اقوام متحدہ کا اجلاس اور پاکستان کی گونج

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں سالانہ اجلاس اس وقت دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں عالمی رہنما اپنے اپنے ممالک کے مؤقف اور مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے خطاب کر رہے ہیں۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس کا آغاز 23 ستمبر سے ہوا اور 29 ستمبر تک جاری رہا، جس کے دوران عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ، خطوں کے تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیاں اور معاشی بحرانوں جیسے موضوعات زیرِ بحث آئے۔

پاکستان کے وزیرِاعظم محمد شہباز شریف نے بھی اس فورم پر پُر اثر خطاب کیا اور نہ صرف وطنِ عزیز کا مؤقف پیش کیا بلکہ اپنی دفاعی قوت، امن، ترقی اور باہمی تعاون کے حوالے سے دنیا کو واضح پیغام دیا۔ اُن کی تقریر کو قومی و بین الاقوامی سیاسی و سفارتی حلقوں میں نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اجلاس اس اعتبار سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا کہ اس میں ریاست فلسطین کے بارے میں بھی تقریباً تمام ہی سربراہان مملکت نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ سات روزہ اجلاس دنیا کو بدلتی ہوئی سفارتی سمتوں کا عکاس ثابت ہوا۔

اجلاس کے پہلے دن کی کاروائی ہمیشہ کی طرح روایتی انداز میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کی جامع رپورٹ سے شروع ہوئی، جس میں انہوں نے دنیا کو درپیش بڑے خطرات، بالخصوص جاری جنگوں، مہاجرین کے بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر نے اجلاس کو باضابطہ طور پر کھولا اور عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ روایت کے مطابق سب سے پہلا خطاب برازیل کے صدر نے کیا، جنہوں نے ترقی پذیر دنیا کی مشکلات اور عالمی معاشی نظام کی ناانصافیوں پر کھل کر بات کی۔ اس کے بعد امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطاب کرتے ہوئے اپنے ملک کی پالیسیوں اور عالمی تنازعات کے حل میں امریکا کے کردار کو نمایاں کیا۔ اسی روز ترکی، جنوبی کوریا، قطر اور انڈونیشیا سمیت کئی اہم ممالک کے سربراہان نے بھی اپنی تقاریر میں عالمی امن اور خطے کے مسائل پر اپنے اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔ یوں اجلاس کے پہلے دن ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ آئندہ دنوں میں عالمی اسٹیج پر سخت مؤقف اور نرم لب و لہجہ، دونوں کی جھلک ساتھ ساتھ دکھائی دے گی۔

یوں تو اجلاس کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر تقاریر عالمی تعاون، ترقی، ماحولیاتی تبدیلی اور غربت جیسے موضوعات کے گرد گھومتی رہیں، مگر جیسے جیسے اجلاس آگے بڑھا، ایوان کا ماحول بھی سخت اور کشیدہ ہوتا گیا۔ چوتھے دن منظرنامہ یکسر بدل گیا جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اسٹیج پر آئے اور اپنی تقریر سے نہ صرف اجلاس کی فضا کو تلخ کیا بلکہ عالمی امن کے خواب کو بھی دھندلا دیا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی تقریر نہ صرف تنازعات سے بھرپور تھی بلکہ اس نے دنیا کے امن پسند حلقوں کو گہرے افسوس اور تشویش میں مبتلا کر دیا۔ یاہو کے اسٹیج پر آتے ہی متعدد ممالک کے مندوبین و سربراہان احتجاجاً اپنی نشستیں چھوڑ کر باہر چلے گئے اور ہال تقریباً خالی ہوگیا۔ اپنی تقریر میں یاہو نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنایا اور فلسطین کی سرزمین کے اصل مالک باشندوں و حماس کے مجاہدین، حزب اللہ، یمن کے حوثیوں اور شام میں اسد حکومت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا۔

حیران کن طور پر انہوں نے شام کی نئی حکومت کے حوالے سے مثبت توقعات کا ذکر کیا، جبکہ لبنان کو کھلے عام دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر امن چاہتے ہو تو حزب اللہ کو کچلنا ہوگا۔ کچھ مغربی ممالک پر شکایات بھی کیں کہ اسرائیل دراصل ان کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ممالک اسرائیل کے خلاف پروپیگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو نے یہ انکشاف بھی کیا کہ دنیا بھر میں ایسے لیڈر موجود ہیں جو عوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن پسِ پردہ اس کی حمایت اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے ابراہام اکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں امن لانے کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک قابض اور دہشت گرد ریاست کے طور پر دنیا بھر میں پہچان بنا چکا ہے۔

نیتن یاہو نے جب اپنی تلخ اور اشتعال انگیز تقریر ختم کی تو ہال کی بیشتر نشستیں خالی تھیں اور فضا سرد اور بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن اس منظر کے فوراً بعد جب وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا تو ماحول یکسر بدل گیا۔ مختلف ممالک کے مندوبین واپس اپنی نشستوں پر لوٹے اور ہال کچھا کھچ بھر گیا۔ شہباز شریف کا استقبال بھرپور تالیوں اور ڈیسک بجا کر کیا گیا، گویا ایوان کے دلوں کی دھڑکنیں پاکستان کی آواز کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔ وزیراعظم پاکستان نے نہایت اعتماد، وقار اور جرات مندانہ انداز میں اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے عالمی مسائل کے ساتھ ساتھ خطے کے حالات پر بھی کھل کر بات کی اور خاص طور پر حالیہ پاک بھارت جھڑپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔

کہ دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا، پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم امن جیتنے کے خواہاں ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی اعلان جنگ کے مترادف ہے، ہم پانیوں پر اپنی 24 کروڑ آبادی کے ناقابل تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر جلد ختم ہو جائے گا، غزہ میں اسرائیل نے دہشت پھیلا دی ہے، فوری جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا، فلسطین کو اب آزاد ہونا ہوگا‘ جس کا دارلخلافہ القدس شریف ہو۔

پاکستان نے واضح کیا کہ اسے بیرونی سرپرستی میں دہشت گردی کا سامنا ہے، گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں، اس لیے عبوری حکومت کو کارروائی کرنا ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم نے کہا بھارت نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیش کش مسترد کی اور شہریوں کو نشانہ بنایا، جس پر ہم نے اقوام متحدہ چارٹر کے تحت دفاع کیا۔ افواجِ پاکستان نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے دشمن کو فیصلہ کن جواب دیا۔ طاقت کے باوجود ہم جنگ بندی پر آمادہ ہوئے اور صدر ٹرمپ کی بروقت مداخلت نے بڑے تصادم کو ٹال دیا۔ جنوبی ایشیا کو اشتعال نہیں، فعال قیادت چاہیے۔ وزیراعظم پاکستان کی تقریر کے بعد انہیں چین کے وزیراعظم و دیگر عالمی رہنماؤں نے پاکستان کی عوام کے جذبات عالمی فورم پر بہترین طریقے سے بیان کرنے پر شاباش دی۔

یوں یہ اجلاس اس بات کا گواہ بنا کہ کس طرح ایک طرف اسرائیل جیسے جارح ریاستی رویّوں نے ایوان کو مکدر کرنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف پاکستان نے اپنے مضبوط مؤقف اور جرات مندانہ انداز سے عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر نے نہ صرف پاکستان کو مرکزِ نگاہ بنا دیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ ابھرنے والی یہ طاقت امن، انصاف اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ خاص طور پر غزہ کے معصوم اور بے کس عوام کے حق میں پاکستان نے جس دلیری سے اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کی، وہ لائقِ تحسین ہے۔ اسی اجلاس میں یورپ کے کئی ممالک کی جانب سے ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جانا مغربی دنیا میں ایک بڑی سیاسی اور سفارتی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو مستقبل کے عالمی منظرنامے پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔

تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ غزہ کے نہتے عوام کے لیے تاحال کوئی عملی اقدام، بالخصوص فوری جنگ بندی کے حوالے سے، نہ کیا جا سکا۔ یہی پہلو پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اور یہی وہ سوال ہے جو آئندہ بھی عالمی برادری کے کردار پر نشانِ سوال بن کر کھڑا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے