سید منور حسن اور احسن اقبال پاکستانی سیاست کے دو ایسی نمایاں شخصیات ہیں جن کی زبانوں پر اردو زبان سدا رقص کرتی ہے۔ اردو زبان ان دونوں حضرات کی زبانوں سے جتنی خوبصورتی، برمحل ادائیگی، جامعیت، روانی اور آسانی پاتی ہے اس کی مثالیں بالکل معدوم نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ جو اپنی زبانوں سے خیالات اور تصورات کے خالی خاکوں میں بڑی دل آویزی اور حقیقت پسندی سے رنگ بھرتے ہیں۔ لوگ ان کی زبانی اپنی ہی آرزؤں اور تمناؤں کے ساتھ بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ ان دونوں حضرات کی زبان دانی میں کروڑوں انسانوں کی ترجمانی موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان پر جتنی نعمتیں نازل کئے ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت زبان ہے۔ یہ زبان ہی ہے جیسے لوگ اپنی منشاء کو برسرِ عام لانے کے لیے وسیلہ بناتے ہیں لیکن مملکت خدا داد پاکستان میں بوجوہ لوگ اپنا مافی الضمیر اچھائی، سچائی، گہرائی، بلندی، پاکیزگی، شیرینی اور روانی کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے جبکہ یہ دو نفیس سیاسی رہنماء (یاد رہے کہ میرا اشارہ سیاسی دائرے میں سرگرم عمل حضرات کی جانب ہے) پورے پورے انسانی گروہوں کی ما فی الضمیر سامنے لے آتے ہیں۔ غیر ضروری اختلافات اور نامطلوب مباحث تب جنم لیتے ہیں جب لوگ صحت اور درستگی کے ساتھ اپنا مدعا بیان نہ کر سکیں۔ میرا اندازہ ہے لوگ تب گالی دینے پر اتر آتے جب ان کے جذبات اور زبان ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔
حضرت انسان نے آغاز سے ہی محبت و نفرت، اچھائی و برائی، خیر و شر اور مطلوب و نامطلوب کو سامنے لانے کے لیے زبان کا سہارا لیا ہے۔ زبان کا موثر استعمال ایک امتحان ہوتا ہے جو اس امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں وہ اپنا مدعا پا لیتے ہیں اور جو ناکام رہتے ہیں وہ کبھی مراد نہیں پاتے۔ زبان کا کامیاب استعمال علم، عقل، ادراک، شعور، افہام و تفہیم، حال و احوال کی جانکاری اور وجدان کی آمیزش سے ہی ممکن ہوتا ہے اور یہ توفیق تب میسر آتی ہے جب بندہ اپنے دل کے آئینے میں جھانک کر خود اپنے آپ کو پہلے پانے میں کامیاب ہو۔
یہ دونوں شخصیات اردو کے اس بحرِبیکراں میں غوطہ زن ہو کر ایسے موتی دریافت کر لاتی ہیں جو عام ناقدین کی دسترس سے پرے ہیں۔ ان کی تقاریر محض الفاظ کا ہجوم نہیں ہوتیں بلکہ ایک ایسی پیشکش ہوتی ہے جس میں ہر لفظ اپنی جگہ پر ایک ساز کا کام دیتا ہے۔ سید منور حسن کی زبان میں جو وقار اور سنجیدگی ہے، وہ سامعین کے دلوں میں اتر جاتی ہے، جبکہ احسن اقبال کی شگفتہ بیانی میں مستقبل کی تعمیر کے خواب سموئے ہوتے ہیں۔
دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں زبان کو محض ذریعہ نہیں بلکہ مقصد کی تکمیل کا ایک شاہکار بنا دیتے ہیں۔
آج کے اس پراگندہ سیاسی ماحول میں جہاں ہر طرف زبان کی بے حرمتی کا دور دورہ ہے، یہ دونوں شخصیات اردو کی آبرو کے محافظ بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے ہاں گالی گلوچ، ذاتیات پر حملوں اور اشتعال انگیزی سے مکمل اجتناب ہے، جو ان کی نفاستِ طبع اور بلندیِ فکر کی غماز ہے۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ زبان کا اولین مقصد افہام و تفہیم ہے، نہ کہ مخالف کو نیچا دکھانا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ابلاغ ہمیشہ مثبت، تعمیری اور معاشرے کو جوڑنے والا ہوتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سید منور حسن اور احسن اقبال کی زبان دراصل ہماری اجتماعی نفسیات کی آئینہ دار ہے۔ ایک ہمارے دینی تشخص اور روحانی اقدار کی ترجمانی کرتی ہے تو دوسری ترقی، جدت طرازی اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا اظہار۔ دونوں کے درمیان فکری اختلاف کے باوجود، اردو زبان کے تئیں یکساں محبت اور احترام ان کے مشترکہ اوصاف میں شمار ہوتا ہے۔ یہ دونوں ثابت کرتے ہیں کہ زبان کوئی حد بندی کرنے والی چیز نہیں، بلکہ یہ تو دلوں کو جوڑنے کا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔
کسی بھی قوم کی تہذیب دراصل اس کی زبان میں بسی ہوتی ہے۔ سید منور حسن اور احسن اقبال جیسے رہنما اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب زبان کو تہذیب و شائستگی کا پیراہن پہنا دیا جائے تو وہ نہ صرف دلوں کو موہ لیتی ہے بلکہ قوم کے اخلاقی چہرے کو بھی نکھارتی ہے۔ ان کی زبان سے نکلے ہر لفظ میں پاکستان کی مٹی کی خوشبو، اس کے عوام کی آس اور اس کے روشن مستقبل کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں اردو زبان کے ایسے سفیر ہیں جن کی بدولت یہ زبان نہ صرف زندہ ہے بلکہ تابندہ و شاداب بھی۔
کسی بھی معاشرے میں تہذیب و تمدن کے فروغ اور اٹھان میں وہاں کی زبان اہم ترین کردار ادا کر رہی ہے۔ تعلقات کی تشکیل، توقعات کی تکمیل، اقدار کی ترویج، جذبات کے اظہار، رشتوں کے انعقاد اور باہمی روابط کی شیرازہ بندی میں، میرے خیال میں، زبان سے زیادہ ٹھوس اور جاندار کردار کسی اور چیز کا نہیں۔ ہر معاملے میں ہر فرد جو سب سے پہلے اور سب سے گہرا، اچھا یا برا تاثر دے سکتا ہے وہ صرف اور صرف زبان ہی کی بدولت ہے۔
ایک ایسے دور میں جس میں ہر زاویے سے سیاست گندگی کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ گالی گلوچ، الزامات در الزامات، سکینڈلز کی بھرمار، ایک دوسرے پر رکیک ذاتی حملے، باہم شرم ناک ناموں اور القابات کی نسبت، اشتعال آنگیز تقاریر، تہذیب و شائستگی سے کوسوں دور اسلوب بیاں ایسی غلاظتیں ہمارے سیاسی میدان میں بالکل معمول بن چکی ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جو زبان و تہذیب پر قیامت بن کر نہیں ٹوٹتا۔ ایسے میں ان دو صاحبان نے اظہار کے نہایت سنجیدہ اور دل آویز صورتیں متعارف کیے ہیں۔ جن کے لیے یہ دونوں حضرات حد درجہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ایک کی زبان پہ گویہ اسلام بولتا ہے جبکہ دوسرا لب کشائی کریں تو ایک ہنستا مسکراتا، مستحکم، مضبوط، خوشحال اور ہر دم آگے بڑھتا ہوا پاکستان محسوس ہو رہا ہے۔ ایک کی آواز سے روح سرشار ہوتی ہے اور دل و دماغ میں شعور کے لہریں اٹھتی ہیں تو دوسرے کی گفتگو سے ذہنی افق وسیع ہوتا ہے۔ ایک کا چہرہ نور ایمان سے منور ہے تو دوسرے کا ماتھا اعتماد سے چمکتا ہے۔ دونوں کی بنیادی تربیت اگر چہ ایک ہی منبع (اسلامی جمعیت طلبہ) سے ہوئی ہے لیکن دونوں کے انداز فکر اور طرز عمل میں واضح فرق موجود ہے۔
ایک نظریاتی سیاست کا خوگر ہیں تو دوسرے نے اقتداری سیاست کا عالم بلند کیا ہیں۔ ایک کے لیے آقدار سب کچھ ہیں تو دوسرے کیلیے اقتدار، ایک اسلام کے اصولوں پر اصرار کر رہے ہیں تو دوسرا اقتدار کے غلام گردشوں میں سرگرداں ہیں۔ ایک اقتدار کے مصلحتوں سے نابلد ہیں تو دوسرا نظریات کے تقاضوں سے دور ہیں، ایک حق سچ کا ترجمان ہے تو دوسرا ایک سیاسی جماعت کا۔ خیر یہ میرا ایک ذاتی احساس ہے لیکن جہاں تک اردو زبان کا حوالہ ہے دونوں اس کے معیار کو بلند اور اسلوب کو مسلسل خوبصورت بنا رہے ہیں، دونوں باوقار شخصیات ہیں، دونوں میں سنجیدگی ہے، دونوں میں نفاست کوٹ کوٹ کر بھری ہے، دونوں کمیٹڈ ہیں، دونوں کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ دونوں زرخیز ذہنوں اور اظہار خیال کے دل آویز قرینوں سے آراستہ ہیں۔
یہ امر باعث افسوس بے کہ مختلف سماجی، اخلاقی، تہذیبی، جذباتی اور معاشی وجوہ سے لوگوں کا ذہنی سطح زمین بوس ہوگئی ہے۔ لوگوں کی اکثریت ذہنی پراگندگی اور جذباتی انتشار کی وجہ سے اظہار خیال کے ٹھوس، پاکیزہ، متوازن اور سنجیدہ معیار سے محروم ہیں ایسے عالم میں یہ دونوں حضرات ملکی سیاست کے آسمان پر چمکتے دمکتے وہ ستارے ہیں کہ جن کی زبانیں ذہنوں کی آبیاری میں مستقل مزاجی سے اپنا اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں۔
کسی بھی زبان کے دامن میں معیار، آسودگی اور پھیلاؤ زبان و بیان اور اظہار و اختیار کے ان خوبصورت قرینوں کی بدولت آتے ہیں جو علم، توازن اور ادب سے آراستہ ہو۔ قوموں کو ہر سطح پہ معیاری زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوگوں کے مافی الضمیر کی ترجمان زبان ہے، علم کا منبع زبان ہے، اظہار خیال و جذبات کا ذریعہ زبان ہے۔
اتفاق و اختلاف کے وقوع کا دائرہ کار زبان ہے۔ منشاء خدا وندی کا پیمانہ زبان ہے۔ مختلف زمانوں، خطوں اور ذہنوں کا درمیانی پل زبان ہے۔ زبان کی اہمیت و افادیت اتنی زیادہ ہے کہ زندگی میں انفرادی اور قومی ہر دو اعتبار سے انکار قطعاً ممکن نہیں بلکہ سچ پوچھیے تو زبان ہی سیاسیات، سماجیات، آدبیات، دینیات، تعلقات، سائنسیات، تاریخ، اخلاقیات بلکہ تہذیب و ترقی کے پورے وجود کی اصل بنیاد ہے اور جو اس کے بہتر اظہار و بیان پر قدرت کے حامل لوگ ہیں وہ اہل زبان قرار پاتے ہیں۔