آرزو خان آفریدی: ہنر، حوصلے اور حسنِ کردار کا حسین امتزاج

دل کی دنیا ایک ایسا وسیع و عریض اور اسرار سے بھرپور صحرا ہے، جسے ہر شخص اپنی خواہش، نیت اور شعور کے مطابق آباد کرتا ہے۔ یہ صحرا کسی کے لیے ویران اور بے رنگ رہتا ہے تو کسی کے لیے نخلستان بن جاتا ہے۔ دل کی بستی میں سکون، حسن، امید اور روشنی تب ہی داخل ہو سکتے ہیں جب انسان خود کو اچھائی، محبت، خدمت اور فہم کے لیے کھول دیتا ہے۔ یہ خوبیاں کسی سونے کی کان کی مانند ہیں، جن کی تلاش ایک عمر کا تقاضا کرتی ہے۔ جن دلوں میں علم، حلم، صبر، شرافت، خلوص اور احساس کی روشنی موجود ہو، وہاں زندگی کی خوشبو پھیلتی ہے، وہاں محبت گل کھلاتی ہے، اور وہی دل انسانیت کے لیے جینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جو لوگ ان خوبیوں کو پالیتے ہیں وہ نہ صرف خود زندہ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی زندگی دے جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔

ایسے ہی کچھ کردار، چہرے اور زندہ دل لوگ اس دنیا میں ہر لمحہ ہماری توجہ اور دل کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں۔ ان کی روشنی، ان کا حوصلہ، ان کا جذبہ اور ان کی لگن زندگی کے اصل حسن کو اجاگر کرتے ہیں۔ بعض انسان کٹھن حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتے بلکہ انہی حالات سے لڑ کر راستے نکالتے ہیں۔ وہ تاریکیوں میں چراغ بن کر جلتے ہیں اور دوسروں کو بھی راستہ دکھاتے ہیں۔ ان کا وجود محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک مکمل درسگاہ، ایک زندہ پیغام اور ایک الہامی پکار ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو صرف اندھیرے دیکھتے ہیں، وہ جن کے دل منفی سوچوں کے قیدی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی آنکھیں صرف مایوسی کی دھند دیکھتی ہیں اور زبانیں شکایتوں کی تکرار کرتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کوئی امید کا دیا جلاتا ہے، وہ انسان روشنی کا استعارہ بن جاتا ہے۔

بچپن کی وہ حساسیت، وہ مشاہدہ، وہ لچک اور وہ جذبہ جو کسی کے دل میں جاگ جائے، وہ بڑے ہو کر کمال کا انسان بنتا ہے۔ ایسا انسان جو صرف خود کے لیے نہیں بلکہ معاشرے، قوم، نسل اور انسانیت کے لیے جیتا ہے۔ جو ہر چہرے میں معنی تلاش کرتا ہے، ہر منظر میں پیام دیکھتا ہے اور ہر واقعے میں رب کی رضا محسوس کرتا ہے۔ ایسا شخص جب قلم تھامے، تو الفاظ میں تاثیر اترتی ہے، اور جب رنگوں سے کھیلتا ہے تو کینوس پر زندگی بولتی ہے۔ یہ وہی صفات ہیں جو آج میرے موضوع کی ہیروئن کی ذات میں مکمل طور پر نظر آتی ہیں۔ ایک حساس دل، متحرک ذہن، نرم مزاج، باوقار شخصیت اور جذبہ خدمت سے لبریز کردار جو اپنے گرد کے ماحول کو صرف دیکھتی ہے بلکہ مسلسل بہتر بنانے کے لیے سرگرم بھی رہتی ہے۔

23 ستمبر 2025 کو اسلام آباد کے خوبصورت شام میں، نیشنل کونسل آف آرٹس کی فضاؤں میں الفاظ، رنگ، اور امن کی روشنی نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ "نوے ژوند” یعنی نئی زندگی، ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم کے زیر اہتمام منعقدہ چوتھے امن ایوارڈ کی تقریب، نہ صرف ایک فلاحی اور ثقافتی سنگ میل تھی بلکہ اس نے پشتون ثقافت کو نئی روح اور نئی آواز عطا کی۔ اس یادگار موقع پر عظیم انقلابی شاعر اجمل خٹک کی صد سالہ جشنِ پیدائش نے ماحول کو ایک فکری اور ادبی جوش سے بھر دیا۔ لیکن تقریب کا سب سے قابلِ توجہ لمحہ وہ تھا جب ایک باہمت، باصلاحیت اور فن سے لبریز نوجوان لڑکی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے حاضرین کے دل موہ لیے۔ اس لڑکی کا نام ہے: آرزو خان آفریدی۔

آرزو خان نہ صرف ایک شاعرہ ہیں بلکہ ایک ماہر مصورہ، ناول نگار اور کیلی گرافر بھی ہیں۔ مجھے ان کے ہاتھوں سے تیار کردہ انتہائی خوبصورت دل کو چھو لینے والا سکیچ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جب معروف شاعر، ادیب نوے ژوند تنظیم کے چیئرمین نسیم مندوخیل کا اسکیچ جب سید معصوم شاہ معصوم کے توسط سے پیش کیا گیا، تو پورے ہال میں داد و تحسین کی گونج سنائی دی۔ آرزو خان کی یہ کاوش محض ایک فن پارہ نہ تھی یہ ان کے جذبے، محنت، لگن اور تخلیقی فہم کی تصویر تھی۔ ایسے لمحات ہمارے زندگی میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ٹیکسلا جیسے تاریخی شہر میں جنم لینے والی آرزو خان آفریدی ایک ایسے خاندان کی سب سے چھوٹی فرد ہیں جہاں تین بہنیں اور تین بھائی موجود ہیں۔ مگر سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود انہوں نے سب سے بڑی باتیں اور کام کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچپن ہی سے انہیں شاعری سے خاص لگاؤ تھا، اور یہی لگاؤ وقت کے ساتھ ان کی پہچان بنا۔ ان کی تعلیم ایم اے اسلامیات ہے، جو ان کے اندر کی فکری گہرائی اور روحانی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر محض جذباتی اظہار تک محدود ہے، بلکہ وہ ہر فن میں ایک مقصد، ایک پیغام، اور ایک تبدیلی کی صورت میں کام کرتی ہیں۔

ستمبر 2023 میں ان کی پشتو شاعری کی پہلی کتاب "د سحر پہ طمع” منظرِ عام پر آئی، جو نہ صرف ان کی زبان و بیان پر دسترس کا ثبوت ہے یہ ان کے دل کی صداقت اور سوچ کی وسعت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اس کتاب نے انہیں پشتو ادب کے افق پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بنا دیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی دلیل ہے کہ آرزو خان آفریدی صرف خواب نہیں دیکھتیں وہ ان خوابوں کو عملی جامہ پہنانا بھی اچھی طرح جانتی ہیں۔ ان کی شاعری میں درد، امید، جدوجہد اور شعور کی وہ گہرائی ہے جو صرف کسی سچے اور باشعور شاعر کے قلم سے ہی نکل سکتی ہے۔

ادبی میدان میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اباسین ادبی ٹولنہ کوہاٹ اور نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کی جانب سے دو معتبر ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ یہ اعزازات صرف ان کی محنت کا صلہ ہے یہ تو اس بات کی تصدیق ہیں کہ معاشرہ ان کے فن کو تسلیم کر رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں فنکار اور سماج ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں۔ آرزو خان کی یہ کامیابیاں ہر اُس لڑکی کے لیے مشعل راہ ہیں جو کسی گمنامی کے کونے میں چھپی بیٹھی ہے اور دنیا کو اپنے رنگ دکھانے سے جھجک رہی ہے۔

آرزو خان کا ایک منفرد خواب ہے: مستقبل میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہتی ہے جہاں نہ صرف تعلیمی معیار بلند ہو بلکہ بچوں کی شخصیت سازی، فنونِ لطیفہ اور اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا جائے۔ وہ خود تدریسی شعبے سے وابستہ رہ چکی ہیں، اس لیے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی نظام میں کہاں کہاں بہتری کی ضرورت ہے۔ ان کا خواب محض ایک اسکول کا قیام ہے، ایک ایسا ادارہ بنانے کا ہے جہاں سے قوم کے معمار نکلیں۔

اگر ہم ان کی شخصیت پر ایک جامع نظر ڈالیں تو آرزو خان آفریدی ایک ہمہ جہت، متوازن اور پختہ سوچ رکھنے والی لڑکی ہیں۔ ان کے اندر فنون، تعلیم، اخلاقیات اور سماجی شعور کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف خود خوش رہنے کی قائل ہیں، وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہتی ہیں کہ ان کے اردگرد کا ہر شخص، ہر دل، ہر ذہن مسکرائے اور امید کی روشنی میں جینا سیکھے۔ ان کی سوچ کا محور صرف اپنی ذات نہیں پورا معاشرہ ہے۔ یہی خصوصیت ایک عام انسان کو غیر معمولی بناتی ہے۔

مزید برآں، آرزو خان آفریدی کی مصوری میں گہرے رنگوں کا استعمال اور کیلی گرافی میں روحانیت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جو پینٹنگز اور اسکیچز تخلیق کیے ہیں وہ محض تصویریں ہیں، بلکہ ان کے جذبات، فکر اور فن کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں کھانے پینے کا زیادہ شوق نہیں، مگر ان کے خیالات میں اتنا ذائقہ، اتنی شیرینی اور اتنی خوبصورتی ہے کہ سننے والا لمحہ بھر کے لیے دنیا کو بھول جائے۔ ان کی پسندیدہ رنگ "کالا” ہے، جو اس بات کا عکاس ہے کہ وہ سادگی، گہرائی اور سنجیدگی کو اہمیت دیتی ہیں۔

آرزو خان کی باتوں اور کاموں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ محض فنکارہ ہے، وہ ایک مکمل سوچ، ایک پیغام، اور ایک عزم ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کو دوسروں کی خدمت، اصلاحِ معاشرہ اور فکری روشنی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ایسے افراد معاشرے میں کم کم پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہوتے ہیں تو ان کے وجود سے پورا ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ آرزو خان آفریدی کی موجودگی ایک مثبت تبدیلی کا پیغام ہے، ایک امید ہے کہ ہنر، سچائی اور لگن کے ساتھ ہر خواب حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔

پشتو ادب میں خواتین کی نمائندگی ایک طویل عرصے سے محدود رہی ہے، لیکن آرزو خان آفریدی جیسی باہمت شخصیات نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان کوئی بھی ہو، جنس کوئی بھی ہو، اگر آپ کے الفاظ میں خلوص ہے، اگر آپ کے فن میں صداقت ہے، تو دنیا آپ کی بات ضرور سنے گی۔ آرزو خان آفریدی کا فن ایک ایسی صدا ہے جو خاموش لبوں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

آرزو خان آفریدی کی زندگی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ اگر نیت صاف ہو، ارادہ مضبوط ہو اور دل میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہو تو کوئی بھی راستہ دشوار نہیں۔ وہ نہ صرف ایک باہمت لڑکی کی مثال ہیں وہ ایک مکمل شخصیت کا نمونہ بھی۔ وہ خود روشنی بنیں اور دوسروں کو بھی چراغ دینے لگیں۔ ان کا پیغام، ان کا فن، اور ان کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

آرزو خان آفریدی کا یہ کہنا دل کو چھو جاتا ہے: خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔ یہ نہ ایک سادہ جملہ ہے یہ تو زندگی گزارنے کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ ایسی شخصیات قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہیں، جو نہ صرف اپنے فن سے، اپنے کردار سے بھی معاشرے کو سنوارتی ہیں۔ آرزو خان آفریدی آج صرف ایک شاعرہ یا مصورہ ہے، بلکہ وہ اب ایک تحریک ہیں امید کی تحریک، روشنی کی تحریک، اور محبت کی تحریک۔

ان کی کامیابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے اردگرد کے لوگوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا، ان کی ہمت بندھائی۔ اور یہی معاشرتی رویے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر کسی ہنر مند، باصلاحیت اور باعزم انسان کو سپورٹ دیا جائے تو وہ معاشرے کے لیے کتنی بڑی روشنی بن سکتا ہے۔ آرزو خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ہمیں دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھنا چاہیے، اور یہی وہ پیغام ہے جو آج کے انتشار زدہ ماحول میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ان کا نظریہ زندگی امن، محبت، خدمت اور خوشیوں کی تقسیم ہے۔ ان کا وجود نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ لائقِ تقلید بھی۔

آرزو خان آفریدی کی حساس طبیعت، گہرا مشاہدہ، نرم مزاجی، اور فن سے محبت ان کو اس دور کی ممتاز اور ممتاز ترین خواتین میں شامل کرتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں صرف لفظوں کی ترتیب ہے بلکہ زندگی کے تجربات، خوابوں کی بازگشت، دل کی دھڑکنیں، روح کی پکار اور معاشرے کی امیدیں چھپی ہوئی ہیں۔ وہ ایک مکمل فنکارہ بھی ہیں اور ایک مکمل انسان بھی۔

آرزو خان آفریدی کی زندگی اور فن درحقیقت ایک دعوتِ فکر ہے اور ایک نرم و گہری صدا ہے جو ہر اس دل کو سنائی دیتی ہے جو کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ وہ ایک روایت ہے وہ تو ایک تحریک ہیں، ایک ایسا مثالی کردار، جو لفظوں، رنگوں، سوچ اور جذبوں کے امتزاج سے نہ صرف اپنے آپ کو روشن رکھتی ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی امید کے چراغ جلاتی ہیں۔ وہ ان خواتین میں سے ہیں جو خواب صرف دیکھتی ہی نہیں بلکہ وہ ان کو پورا کرنے کا عزم، حوصلہ اور پائیدار نیت بھی رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری ہو یا مصوری، ان کا انداز ہو یا افکار، ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تعمیری سوچ کا غماز ہے۔ وہ ان گنت لڑکیوں کے لیے امید کی وہ کرن ہیں جو اندھیروں میں زندگی کی روشنی بن کر چمکتی ہے۔ وہ ہر اس انسان کے لیے مثال ہیں جو خود سے سوال کرتا ہے کہ "کیا میں کچھ کر سکتا ہوں؟ آرزو خان آفریدی کا وجود اس سوال کا جیتا جاگتا جواب ہے۔ آرزو خان آفریدی کی جدوجہد، ہمت اور خلوص اس بات کی روشن مثال ہیں کہ کیسے فرد کی محنت اور جذبہ معاشرتی ترقی اور تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے