میڈیا ایک آزاد معاشرے کی سب سے طاقتور قوت ہے، جو سچ اور حقیقت کا پرچم اٹھائے عوام تک روشنی پہنچاتی ہے، ناانصافیوں کی پردہ کشائی کرتی ہے اور حکومتی اداروں کو جواب دہ بناتی ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہے کہ اس سے عوام کو معاملات کی درست آگاہی حاصل ہوتی ہے، سیاسی شفافیت ممکن ہوتی ہے اور طاقتور افراد کو اپنی کارروائیوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ جب میڈیا آزاد ہو، تب ایک معاشرہ اپنی خامیوں کو جان سکتا ہے اور مثبت تبدیلی کا راستہ اپنا سکتا ہے۔ مگر آزادی صحافت کا تصور خود بخود ہر دور میں محفوظ نہیں رہتا؛ اسے کئی مشکلات اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسا کہ موجودہ واقعہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب پر پولیس کے دھاوے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
اس واقعے میں وفاقی پولیس اہلکاروں کا پریس کلب میں داخل ہونا، مظاہرین کی گرفتاری، صحافیوں اور ملازمین پر تشدد اور کیمروں کی توڑ پھوڑ ایک سنگین ظلم ہے۔ ایک ادارے کو قانون نافذ کرنے کا حق حاصل ہے مگر اس حق کی حدیں آئین اور شہری حقوق کی پاسداری میں رکھی ہونی چاہئیں۔ پولیس کا اندر داخل ہونا اور املاک کو نقصان پہنچانا واضح طور پر آئینی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ اس تشدد کی کارروائی آزادی اظہار رائے کے ایک مظہر پر حملہ ہے، اور اس کی شدید مذمت کرنا ناگزیر ہے۔ صحافتی تنظیموں کا مطالبہ کہ ایسے واقعات کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دی جائے، بالکل بجا اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا تقاضا ہے۔ نوے ژوند ادبي، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کے عہدیداران کی جانب سے اس عمل کی شدید مذمت اس بات کا اعادہ ہے کہ یہ معاملہ صرف چند افراد کا نہیں ہے بلکہ صحافتی برادری اور آزادی صحافت کی آئندہ نسلوں کے حق میں بھی ایک سنگ میل ہے۔
ماضی میں پاکستان میں ایسے واقعات کی تاریخ طویل ہے۔ مارشل لاء، ایمرجنسی کے ادوار، اور طاقتور قوتوں کی حکمرانی میں اکثر صحافیوں کو دباؤ، پابندی، گرفتاری اور تشدد کا مظاہرہ کرنا عام رہا ہے۔ لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں پریس کلبز پر حملے، اخبارات کی بندش اور صحافیوں کی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے واقعات کئی مرتبہ ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہر دور میں طاقتور عناصر نے میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کی ناگفتہ بیانی کو دبایا جائے۔ ان واقعات نے صحافتی پیشے کو خطرے سے دوچار کیا ہے اور صحافیوں میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ یہ ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم خاموش رہیں اور اس قسم کی حرکتوں کا مناسب ردعمل نہ دیں، تو آئندہ ایسے واقعات کی روداد بڑھتی جائے گی۔
پیکا (پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ) کا نفاذ بھی میڈیا کی آزادی کے لیے ایک زیرِ غور موضوع ہے۔ یہ قانون سائبر کرائمز کے تدارک کے لیے بنایا گیا تھا، مگر بعض دفعات اس کا استعمال تقریباً سنسرشپ یا دباؤ کے آلے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مخصوص دفعات بہت وسیع اور مبہم ہیں، جس کی وجہ سے انہیں تشہیر، بلاگ لکھنے اور سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کرنے والے افراد کے خلاف غلط استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ صحافی، بلاگر یا میڈیا کارکن اگر ایک غلط بیانی پر ملوث قرار پائے، تو اس قانون کی آڑ میں انہیں گرفتار یا ہراساں کرنا ممکن ہے۔ اس طرح آزادی صحافت محدود ہوتی ہے اور میڈیا کارکن خوف زدہ ہو کر حساس معاملات پر رپورٹنگ سے گریز کرتے ہیں۔ اس قانون کا جائزہ اور اصلاح ایک اشد ضروری اقدام ہے تاکہ وہ اظہارِ رائے کا ضامن بنے نہ کہ اسے دبانے کا آلہ۔
ان واقعات کی روک تھام کے لیے چند ضروری اقدامات کیے جائیں تو صحافت کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صحافیوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دیں۔ پریس کلب اور میڈیا دفاتر کو محفوظ زون قرار دیا جائے جہاں غیر مجاز داخلہ ممنوع ہو۔ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی تربیت میں میڈیا حقوق، انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی اہمیت کو شامل کیا جائے تاکہ اہلکار جان سکیں کہ صحافیوں کے خلاف تشدد یا املاک کی توڑ پھوڑ جائز نہیں۔ اس کے علاوہ عدالتیں اور پارلیمان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے قوانین جو آزادی اظہارِ رائے کو خطرے میں ڈالتے ہیں، ان کی شفاف نظر ثانی ہو، خصوصاً پیکا جیسے قوانین کی وضع کردہ دفعات کو محدود اور واضح کیا جائے۔ صحافتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ملک بھر میں اتحاد قائم کریں، قانونی معاونت فراہم کریں، متاثرہ صحافیوں کی وکالت کریں اور قومی و بین الاقوامی فورمز پر میڈیا کی آزادی کا مقدمہ اٹھائیں۔
علاوہ ازیں، عوامی شعور کو بڑھانا اور لوگوں کو یہ احساس دینا کہ آزاد اور باوقار میڈیا کی آواز ہے ان سب کے لیے بہت ضروری ہے۔ معاشرے کو یہ سمجھانا چاہیے کہ جب میڈیا آزاد ہوگا، لوگوں کی آوازوں کو دبایا نہیں جائے گا، اور نظام انصاف کی شفافیت ممکن ہوگی۔ تعلیمی اداروں میں صحافت اور اظہارِ رائے کی اہمیت کو موضوعِ بحث بنانا چاہیے تاکہ نئی نسل اس قدر اہم کردار کو سمجھے اور اس کی حفاظت کے لیے خود متحرک ہو۔ مزید یہ کہ میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو داخلی حفاظت اور قانونی معاونت کے نظام مضبوط کرنا چاہیے، تاکہ وہ بیک وقت خطرے کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کر سکیں۔ اس کے علاوہ، ان واقعات کی فوری شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات لازمی ہیں، تاکہ ملوث افراد کو سزا ملے اور آئندہ کے لیے عبرت بن جائے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو آزادی صحافت کی بنیاد کمزور پڑ جائے گی، اور میڈیا خوف زدہ ہو کر اہم موضوعات پر رپورٹنگ کرنے سے گریز کرے گا۔ صحافی برادری کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ اگر وہ ایک آواز کے طور پر خاموش رہے، تو آزادی اظہارِ رائے کا تصور ضعیف ہو جائے گا۔ اس لیے اجتماعی جدوجہد، قانونی چارہ جوئی اور عوامی آواز کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی ادراک ہو کہ موثر اور جمہوری صحافت، اس کی کامیابی کی کنجی ہے، نہ کہ مخالفت کا راستہ۔ آزادی صحافت کی حفاظت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوسکتا، اور یہ وقت ہے کہ ہم اس حملے کی مذمت کے ساتھ عملی اقدامات کا مطالبہ کریں تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو سکے۔