ٹرمپ کے بیس نکات اور اندر کی کہانی

آج کل ہر طرف ٹرمپ کے 20 نکات کا چرچا ہے۔
کسی شاعر یا شاعرہ نے ٹرمپ کے یہ 20 نکات آج سے کئی سال پہلے اپنے ایک شعر میں بیان کر دیے تھے۔۔۔۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری

(مشہور یہی ہے کہ یہ شعر پروین شاکر کا ہے لیکن اس کا کوئی مستند ثبوت دستیاب نہیں ہے)

ڈونلڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، جسے بعض ذرائع "Trump Peace Initiative” یا "Trump’s 20-Point Plan for Gaza” کہتے ہیں، جنوری 2025 میں سامنے آیا۔ بظاہر اس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد، تعمیر نو اور ایک عبوری انتظامی ڈھانچہ قائم کرنا بتایا گیا، مگر اس کے نکات اور نفاذی طریقہ کار کے اندر جھانکیں تو ایک مختلف حقیقت سامنے آتی ہے۔

اس منصوبے کی تفصیلات مختلف معتبر ذرائع جیسے Al Jazeera، Newsweek، Reuters، Jerusalem Post، The Guardian اور Middle East Eye میں رپورٹ ہوئیں۔ باقاعدہ دستخط شدہ حتمی متن ابھی دستیاب نہیں، لیکن اس کا لیک شدہ مسودہ اور بنیادی نکات عالمی میڈیا تک پہنچے، اور اسی کو اصل ڈرافٹ مانا گیا۔

اس منصوبے کے 20 نکات ملاحظہ ہوں:

1. غزہ کو انتہا پسندی سے پاک اور اپنے پڑوسیوں کے لیے محفوظ جگہ بنایا جائے گا۔ (Al Jazeera)

2. غزہ کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی تاکہ مقامی عوام براہِ راست فائدہ اٹھائیں۔ (Newsweek)

3. اگر اسرائیل اور حماس دونوں اس منصوبے کو قبول کریں تو جنگ فوراً رک جائے گی اور اسرائیلی فوج ایک متفقہ لائن تک پیچھے ہٹ جائے گی۔ (Al Jazeera)

4. معاہدے کے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں (زندہ یا لاشیں) کی واپسی ہو گی۔ (Newsweek)

5. یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل بڑی تعداد میں فلسطینی قیدی رہا کرے گا (250 عمر قید اور مزید 1700 دیگر)۔ (Al Jazeera)

6. ہتھیار ڈالنے والے حماس کے افراد کو معافی یا محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ (Newsweek)

7. معاہدہ ہوتے ہی مکمل انسانی امداد (پانی، بجلی، ہسپتال، سڑکیں) فوری طور پر بھیجی جائے گی۔ (Reuters)

8. امداد اقوامِ متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور غیر جانب دار ادارے تقسیم کریں گے۔ (Al Jazeera)

9. غزہ کو ایک عبوری ٹکنوکریٹک فلسطینی کمیٹی چلائے گی، جس کی نگرانی "Board of Peace” کرے گا، صدر ٹرمپ اور اراکین میں ٹونی بلیئر شامل ہوں گے۔ (Newsweek)

10. یہ باڈی غزہ کی تعمیر نو اور فنڈنگ کا فریم ورک سنبھالے گی جب تک فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل نہ کر لے۔ (Reuters)

11. خصوصی اقتصادی منصوبہ بنایا جائے گا تاکہ روزگار اور معیشت بحال ہو۔ (Newsweek)

12. ایک "special economic zone” قائم کیا جائے گا۔ (Al Jazeera)

13. کسی کو جبراً بے دخل نہیں کیا جائے گا، جانے والے واپس آ سکیں گے۔ (Reuters)

14. حماس یا دیگر عسکری گروہوں کو غزہ کی انتظامیہ میں شامل نہیں کیا جائے گا، ان کے ڈھانچے ختم ہوں گے۔ (Newsweek)

15. غیر مسلح کاری آزاد بین الاقوامی مانیٹرنگ کے تحت ہو گی۔ (Al Jazeera)

16. علاقائی شرکاء اس بات کی ضمانت دیں گے کہ غزہ پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔ (Reuters)

17. ایک "International Stabilization Force (ISF)” غزہ میں تعینات ہو گی جو مقامی پولیس کی ٹریننگ کرے گی۔ (Newsweek)

18 .
ISF اسرائیل اور مصر کے ساتھ سرحدی سیکیورٹی یقینی بنائے گی۔ (Al Jazeera)

19. اسرائیل غزہ پر الحاق یا مستقل قبضے کا دعویٰ نہیں کرے گا؛ مگر وقتی سیکیورٹی پیریمیٹر برقرار رہ سکتا ہے۔ (Newsweek)

20. اگر حماس انکار کرے تب بھی ISF کے کنٹرول والے علاقے میں امداد اور تعمیر جاری رہے گی۔ (Reuters)

یہ 20 نکات بظاہر امن، انسانی سہولت اور تعمیر نو کا خاکہ پیش کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے نمایاں پہلو اسرائیل کی سلامتی کے لیے گارنٹی اور فلسطینی خودمختاری پر سخت کنٹرول ہے۔

ابتدا میں کئی مسلم ممالک نے اسے خوش آئند قرار دیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بھی عمومی طور پر مثبت الفاظ استعمال کیے۔ لیکن جلد ہی وزیرِ خارجہ و ڈپٹی وزیراعظم محمد اسحاق ڈار نے وضاحت دی کہ یہ "ہمارا مسودہ نہیں”۔ ان کا مؤقف تھا کہ اصل مسلم ممالک کے مسودے میں ترامیم کر کے ٹرمپ نے یہ نکات پیش کیے۔ چنانچہ پاکستان نے فاصلہ اختیار کیا اور واضح کیا کہ اس پر کوئی باضابطہ دستخط نہیں کیے۔

آئیے ذرا اِن 20 نکات کے اندر جھانکتے ہیں

یہ 20 نکاتی منصوبہ کاغذ پر اور سرکاری لفاظی میں "امن” کے مینار کی بنیاد رکھتا ہے — مگر اس کی اندر کی ساخت اور نفاذی منطق ایک متضاد حقیقت کھول دیتی ہے: یہ منصوبہ امن کا لبادہ اوڑھ کر قدرتی طور پر اسرائیل کے سلامتی مفادات کو درجہ بہ درجہ مضبوط کرتا ہے، جبکہ فلسطینی سیاسی خودمختاری کو محدود اور کنٹرولڈ رہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

پہلا پہلو یہ ہے کہ منصوبے میں غزہ کے انتظام کو ٹکنوکریٹس کے حوالے کر دیا گیا — ایک عبوری، غیر سیاسی کمیٹی جو بین الاقوامی عسکری اور مالی نگرانی میں کام کرے۔ ظاہری طور پر یہ "غزہ کی خدمات بحال کرنے” کے لیے درست ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب مالی اور سیاسی اختیار بیرونی باڈی کے ہاتھ میں ہو تو حقیقی خود ارادیت پسپائی اختیار کر لیتی ہے۔

دوسرا پہلو سکیورٹی کی شرائط ہیں: منصوبہ واضح طور پر حماس کی غیرمسلح کاری اور عسکری ڈھانچوں کی تباہی پر زور دیتا ہے۔ یہ نقطہ اگرچہ عسکری جبر کم کرنے کے دعوے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، مگر عملی طور پر اس سے وہ سیاسی قوت بھی ختم ہو جائے گی جو فلسطینی مزاحمت کو وجود بخشتی ھے۔

تیسرا اور شاید سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ منصوبے کے نفاذ میں جو "بین الاقوامی عبوری باڈی” اور "استحکام فورس” آتی ہیں، وہ عملی کنٹرول کے نئے طریقے ہیں۔ یہ فورسز، نگرانی اور معاشی منصوبہ بندی مل کر ایک ایسا ماحول بنائیں گی جہاں محض فوجی امن نہیں رہے گا بلکہ سیاسی اور اقتصادی کنٹرول بھی غیر ملکی ہاتھ میں ہو گا۔ اس صورت حال میں اسرائیل کو نہ صرف فوری سکیورٹی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ ایک مدت بعد غزہ ایک ایسی ریاست نما اکائی بن کر رہ جائے گا جس کے سیاسی فیصلے پڑوسی ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں کے کنٹریکٹ رہین منت ہوں گے۔

ٹونی بلیئر کی شمولیت اسی ڈھانچے کو "بین الاقوامی اخلاقی مہر” دینے کی کوشش معلوم ہوتی ہے — یعنی ایک سابق مغربی لیڈر کو سامنے لا کر منصوبے کو ایک غیرجانبدار، تکنیکی شبیہہ دینا۔ مگر بلیئر کی ساکھ ماضی میں عراق کے حوالے سے مشکوک اور تنقید سے مزین ھے۔ اس پس منظر میں ان کی شمولیت شکوک و شبہات کو مزید ہوا دیتی ہے کہ یہ عمل واقعی فلسطینی مفاد میں ہے یا بیرونی مفادات کے ایک اور مرحلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

قصہ مختصر اگر آپ کاغذ پر دیے گئے جملوں کو الگ کر کے دیکھیں تو منصوبہ امن، امداد اور تعمیر نو کے وعدے کرتا ہے؛ مگر جب آپ اس کے نفاذی میکانزم، نگرانی کے ڈھانچے اور طاقت کے توازن کو غور سے پڑھیں گے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ نظام بنیادی طور پر اسرائیلی سکیورٹی مفاد کو مستحکم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جبکہ فلسطینی قیادت اور خود مختاری کو کمزور اور ماتحت رکھنے کے طریقے واضح ہیں۔ مسلم ممالک کو ابتدا میں ‘خوش آئند’ کہنے پر قائل کیا گیا — مگر جب متن میں ترامیم سامنے آئیں تو بعض نے واضح فاصلہ رکھا، اور یہی فرقِ بیانیہ ہمیں بتاتا ہے کہ معاملہ کتنا نازک اور تہہ دار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے