ہمارے رویّے اور پیش آمدہ حالات

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک شخص نوکری سے چھٹی پر گھر آتے ہوئے اپنے باپ کے لیے ریڈیو بطور تحفہ لایا۔ رات کے جب آٹھ بج گئے تو بیٹے نے باپ سے کہا کہ ابا آئیے دونوں ریڈیو پر بی بی سی سنتے ہیں۔ جب تک بیٹا واپس نوکری پر نہیں گیا، باپ بیٹے کا یہی معمول تھا کہ ایک ساتھ بیٹھ کر ریڈیو پر بی بی سی سنا کرتے تھے۔ اس دوران بیٹے کی چھٹی ختم ہوئی اور والد صاحب کو بی بی سی سننے کی عادت پڑ گئی۔ بیٹا جب چلا گیا تو پندرہ بیس دنوں تک والد صاحب ریڈیو پر بی بی سی سنتے رہے۔ مگر پندرہ بیس دنوں کے بعد ریڈیو کی آواز میں فرق آنا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے ریڈیو کی آواز بالکل بند ہوگئی۔ ابا حضور نے ریڈیو کے بینڈ کو بہت ادھر اُدھر گھمایا مگر ریڈیو نے اپنی خاموشی برقرار رکھی۔ آخرکار ناامید ہو کر ابا حضور نے ریڈیو کو گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا۔

چند مہینوں کے بعد جب بیٹا دوبارہ چھٹی پر آیا تو ابا حضور نے اسے ریڈیو کی شکایت لگائی کہ آپ کے جانے کے پندرہ بیس دن بعد اس نے بی بی سی سنانے سے انکار کر دیا ہے، آپ کے پاس اگر اس کی خاموشی توڑنے کا کوئی علاج ہو تو کریں۔ بیٹے نے ریڈیو کو ہاتھ میں لیا اور سیدھا اس کے سیل کھول کر دیکھے تو کیا دیکھتا ہے کہ ریڈیو کے سیل مکمل طور پر پگھل چکے تھے۔ سیل کی حالت کو دیکھ کر بیٹے نے باپ سے عرض کیا کہ ابا حضور! ان سیلوں کے ذریعے ریڈیو پر بی بی سی سننا ناممکن ہے۔ اگر آپ کو بی بی سی سننے سے کوئی دلچسپی ہے تو آپ کو یہ سیل تبدیل کرنے پڑیں گے۔

اس مثال کے تناظر میں اگر موجودہ حالات اور ان میں انسانوں کے اختیار کردہ رویوں کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ مثال قطعی طور پر حالیہ منظرنامے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔

حالات کے پیچھے بنیادی لحاظ سے تین قسم کے عناصر ہوتے ہیں: ایک سوچ و فکر، دوسرا سوچ و فکر کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے رویے اور پھر رویوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے کردار جن کی شکل ہمیں حالات میں دکھائی دیتی ہے۔ سوچ و فکر کی بنیاد نظریات اور عقائد ہوتے ہیں۔ انسانوں کے نظریات اور عقائد سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیاوی زندگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ چونکہ مسلمانوں کا ہے اس لیے یہاں عمومی طور پر زندگی کو مذہب کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر مذہب کو ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ نہایت اہم سوال ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر مذہب کے حوالے سے دو قسم کے نقطہ نظر ہیں اور ان دونوں میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ دونوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ مذہب کو اس کی اصل بنیاد کے بجائے اشخاص اور گروہوں سے لیتے ہیں۔

ان گروہوں میں اگر ظاہراً مذہبی کہلانے والے گروہ کے نظریات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے نظریات کی بنیاد پیر، فقیر، استاد، مدرسہ اور پارٹی ہوتے ہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنی ایک کتاب ہے جس کو بنیاد بنا کر مذہب کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ کتاب مذہب کی جن تعلیمات کی تائید کرتی ہے، انہیں مانا جاتا ہے اور مذہب کی جو تعلیمات اس کتاب میں مذکور نہیں ہوتیں، انہیں قطعی طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نظریات و افکار کی بنیاد کے لیے مذہب کے اصل بنیادی مآخذ، قرآن و سنت کو بنیاد بنایا جاتا۔ دراصل یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس نے ظاہری طور پر مذہبی کہلانے والے گروہ کو اصل مذہب سے کوسوں دور کر دیا۔

نظریات کی غلطی ہمیں مذہبی لوگوں کے رویوں میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے؛ جیسے اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہ سمجھنا، اپنے مسلک کے علاوہ کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، بےمحل کفر اور ضلالت کے فتوے لگانا، اپنے مسلک کے مدرسے کے علاوہ دوسرے مدرسے میں پڑھنے سے ایسا گریز کرنا جیسے یہودیوں اور ہندوؤں کے طریقۂ عبادت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ نظریات کے لیے غلط بنیادوں کو وضع کرنے کی وجہ سے عمومی طور پر مذہبی کہلانے والے لوگوں کے رویوں میں جو نامعقولیت پیدا ہو چکی ہے، اسے نشانۂ تضحیک بنایا جاتا ہے۔ اس تضحیک آمیز رویے کی وجہ سے مذہبی لوگوں میں ردِعمل پیدا ہوتا ہے اور اسی ردِعمل کی وجہ سے معاشرتی دوریاں، عدم اتفاق، عدم تعاون اور باہمی منافرت پیدا ہوتی ہیں۔

مذہبی طبقے کے علاوہ ہمارے ہاں دوسرا طبقہ لبرلز اور سیکولرز کا ہے، جسے مذہب بیزار طبقہ کہنا شاید نامناسب نہ ہوگا۔ ان لوگوں کے پاس بھی نظریات و افکار کے لیے کوئی معقول اور واضح بنیاد نہیں۔ ان کی زندگیوں کا سب سے بڑا وظیفہ اگر کچھ ہے تو وہ مذہب بیزاری کا اظہار ہے۔ گویا ان کی زندگیوں کا مقصد ہی مذہب کی مخالفت بن چکا ہے۔ ان کے پاس مذہب پر تنقید بلکہ مذہب کی تضحیک کے لیے نہ کوئی علمی بنیاد ہے اور نہ ہی کوئی عملی کردار۔ ان بیچاروں کی سطحیت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی مذہبی شخص جہاز میں سفر کرے تو وہ ان کے نزدیک ملعون ٹھہرتا ہے؛ دنیا کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا گویا صرف لبرلز اور سیکولرز ہی کے لیے ہے۔

ان حضرات کے نزدیک تمام مسائل کا حل اس میں ہے کہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیا جائے اور کسی ایک فلسفی یا فلسفیوں کے گروہ کو یہ اتھارٹی دی جائے کہ تمہیں یہ پورا پورا حق حاصل ہے کہ جو چاہو حلال کرو اور جو چاہو حرام کرو۔ گویا یہ حضرات پوری انسانیت کو چند لوگوں کے خیالات کا غلام بنانے کو مسائل کا حل کہتے ہیں۔ اور کمال کی جرات مندی یہ ہے کہ یہ اسی رویے کو آزادی کا نام بھی دیتے ہیں۔

دراصل یہ رویہ کم ہمتی، تن آسانی اور اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ اگر بات یہ ہے کہ مذہبی لوگوں کے رویوں سے یہ حضرات نالاں ہیں تو ایسی صورت میں تو ان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ دین سے سیکھنے کے فن سے آراستہ ہو کر دنیا کے سامنے عملاً مذہب کا درست تصور پیش کرتے اور نام نہاد مذہبی گروہ کی غلط کاریوں کو دلیل اور شائستگی سے واضح کرتے۔ مگر چونکہ یہ کام محنت طلب ہے اور خواہشاتِ نفسانی کے لیے ظاہری لحاظ سے پرکشش نہیں، اس لیے ان حضرات نے عافیت اس میں سمجھی کہ ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کی جائے۔ اور انہیں اس کی صورت اس میں نظر آئی کہ مذہب کے کردار کو ہی ذات تک محدود کیا جائے۔ اس کام کے لیے اگر مذہب پر براہِ راست حملہ نہ ہو سکے تو تنقید کے لیے مذہبی لوگوں کی غلط کاریوں کا سہارا لیا جائے۔

معاشرے میں تیسرے قسم کے جو رویے ہمیں نظر آتے ہیں وہ ناپختہ سیاسی رویے ہیں۔ مروجہ سیاسی رویوں پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عوام کو اپنے اور اپنے بچوں کے مسائل سے زیادہ پارٹیاں اور لیڈر عزیز ہوتے ہیں۔ ہم باقاعدہ طور پر اپنے سیاسی رویوں کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اپنے خلاف استعمال ہونے کو ہمارے دماغ میں عین حق بیٹھا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اوپر اصلاح کے راستے کو بھی بند کیا گیا ہے۔

پچھلے پچھتر سالوں سے ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جمہوری نظامِ سیاست کس قسم کے سیاسی رویوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ ہم افراد یا پارٹیوں کے لیے تو گھروں سے نکلتے ہیں، سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں مگر اپنے حالات کی درستگی کے لیے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ کیا ہمیں اس معاشرے میں امن، خوراک، بجلی، گیس، عزتِ نفس، تحفظ، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی ضروریات بھی میسر ہیں یا نہیں۔ سیاسی لیڈر مختلف بیانیوں کے ذریعے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور جب اقتدار ملتا ہے تو وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جو انتخاب کے وقت ان کے سامنے سب سے زیادہ گھٹیا کام ہوا کرتے تھے۔ تشویشناک اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ہمنوا ان کے واضح وعدہ خلافیوں کے باوجود ان کے پیچھے کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی سوال کرنے والا ان سے سوال کرے کہ اپنے وعدوں سے اس قدر کھلے انحراف کرنے والے کیسے انقلاب لا سکتے ہیں؟ تو جواب یہی ہوتا ہے کہ جو بھی ہو ہمیں فلاں پارٹی چاہیے، فلاں شخص کو اقتدار ملنا چاہیے۔

معاشرے میں سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جمہوری نظام میں لوگوں کو قائل کرنے کے لیے مختلف میدانوں میں سرایت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ، وکلا، کسان، مزدور، اساتذہ، علما، ادبا وغیرہ میں واضح نمائندگی کا ہونا اور ان لوگوں کا کسی پارٹی کے ساتھ علمی بنیادوں پر وابستگی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں پارٹیاں معمولی عہدوں پر رہ کر اپنی خدمت کا ثبوت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوام الناس میں خدمت کے ذریعے اپنی پہچان پیدا کرنا جمہوری نظام کے لوازمات میں سے ہے۔ اگر کسی جمہوری ملک میں کسی پارٹی کے پاس اس قسم کا ڈھانچہ نہ ہو تو جمہوری طریقے سے ان کا اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہوتا، البتہ ان کے لیے جھوٹ، فریب اور دیگر سہاروں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم فکری طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی قطعی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہم درپیش مسائل کے حل میں منظم اجتماعی کردار ادا کر سکیں، کیونکہ ہمارے اندر کے سیل خراب ہو چکے ہیں، ان کے ذریعے بی بی سی سننا ممکن نہیں۔

مثبت اصلاح کے لیے ہر فرد نے، ہر پارٹی نے اپنی اپنی جگہ سوچنا ہوگا اور جو غلطیاں ہو رہی ہیں خواہ وہ فرد کر رہا ہو یا کوئی گروہ، ان کا اعتراف کرنا ہوگا۔ یہ اعتراف محض اعتراف نہ ہو بلکہ اس میں معاشرے کی ابتر صورتحال کا درد بھی ہو تاکہ وہ درد ہمیں معاشرے کے لیے درست سمت میں کام پر آمادہ کر سکے۔

ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ ہر وہ شخص جو غلطی کر رہا ہو، بدنیت ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ مخلص ہوتے ہوئے بھی کوئی نظریاتی، عملی اور سیاسی غلطی کا شکار ہو۔ اس قسم کے مخلص لوگوں کو چاہیے کہ وہ اہلِ علم، اہلِ دانش اور معاشرے میں اچھے کردار کے حامل لوگوں کے ساتھ اپنے من کی دنیا کو شریک کریں، ان سے مشورہ لیں اور اس کے نتیجے میں اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ اور جن لوگوں کو اپنی اصلاح کی فکر ہوتی ہے، فطرت کا قانون یہ ہے کہ ان کی اصلاح ہو جاتی ہے۔

ہمارے حالات اس قسم کے رویوں کے متقاضی ہیں۔ ان رویوں کے ذریعے جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے اس وقت تک حالات کی تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے