امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پپیس پلان برائے غزہ اور پاکستان

امریکی سیاست ہمیشہ عالمی منظرنامے پر اثرانداز رہی ہے۔ خصوصاً جب بات مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی ہو تو واشنگٹن کی پالیسیاں براہِ راست وہاں کے عوام اور خطے کی سیاست پر اثر ڈالتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے مخصوص انداز میں ’’پپیس پلان‘‘ کے نام سے غزہ کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس نے نہ صرف عرب دنیا بلکہ پاکستان سمیت مسلم ممالک میں بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

ٹرمپ کے اس پلان کو بعض حلقے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نیا نقشہ قرار دے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا مقصد فلسطینی عوام کو مزید تقسیم کرنا اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ غزہ پہلے ہی ایک انسانی المیے سے دوچار ہے، جہاں بجلی، پانی، ادویات اور خوراک کی کمی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنا چکی ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا پپیس پلان فلسطینی عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کی تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر کے فنڈز کی بات تو کی گئی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان رقوم پر کن کا کنٹرول ہوگا؟ کیا یہ براہِ راست غزہ کے عوام تک پہنچیں گی یا اسرائیل اور اس کے اتحادی ان کے اصل مالک ہوں گے؟

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پپیس پلان میں پاکستان کو بالواسطہ طور پر ایک کردار دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان عرب دنیا کے ساتھ مل کر اس منصوبے کی توثیق کرے اور غزہ کے حوالے سے ہونے والے کسی ممکنہ امن معاہدے میں سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت پر مبنی رہی ہے۔ پاکستان کے عوام دل و جان سے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بھی ان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے یہ ایک نازک موقع ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دباؤ کی سیاست ہے تو دوسری طرف عوامی جذبات اور مسلم امہ کے ساتھ وابستگی ہے۔ اگر پاکستان اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو یہ اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہوگا، لیکن اگر مخالفت کرتا ہے تو واشنگٹن کی ناراضی مول لینا پڑے گی۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کس حد تک اس توازن کو قائم رکھ سکے گی؟

ڈونلڈ ٹرمپ کا پپیس پلان بظاہر امن اور خوشحالی کا نعرہ لگاتا ہے مگر اس کی جڑیں طاقت کی سیاست میں پیوست ہیں۔ اسرائیل کو خطے میں مزید مضبوط کرنا اور فلسطین کو مزید کمزور کرنا اس کا بنیادی ہدف ہے۔ پاکستان کے لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ اپنے عوامی مؤقف کو سامنے رکھ کر فلسطینی عوام کی بھرپور حمایت جاری رکھے۔ اگر پاکستان نے عالمی دباؤ کے تحت کوئی لچک دکھائی تو یہ نہ صرف قومی وقار بلکہ مسلم امہ میں اس کے کردار کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا پپیس پلان غزہ اور پاکستان دونوں کے لیے ایک امتحان ہے۔ غزہ کے عوام کے لیے یہ ان کے مستقبل کی جنگ ہے جبکہ پاکستان کے لیے یہ اپنی خارجہ پالیسی اور اصولی مؤقف کی بقا کا سوال ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اصولی بنیادوں پر ڈٹے اور دنیا کو یہ پیغام دے کہ حقیقی امن فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے