ایبٹ آباد کے ایک نواحی علاقے میں ماریہ(فرضی نام )نام کی ایک لڑکی رہتی ہے۔ اس کا چہرہ شاید زمانے کی نظر سے اوجھل ہو، لیکن اس کی کہانی ہمارے معاشرے کی اصل تصویر ہے۔ وہ کہانی جو اکثر کہی نہیں جاتی، صرف جھیلی جاتی ہے۔
ماریہ کی زندگی کا آغاز ان خوابوں سے نہیں ہوا جو عام بچوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں گڑیا سے پہلے جھاڑو تھما دیا گیا، اس کے کندھوں پر کتابوں کا بستہ نہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا بوجھ رکھ دیا گیا۔ جب ماریہ صرف نو یا دس برس کی تھی، تب سے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی۔ کسی کے بچوں کو سنبھالنا، کسی کے برتن دھونا، کسی کے فرش پر جھاڑو دینا۔ یہ سب روزمرہ کی روٹین بن گیاتھا۔
اس کے والد گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کام کاج کا تصور اُن کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ ماریہ کی والدہ بھی مختلف گھروں میں چھوٹے موٹے کام کر کے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتیں۔ اس کی پانچ بہنیں ہیں اور دو بھائی۔ بڑی بہنوں نے بھی اسی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے اپنی شادیوں کا بوجھ خود اٹھایا ، اور اپنے خوابوں کو قربان کر کے دوسروں کی زندگیوں کی بنیادیں سنواریں۔
ماریہ نے اپنی بہنوں کی طرح نہ صرف اپنے خاندان کے مالی بوجھ کو اٹھایا، بلکہ اُن بھائیوں کو بھی پالا پوسا، جنہیں آج اپنی "غیرت” جاگتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
اب جب وہ بھائی جوان ہو چکے ہیں، اور ماریہ کی عمر 22 سے 24 برس کے درمیان ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ اب ماریہ کو گھر میں بیٹھنا چاہیئے ۔ اب اُنہیں یہ گراں گزرتا ہے کہ اُن کی بہن گھر سے باہر جا کر کام کرتی ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ، اب غیرت کیوں جاگی ہے؟
وہ بہن جو برسوں سے ہنسی خوشی اپنے خوابوں کو قربان کر کے دوسروں کے خوابوں کی بنیادیں رکھتی رہی، وہ جو ہر روز کئی آنکھوں کی چبھن، کئی زبانوں کے طنز، اور کئی حرکات کی گندگی سے خود کو محفوظ رکھتی رہی، وہ جو ہر دن اپنی عزت، وقار اور حوصلے کا بوجھ خود اٹھاتی رہی، اُسے اب غیرت کا طعنہ دیا جا رہا ہے؟
ماریہ کی آنکھوں نے بچپن میں وہ منظر دیکھے ہیں جو کئی لوگ اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھتے۔ وہ جانتی ہے کہ گندی نظریں کیا ہوتی ہیں، بےحس رویے کیسا درد دیتے ہیں، اور خاموش برداشت میں کتنی اذیت چھپی ہوتی ہے۔ وہ ہر اُس لمحے میں اکیلی کھڑی رہی، جب مرد معاشرہ اُس کی حفاظت سے منہ موڑے کھڑا تھا۔
اور آج، جب زندگی کی تھکن اُس کے چہرے پر جھلکنے لگی ہے، تو وہی بھائی، جو کبھی دودھ کے لیے روتے تھے اور ماریا اُنہیں چپ کراتی تھی، کہتے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے؟ یہ وہ بھائی ہیں جن کی پرورش میں ماریہ کے کٹے ناخن، پھٹے ہاتھ، اور آدھی نیندیں شامل ہیں۔
یہ وہ تلخ سچائی ہے جس پر ہمارے معاشرے کو آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ غیرت کا معیار عورت کا کردار نہیں، مرد کا ظرف ہوتا ہے۔اور یہاں ایک سوال ہر اُس ضمیر سے ہے جو سانس تو لیتا ہے، لیکن سوچتا نہیں۔ اور بطور معاشرہ، ہمیں سوچنا ہوگا۔
کیا ہم بیٹیاں صرف اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ وہ قربان ہوں، بچپن سے ہراسانی سہیں، جوانی میں طعنے سنیں، اور بڑھاپے میں بے قدری کا سامنا کریں؟
کیا ماں باپ کی گود بیٹی کے لیے ظلم کی پہچان بنے گی؟ کیا ہر ماریہ اپنی کہانی میں اکیلی کھڑی رہے گی؟
ماریہ صرف ایک لڑکی نہیں، وہ ہمارے نظام کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ وہ کہانی ہے ان ہزاروں لڑکیوں کی، جو مردوں کی "غیرت” سے زیادہ غیرت مند زندگی گزارتی ہیں۔
لیکن یہاں کچھ سوالات رہ جاتے ہیں۔
سوال صرف بھائیوں سے نہیں، اُس باپ سے بھی ہے، جو ایک کونے میں بیٹھ کر برسوں سے خاموش تماشائی بنا رہا۔
کیا باپ کا کام صرف اولاد پیدا کرنا ہے؟
کیا یہ کافی ہے کہ اُس نے سات بچے پیدا کر دیے، اور پھر انہیں اس بےرحم معاشرے کے سپرد کر دیا، جہاں ماریہ جیسی بچیاں بچپن سے لے کر جوانی تک عزت بچاتی پھرتی ہیں؟
کیا ایک باپ کی ساری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ ماں کی کوکھ بھر دے، اور پھر زندگی بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے؟
ماریہ کے بھائی آج جوان ہو چکے ہیں۔ اُنہیں آج اپنی غیرت کا خیال آ گیا ہے۔ مگر وہ غیرت اُس وقت کہاں تھی جب ماریہ اُنہیں روٹی کھلاتی تھی، اُن کے سکول کے پیسے جوڑتی تھی، اُن کے لیے خود کو دوسروں کے سامنے جھکاتی تھی؟
اب اگر اُنہیں غیرت کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ ماریہ سے نظریں نہ چُرائیں، اُس کے پاؤں چھوئیں، اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہیں۔۔۔۔
ہم شرمندہ ہیں، ہم مقروض ہیں۔
ماریہ کا نام گمنام سہی، مگر اُس کی قربانی کی گونج ہر اُس در و دیوار سے ٹکرانی چاہیے، جہاں بیٹیاں آج بھی خاموشی سے اپنے آنسو پی کر معاشرہ سنوار رہی ہیں۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماریہ جیسے کرداروں کو معاشرے کا فخر بنائیں، اُن کی قربانیوں کا اعتراف کریں، اور اُن کے خوابوں کو پنکھ دیں۔