں، تلاوت میں غرق رہتے ہیں، اور ان کی دعائیں فضا کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ دینِ اسلام نے انہیں وہ مقام دیا ہے جو عبادت کے عظیم درجے کے برابر ہے۔ نبی ﷺ کی زندگی میں ان کے لیے احترام کی بےشمار مثالیں ملتی ہیں۔ بزرگوں کی مجلس گویا ایک درسگاہ ہوتی ہے جہاں زندگی کے ہر سبق حکمت و وقار کے رنگ میں آتا ہے۔ روحانیت، اخلاص اور طہارت ان کا شعار ہے۔ ان کی دعاؤں کی قبولیت ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ کم، اثر زیادہ ہوتا ہے۔ وہ مایوس دلوں کو امید دیتے ہیں، بےقرار روحوں کو تسکین پہنچاتے ہیں، اور بھٹکوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ ان کا وجود مسجد کے مضبوط ستون کی مانند ہے، خاموش مگر مؤثر۔ ان سے جڑ کر انسان نہ صرف روحانی حلاوت حاصل کرتا ہے بلکہ فکری توازن بھی پاتا ہے۔ وہ دین کے خادم، داعی اور صوفی تینوں رنگ ایک وجود میں سماتے ہیں۔
جو نوجوان ابھی سفرِ زندگی پر ہیں، بزرگوں نے وہ راستے پہلے ہی طے کر لیے ہیں۔ ان کا تجربہ ایک قیمتی خزانہ ہے جس سے قومیں ٹھوس ترقی کی سمت گامزن ہو سکتی ہیں۔ ہر دن ان کی زندگی کا ایک سبق ہے، جس میں صبر، تدبر اور حسنِ عمل نہایا ہوتا ہے۔ ان کی باتیں صداقت کا درہم ہوتی ہیں، اور ان کے فیصلے دوراندیشی کا عکس۔ جب وہ رائے دیں تو وہ وزن رکھتی ہے۔ ان کی تنقید خیرخواہی اور ان کا سکوت حکمت کا سایہ ہوتا ہے۔ اگر نوجوان ان کی نصائح قبول کریں تو غلطیوں کی تعداد کم، اور کامیابیاں بڑھ جائیں۔ کتاب علم دیتی ہے، مگر بزرگ بصیرت عطا کرتے ہیں۔ وہ زمانے کے بدلاؤ، حالات کی پیچیدگیاں اور رشتوں کی نزاکتوں کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کی رائے فیصلوں کو گہرائی دیتی ہے۔
ان کی دعائیں کسی ماہر نفسیات کی گفتگو سے بھی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ اگر ان کے تجربات پر غور کیا جائے تو زندگی آسان محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی ماضی کی کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں، اور وہ جدید دور کے لیے رہنمائی بن جاتی ہیں۔ اگر نوجوان کامیابی چاہتے ہیں تو بزرگوں کی صحبت کو اولین ترجیح دیں۔ یہی وہ رشتہ ہے جو نسلوں کو جوڑتا ہے اور فکر کو تسلسل بخشتا ہے۔
وہ معاشرہ جو بزرگوں کی عظمت کے بجائے انہیں کم تر سمجھتا ہے، وہ اپنی جڑیں کمزور کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ موجودہ تیز رفتار دور نے بزرگوں کو بوجھ سمجھنے کا رجحان بڑھایا ہے، جس نے خاندانی انتشار، اخلاقی زوال اور جذباتی خلا کو جنم دیا ہے۔ اگر انہیں تنہا چھوڑا جائے تو وہ صرف دل ہی نہیں ٹوٹتے، بلکہ پورا نظام منتشر ہوتا ہے۔ جو کل تک سہارا تھے، آج وہ بےسہارا رہ جائیں گے۔ ان سے نظریں چرانا یا انہیں گوشے میں بٹھانا انسانیت کی توہین ہے۔ ایسے رویے بےحسی کو فروغ دیتے ہیں۔
وہ صرف معمر انسان نہیں، وہ خاندان اور تہذیب کا محور ہیں۔ اگر ان کے ساتھ سختی کی جائے، تو نسلوں میں نافرمانی رواج پکڑتی ہے۔ آنکھوں کی نمی نہ صرف درد بلکہ تذکرہِ ناقدری بھی ہے۔ تنہائی کی چیخ سماجی بے رخی کی دستک ہے۔ اگر کسی کو عبرت چاہیے، تو تنہا بزرگ کی خاموشی سن لے۔ یہ مناظر صرف دکھ نہیں بلکہ سوال ہیں کہ ہم کس سمت رواں ہیں۔ ان سے منہ موڑنا صرف ان پر ظلم نہیں، اپنا مستقبل تاریکیوں کے حوالے کرنا ہے۔ ایک قوم جو بزرگوں کے ساتھ وفادار نہیں، ترقی کی منزل کبھی نہیں پا سکتی۔
آج کی دنیا میں ترقی، مصروفیت اور انفرادیت نے بزرگوں کو گوشوں میں دھکیل دیا ہے۔ وہ چہرے جو کبھی مرکزِ محبت تھے، اب پردے کے پیچھے نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ فلیٹس، تنہائی اور بزرگوں کے گھروں کا تصور وہ تہذیبی شکست ہے جو خاندان کی روشنی ماند کر دیتی ہے۔ اگر ترقی رشتوں کی قربانی پر قائم رہے، تو وہ کامیابی ہی نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔ بزرگ آج بھی دوست چاہتے ہیں گفتگو، مسکراہٹ اور گرم جوشانہ ساتھ بھی۔ مہنگا تحفہ نہیں۔ وقت دینا، حال احوال پوچھنا، اور ان کی بات کو توجہ سے سننا ان کے لیے سب سے بڑا آرام ہے۔ تنہائی ان کی صحت، امید اور خوشی کو متاثر کرتی ہے۔ مغربی معاشروں نے اس بحران کا رخ پہلے دیکھا، اور اب مشرقی معاشروں میں یہ شدت سے بڑھ رہا ہے۔ اگر خاندان سے دور ہو جائیں، تو بزرگ زندگی کو سزا سمجھیں گے۔ ان کے دل میں یادوں کا خزانہ ہوتا ہے، اور جب حال خالی ہو جائے تو وہ تنہائی کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ وہ چہروں کو دیکھتے ہیں مگر جوابی مسکراہٹ نہیں ملتی۔ اس کیفیت کو بدلنا لازم ہے، ورنہ کل ہمیں بھی ایسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رشتے وہ ہیں جو وقت کی آزمائش سے مضبوط ہوتے ہیں، نرگس نہیں۔
یہ ذمے داری صرف افراد کی نہیں بلکہ ریاست کی بھی ہے کہ وہ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ انہیں معیاری طبی سہولیات، مالی تحفظ اور سماجی مواقع فراہم کرنا ضروری ہے۔ حکومتوں کو ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں جن میں پنشن، رعایتی سہولیات اور فلاحی مراکز شامل ہوں۔ بزرگوں کی ضروریات نوجوانوں سے مختلف ہیں، اور ان کا خیال رکھنا معاشرتی توازن کا ضامن ہے۔ ہسپتالوں میں علیحدہ سہولیات، پارکس میں مخصوص اوقات اور سفری آسانیاں ان کی زندگی کو آسان بناتی ہیں۔ وہ صرف جسمانی نہیں، جذباتی تحفظ کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ مشاورتی مراکز، نفسیاتی معاونت اور سماجی میل ملاپ ریاستی ذمے داری ہیں۔ ان کی مالی خودمختاری انہیں عزت نفس بخشتی ہے۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے کا فعال اور معزز حصہ ہیں۔
ایک ریاست جو بزرگوں کا خیال رکھے، وہ دنیا کی نگاہوں میں مثالی بنے گی۔ قانون سازی بزرگوں کے حقوق کی ضمانت بن سکتی ہے۔ انہیں بے سہارا چھوڑ دینا ذاتی نقصان، یہ ریاستی ناکامی بھی ہے۔ ایسی پالیسیاں بنیں جو بڑھاپے کو بوجھ نہ بننے دیں، بلکہ سکون و وقار کا دور بنائیں۔ احترام ان کا حق ہے، اخلاقی تقاضا نہیں۔
بزرگ کتاب کا اختتام نہیں ہوتا یہ وہ پیش لفظ ہیں جسے سمجھ کر پوری کہانی کا مفہوم کھلتا ہے۔ ان کا احترام صرف عمر کا اعزاز نہیں بلکہ اس شعور کا اعتراف بھی ہے جو وقت نے انہیں عطا کیا ہے۔ یہ دن ہمارا مستقبل ماضی سے جوڑ دیتا ہے، اور وہ ماضی بزرگوں کی شکل میں آج ہمارے درمیان زندہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں شائستہ، معرفت و اخلاق سے مزین ہوں، تو انہیں بزرگوں کی سایہ میں پروان چڑھائیں۔ چاہے وقت کی رفتار کتنی تیز ہو، رشتوں کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ ان کا ہاتھ سر پر ہونا زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کیا ہے اور ہم ان کے لیے کیا بنے؟ زندگی میں ایسی جگہ بنائیں جہاں بزرگ صرف تماشائی نہ رہیں وہ مرکزی کردار ہوں۔ ان کی بات کو بوجھ نہ سمجھیں، یہ تو وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بکھیرتے ہیں۔ اگر ہم ان سے نظریں چرا کر زندگی گزاریں، تو آنے والی نسلیں بھی ہمیں بھلا دیں گی۔
عزت، وقت اور محبت اگر محض الفاظ رہ جائیں، تو رشتے صرف یادگار بن جائیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ اس دن کو منانے سے بڑھ کر اس کے تقاضوں پر عمل کا آغاز کرے۔ گھروں کے دروازے کھولیں، دلوں کی کھڑکیاں وا کریں، اور اپنے وقت کو ان کے لیے وقف کریں۔
یوں ہم بہتر انسان بنیں گے اور ہمارا معاشرہ مہذب، شعور یافتہ اور امیدوں کا گہوارہ بن جائے گا۔ بزرگوں کی خدمت کبھی فرض نہیں ہوتا یہ وہ نعمت ہیں جن سے محروم رہ جانا بد نصیبی ہے۔