کائنات کا ہر رنگ، ہر آہنگ، ہر نقش اپنے ضد کے ساتھ مل کر ہی اپنی حقیقی رونمائی کرتا ہے۔ جیسے سورج کی تپش کے بغیر چاند کی ٹھنڈک ادھوری ہے، ویسے ہی انسان کا وجود بھی دوسروں کے بغیر نامکمل ہے۔ ہماری خوشیاں تب تک پُرکیف نہیں ہوتیں جب تک انہیں بانٹنے والے ہاتھ نہ ہوں، اور ہمارے دکھ تب تک گھائل کرتے ہیں جب تک انہیں سینے سے لگانے والے سہارے نہ مل جائیں۔ رشتے محض نام، الفاظ یا رسمیں نہیں ہوتی، یہ تو وہ روحانی اور سماجی ریشے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے اس طرح جوڑتے ہیں جیسے ایک زنجیر کی کڑیاں آپس میں گُندھی ہوتی ہیں۔ یہی وہ سب سے مضبوط قلعہ ہے جو ہمیں زندگی کے طوفانوں سے بچاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تنہائی کو حضرت حواؑ کے وجود سے جوڑ کر اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا کہ انسان کی فطرت ہی اسے دوسروں کا محتاج بناتی ہے۔ ہم اکیلے پنکھ نہیں لگا سکتے، اکیلے اُڑ نہیں سکتے۔ ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہماری روایات سب ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ انسانیت کا مطلب ہی دوسروں کے ساتھ منسلک ہونا ہے۔ جب ہم کسی کے ہنسنے پر مسکرا دیتے ہیں، کسی کے آنسو پونچھ دیتے ہیں، یا کسی کی خاموشی کو سمجھ لیتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنی ہی روح کو سکون دے رہے ہوتے ہیں۔
معاشرہ ایک ایسا جال ہے جس کے ہر تار پر انسانی محتاجی کی کہانی لکھی ہوئی ہے۔ کسان کی محنت ہمیں روٹی دیتی ہے، استاد کی عرق ریزی ہمیں علم سے نوازتی ہے، اور ڈاکٹر کی مہارت ہمیں صحت بخشتی ہے اسی طرح کاریگر اپنے تجربات سے رہنے کے لیے ہمیں گھر تعمیر کرتی ہے۔ یہ باہمی انحصار ہی تو ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جب ہم اپنے رشتوں کو کمزور کرتے ہیں، اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہیں، یا اپنے ہمسایوں کو نظرانداز کرتے ہیں، تو درحقیقت اپنے ہی تحفظ کے قلعے کی اینٹیں اکھاڑ رہے ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہیں کہ جب قومیں اپنے اندرونی رشتوں کو کھو دیتی ہیں، تو ان کی عمارت بیرونی طوفانوں کے آگے مٹی کے گھروندے کی طرح بکھر جاتی ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کی کامیابی کا راز صرف ان کی معاشی طاقت یا ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ان کا مضبوط سماجی ڈھانچہ ہے۔ جہاں ماں باپ کی عزت کو مقدس سمجھا جاتا ہے، جہاں اولاد کی تربیت کو اولین فرض گردانا جاتا ہے، جہاں پڑوسی کے حقوق کو فراموش نہیں کیا جاتا، وہاں رشتے پائدار ہوتے ہیں۔ یہی رشتے ہیں جو کسی بھی قوم کو غیروں کی غلامی سے بچاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے گھروں کو محبت، ہمدردی اور یکجہتی سے نہیں سنبھالیں گے، تو پھر ہمارے لیے کوئی بھی محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے گی۔
آج ہم نے اختلافات کو نفرتوں، لڑائیوں، جگڑو، حسد، قینا اور منافقت میں بدل دیا ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ جس طرح رات اور دن ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، اسی طرح انسانوں کے درمیان اختلاف بھی فطری ہیں۔ کامیاب رشتے وہ نہیں جن میں ہمیشہ ہم آہنگی ہو، وہ ہیں جن میں اختلاف کے باوجود قدر و احترام قائم رہے۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں اتنے پردے ڈال لیے ہیں کہ اب ہم دیکھ نہیں پاتے کہ ہمارے آس پاس کتنے لوگ خاموشی سے سسک رہے ہیں۔ ہم نے پرائیویسی کے نام پر اپنے دلوں کے دروازے بند کر لیے ہیں، اور اب ہم ایک دوسرے کے بیچ رہ کر بھی تنہا ہو چکے ہیں۔
ہم نے مداخلت نہ کرنے کو تہذیب کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، حالانکہ درحقیقت یہ بے حسی کی ایک شکل ہے۔ اگر ہم واقعی اسلامی اقدار پر عمل کرتے، اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو اپنے دلوں میں اتار لیتے، تو آج ہمارے معاشرے میں تنہائی میں لاوارث کی طرح مرنے جیسے واقعات کبھی پیش نہ آتے۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارا ہمسایہ کس حال میں ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے کسی رشتے دار کی خاموش پکار کو سنا ہے؟
قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل دوسروں کے لیے ہمدردی اور خدمت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلانے کو اپنی محبت کا ذریعہ بتایا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی زندگیوں سے رحم دلی اور غمگساری کو نکال باہر کیا ہے۔ ہم نے اپنے رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، اور اب ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر شخص اکیلا ہے، چاہے وہ کتنی ہی بھیڑ میں کیوں نہ کھڑا ہو۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ، درد اور حالات سے باخبر رہیں۔ ایک مومن دوسرے مومن کا سہارا ہوتا ہے، جیسے دیوار کی ایک اینٹ دوسری کو سنبھالتی ہے۔ مگر آج ہم نے اپنے گرد ایسی بلند دیواریں کھڑی کر لی ہیں کہ نہ ہم کسی کی فریاد سنتے ہیں، نہ کوئی ہماری تکلیف محسوس کرتا ہے۔ یہی وہ سماجی موت ہے جو ہماری رگوں میں زہر کی طرح دوڑ رہی ہے۔
اس سے مجھے وہ سب سے بڑے ثبوت یاد آئے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کا مختصراً ذکر کرنا چاہوں گی، کہ کچھ عرصہ قبل اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش چھ مہینے بعد ان کے بند فلیٹ سے ملی۔ وہ سوشل میڈیا پر سات لاکھ فالوورز کی نظر میں چمکتی تھیں، مگر حقیقت میں ان کی زندگی کا اختتام اتنی خاموشی سے ہوا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ فریج میں پڑی کھانے کی اشیاء پر ایکسپائری ڈیٹ (ستمبر 2024) بتاتی ہے کہ وہ کتنے عرصے سے بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھیں۔ کیا ہی خوب کہ ہماری ڈیجیٹل دوستیاں اتنے دنوں تک کسی کی عدم موجودگی کو محسوس نہیں کر سکتیں۔ ان کے والد کا یہ کہنا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ایک المناک حقیقت ہے جو رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلام صلہ رحمی کی تعلیم دیتا ہے، چاہے رشتے دار ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مگر ہم نے موت کے بعد بھی نفرتوں کو گلے لگا رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حمیرا اصغر کی کہانی کوئی منفرد نہ تھی۔ اس سے پہلے ایک اور مشہور اداکارہ عائشہ خان کی لاش بھی کراچی کے ایک فلیٹ میں ہفتوں پڑی رہی تھی۔ اسی طرح کے واقعات ہمارے معاشرے کے بکھرتے تانے بانے کی علامت ہیں۔ شوبز انڈسٹری کی چکاچوند روشنیوں میں کھو جانے والے یہ لوگ جب تک اسکرین پر چمکتے ہیں، سب ان کے فین ہوتے ہیں، مگر جب ان کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے، تو ان کی لاش بھی محض ایک خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے نوجوان اپنے گھر، اپنی روایات اور اپنی عزتیں تک قربان کر دیتے ہیں۔
ایسی افراد کی زندگی اور موت ہمارے سامنے کئی سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا سوشل میڈیا کی دوستیاں کبھی حقیقی ہمدردی کا بدل ہو سکتی ہیں؟ کیا خاندان سے دوری کو آزادی کا نام دے کر ہم اپنے ہی تحفظ کے قلعے کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں؟ قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے: "كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ” (ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے)۔ مگر ہم نے موت کے بعد کی زندگی کو بھول کر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا ہے جہاں انسان مر کر بھی تنہا میں سڑ رہا ہوتا ہے۔
مرکزِ شہر کی بھیڑ میں، زندگی کی گہماگہمی کے بیچ، وہ عورت چھ مہینوں تک ایک ممی شدہ جسم کی صورت میں اپنے فلیٹ میں پڑی رہی۔ ان طویل دنوں میں کسی نے اس کی غیر موجودگی کو محسوس تک نہ کیا نہ والدین، نہ قریبی رشتہ دار، نہ دوست، نہ ہمسایہ۔ نہ جانے کب ان کی روح پرواز کر گئیں، اور ارد گرد کا مردہ معاشرہ اس سے بے خبر رہا۔ بخدا یہ نہ صرف دو خواتین کی بلکہ یہ تو ہماری اجتماعی انسانیت کی موت کی بھی داستان ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کون کہتا ہے کہ ہم زندہ ہے؟ ہم مر چکے ہیں۔ ہمارے رشتے، ہماری ہمدردیاں، ہمارا ضمیر سب کچھ گل سڑ چکا ہے۔ لاشیں صرف جسموں کی نہیں ہوتیں؛ قومیں، تہذیبیں اور انسانی رشتے بھی خاموشی سے مر جایا کرتے ہیں۔ اور ان کا کوئی جنازہ نہیں ہوتا، کوئی سوگوار نہیں ہوتا۔
اے انسان! چاہے تسلیم کرو یا انکار، زندگی کی حقیقی قوت اتحاد اور باہمی وابستگی میں پوشیدہ ہے۔ جب ہم رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں، معاشرتی بے حسی کو ہمدردی سے بدلتے ہیں، تو نہ صرف اپنی ذات تک بلکہ پورے معاشرے کو استحکام ملتا ہے۔ یاد رکھو، تنہائی کمزوری کی علامت ہے، جب کہ اجتماعیت ہی بقا کا واحد ذریعہ۔ خاندان، دوست یا ہمسائے فرقہ اور مذہب سے بالاتر ہو کر ایسے گہرے تعلقات استوار کرو جو رسمی نہ ہوں، بلکہ جذباتی یکجہتی اور عملی تعاون پر مبنی ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو سماجی زوال کے طوفان میں بھی ہمیں سنبھال سکتی ہے۔
سماجی بحران سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات
اس کے لیے روزمرہ زندگی میں چھوٹی مگر معنوی تبدیلیاں ضروری ہیں: کسی کی غیر موجودگی کو خلاء سمجھو۔ ضرورت مند کی مدد کو اپنا فریضہ جانو۔ رشتوں کی قدر کو عادت بناؤ۔
ہمارا ایمان ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی نہ صرف مادی ترقی کا نام ہے، یہ تو دوسروں کے دلوں میں جگہ بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم واضح ہے: ایک دوسرے کے خیال رکھو۔ یہی وہ صراطِ مستقیم ہے جو اجتماعی موت کو زندگی میں بدل سکتا ہے۔
اللہ کرے کہ ہم پیاروں سے جُڑے رہیں، تاکہ ہماری زندگی بھی بامعنی رہے اور موت کے بعد بھی ہمارا ذکرِ خیر ہو۔ ہمارے اعمال ایسے ہوں کہ ہماری غیر موجودگی بے حسی کا سبب نہ بنے، بلکہ خلاء محسوس ہو ایسا خلاء جو محبت اور یادیں بھر دے۔