بھارت کی افواج پر ہندوتوا کی انتہا پسندانہ سوچ کا سایہ اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ وہ ایک قومی ادارے کی بجائے مودی سرکار کی سیاسی مہم جوئی کا ہتھیار بن چکی ہیں۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر مئی 2025 کے "آپریشن سندور” کے بعد، بھارتی فوج کی جارحانہ کارروائیوں اور ہندوتوا سے متاثرہ پالیسیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارتی آرمی چیف جنرل اپندر دیویدی نے 3 اکتوبر 2025 کو راجستھان میں فوجی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کو کھلے عام دھمکی دی کہ سندور 2.0 میں پچھلی بار کی طرح تحمل نہیں کیا جائے گا، اور پاکستان کو اپنے جغرافیائی وجود پر غور کرنا پڑے گا۔” یہ بیان ہندوتوا کی جارحانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بھارتی فوج کو سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ایئر فورس چیف ایئر مارشل اے پی سنگھ نے بھی آپریشن سندور کو لے کر ایک نیا پروپیگنڈا شروع کیا ہے، جس کا مقصد بھارتی عوام کو گمراہ کرنا اور پاکستان کو کمزور دکھانا ہے۔
ہندوتوا، جو ایک ہندو قوم پرست نظریہ ہے، نے بھارتی اداروں، خاص طور پر فوج، کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے فوج کو ایک قومی ادارے سے ہٹ کر ایک ایسی قوت بنا دیا ہے جو ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس کی واضح مثال آپریشن سندور ہے، جسے بھارت نے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا بدلہ قرار دیا۔ تاہم، عالمی مبصرین اور آزاد تجزیہ کاروں نے اس حملے کو بھارت کی اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔ (اور اپنی فوجی نقصان پر عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا)پہلگام حملے کی تحقیقات کو نظر انداز کرتے ہوئے، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کیا اور فوجی کارروائی کا جواز پیش کیا۔ یہ وہی پرانا ہتھکنڈا ہے جو بھارت نے 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد بھی استعمال کیا تھا، جب بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا گیا اور اپنے جہازوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنا پائیلٹ بھی گرفتار کروا بیٹھا جس سے ثابت ہوا کہ وہ مقصد میں ناکام رہا۔
بھارتی فوج کی حالیہ کارروائیوں میں ہندوتوا کے اثرات واضح ہیں۔ فوجی تربیت کے پروگراموں میں ہندو قوم پرستی کے عناصر شامل کیے جا رہے ہیں، اور لگتا ہے کہ افسران کو ایسی تربیت دی جا رہی ہے جو ہندوتوا کے نظریات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ رجحان نہ صرف فوج کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اسے ایک ایسی قوت بنا رہا ہے جو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بھارتی فوج کے کمانڈروں کے بیانات، جیسے جنرل دیویدی کا تازہ بیان، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ فوج اب قومی سلامتی سے زیادہ سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے کام کر رہی ہے۔
مئی 2025 میں شروع کیا گیا آپریشن سندور بھارت کی جارحانہ پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔ بھارتی دعوؤں کے مطابق، یہ آپریشن پہلگام حملے کا جواب تھا، ۔ لیکن آزاد ذرائع نے بتایا کہ حملے کے پیچھے بھارت کی اندرونی سیاسی وجوہات تھیں۔ بھارت نے پاکستان کے شہری علاقوں پر میزائل حملے کیے، جن سے بے گناہ شہری متاثر ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستانی فوج نے "آپریشن بنیان المرسوس” شروع کیا، جس میں لائن آف کنٹرول اور کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں موجود بھارتی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستانی فضائیہ نے بھارتی ڈرونز اور جاسوسی طیاروں کو ناکام بنایا، اور پاکستانی فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کو روکا۔
بھارتی میڈیا نے آپریشن سندور کو کامیابی کے طور پر پیش کیا، لیکن عالمی میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں نے اسے ایک ناکام کوشش قرار دیا۔ بھارتی ایئر فورس چیف کے دعوے جھوٹ ثابت ہوئے جب پاکستان نے اپنی فضائی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ یہ پروپیگنڈا بھارتی عوام کو گمراہ کرنے اور مودی سرکار کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی فوج ہندوتوا کے زیر اثر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کھو رہی ہے، اور اس کی جارحیت خطے کے امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان کی فوجی قیادت نے بھارتی جارحیت اور دھمکیوں کے مقابلے میں ہمیشہ تحمل اور پیشہ ورانہ انداز اپنایا ہے۔ 4 اکتوبر 2025 کو پاک فوج کے ترجمان نے جنرل دیویدی کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "اگر پاکستان کو نقشے سے مٹانے کی کوشش کی گئی تو تباہی باہمی ہوگی، اور یہ بہت تباہی لائے گی۔” یہ بیان پاکستان کی دفاعی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جو جارحیت کے مقابلے میں دفاع پر مبنی ہے۔ پاک آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر، جنہیں مئی 2025 کی تنازعہ میں قیادت کے صلے میں ترقی دی گئی، نے واضح کیا کہ "پاکستان امن کا خواہاں ہے، مگر اس کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔”
ڈیفنس منسٹر خواجہ آصف نے بھی بھارتی پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان صرف فوجی اہداف پر حملہ کرے گا، شہریوں کو نہیں،” جو بھارتی فوج کی شہریوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی سے بالکل مختلف ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مئی 2025 میں اعلان کیا تھا کہ بھارتی حملے "جنگی عمل” ہیں، اور پاکستان وقت، جگہ اور طریقہ کار کے مطابق جواب دے گا۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج نہ صرف پیشہ ورانہ طور پر مضبوط ہے بلکہ قومی اتحاد کی علامت بھی ہے۔
ہندوتوا کی انتہا پسندانہ سوچ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں نے سری لنکا، نیپال، اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کیے ہیں۔ عالمی برادری نے بھارت کی فوجی جارحیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اقوام متحدہ نے مئی 2025 کے حملوں کے بعد دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کی تھی۔ لیکن مودی سرکار کی ہٹ دھرمی نے ثابت کیا کہ وہ امن کے بجائے سیاسی فوائد کو ترجیح دیتی ہے۔
بھارت کی فوج کی ہندوتوا سے متاثرہ پالیسیاں خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی فوج نے ہمیشہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت اور قومی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپریشن بنیان المرسوس نے ثابت کیا کہ پاکستان کی فوج نہ صرف اپنے دفاع کے لیے تیار ہے بلکہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ پاکستانی عوام اور فوج کا اتحاد ایک ایسی دیوار ہے جسے بھارت کبھی نہیں توڑ سکتا۔
بھارت کی فوج پر ہندوتوا کا سایہ اسے ایک قومی ادارے سے ہٹ کر ایک انتہا پسند ایجنڈے کا ہتھیار بنا رہا ہے۔ آپریشن سندور جیسے فوجی مہم جوئی کے اقدامات بھارت کی اندرونی کمزوریوں اور سیاسی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔ لیکن پاکستان کی فوج اور عوام کی مضبوطی نے ہر بار ثابت کیا کہ وہ کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بھارتی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جارحیت کی یہ آگ سب سے پہلے بھارت کو ہی جھلسائے گی۔ عالمی برادری کو بھارت کے اندر پھیلتے زہر کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ خطے کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان کی فوج اور عوام ہر مشکل گھڑی میں ایک دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، اور یہ دیوار بھارت کے بس سے باہر ہے کہ اسے توڑ سکے۔