29 ستمبر کو آزاد کشمیر میں شروع ہونے والے احتجاج نے دنیا بھر کہ میڈیا میں جگہ بنائی اور دیکھایا کہ شاید بڑے بڑے مہذب ملکوں میں بھی عوام اپنے حقوق کی خاطر اس طرح سے جمع ہو کر احتجاج نہیں کرسکے۔
حالیہ عشروں میں جب عوامی احتجاج اکثر کسی ایک شخصیت کہ گرد گھوم رہا ہوتا ہے،مگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے وہ کر دیکھایا جو شاید بڑے بڑے ملکوں ریاستوں میں بھی ایسے منظم طریقے سے نہ ہوا ہو۔جیسے ڈویژن ضلع شہر کونسل اور پھر وارڈ سطح تک کو باشعور کرنا اکٹھا کرنا ،اپنے مقاصد کیلئے یک زبان ہونا ، بند مطلب کر کہ دیکھانا اور شاید یہی وجہ ہے کہ پھر کامیابی بھی ملی ۔ قطعہ نظر دوران احتجاج کچھ شہادتیں ہوئیں، ایک شخص کی جان پوری انسانیت کی جان ہے۔ ان شہادتوں کی وجہ بھی حکومت آزاد کشمیر ہے، جس نے بروقت مسائل کوسیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے احتجاج کوسیاسی طور پر حل کرنے کہ بجائے ریاستی طاقت کروڑوں روپے کے جلسے کروانے، سیکورٹی پولیس و ایف سی پر خرچ کرنے ،پاکستانی میڈیا کو دینے، احتجاج کو بھارتی ایجنٹ ایجنڈے کا نام دینےکہ باوجود مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر حل ہوئے مگر اتنے سب ہونے کہ بعد یہی ہوا کہ حکومت آزاد کشمیر یعنی حکمرانوں کی مذاکرات کہ دوران حیثیت بس فیصلہ ماننے کی تھی نہ کہ بولنے کی یاکچھ کہنے کی۔
عام عوام نے حکمرانوں کو سامنے لاکھڑا کر دیا اپنی بنی بنائی ٹھو ٹھا حکمرانوں کی ایسے گئی کہ جیسے کبھی ہوئی ہی نہ ہو یہی وہ تبدیلی ہے جو شاید آنے والے وقت کی خبر دے رہی ہے کہ اب شاید لالہ پاپا چوہدری صاحب راجہ صاحب سردار صاحب نہیں چلنے والا کام کریں گے تو بات بنے گی جس مقصد کے لئے ووٹ لے کر اسمبلی جاتے ہیں اگر وہ مقاصد پورے کریں گے تو ہی اسمبلی میں رہ سکیں گے وگرنہ کہیں کہ نہیں کیونکہ باشعور قوم پر حکمرانی کرنا نہیں بلکہ نوکری کرنا ہوگا۔ اب جو شاید فل وقت ان حکمرانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔
بیشمار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہیں جیسا کہ ای سی ایل میں نام سرکاری پرچے اور اسی طرح کہ کئی اور ہتھکنڈے مگر اب گئی عزت اور خراب کرنے کہ علاوہ کچھ نہیں ہونا تو بہتر یہی ہے کہ جمہوری اندازوں کے مطابق سیاست کرو نہ کہ ڈکٹیٹرز بننے کی پھر سے کوششیں کرو۔
اب بات کرتے ہیں کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی باری اب کیا ہونی چاہیے جس سے یہ باور ہوسکے کہ واقع یہ لوگ معاشرے میں عدل انصاف کہ خواہاں ہیں ۔جیسا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی دراصل تاجر برادری نے ہی شروع کی تھی اور اس کہ بہت سے نمائندے تاجر دکاندار ہی ہیں ان کی کیا زمہ داری ہے کیا وہ اپنی زمہ داریاں اپنی دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین کو حکومت کی جانب سے جو کم سے کم اجرت ہے وہ دے رہے ہیں، کیا ان کے دوران ملازمت کوئی بیماری کی چھٹیوں کی تنخواہیں یا پھر کوئی انشورنس وغیرہ وہ تمام حقوق جو لیبر کہ ہوتے ہیں وہ دے رہے ہیں ۔کچھ بھی کیا اپنے ملازمین کہ ساتھ برتاؤ ایسا ہے جو حکومت سے مانگا جا رہا ہے ۔کیا اشیاء خرد و نوش میں ایک بازار میں ایک ہی طرح کی چیزوں کے ریٹ ایک طرح کے ہیں کہ نہیں ؟ کیا کتابوں کاپیوں کا کاروبار کرنے والے غریب و غریب طالب علموں کو لوٹتے نہیں ہیں ،دس کی کاپی سو کی نہیں بیچتے ۔۔۔کیا کاروباری حضرات دور جدید کہ تقاضوں کہ مطابق کمپیوٹرائزڈ بل کا نظام رکھا ہے کہ نہیں جس سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار مل سکے کیا تاجر اپنے کاروبار رجسٹرڈ کرواتے ہیں کہ نہیں ریاست کی آمدنی بڑھانے کہ لئے آیا کتنا ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں۔کیا دکانوں کہ سامنے تجاوزات تو نہیں کیے ہوئے جس سے سڑک گلی تنگ ہوئی ہو کیا بلدیہ کیساتھ مل کر بازار کی صفائی ستھرائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کہ نہیں۔اگر ایسا کچھ نہیں کر رہے تو اپنی بنی ہوئی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے فوری طور پر شروعات کرنی چاہئے اس سے پہلے کہ ایسا کوئی احتجاج عوام کا آپ کیخلاف ہو جائے اور پھر اسی طرح عوام کی عدالت میں آپ لوگ کھڑے ہوں یا پھر حکومت اپنا غصہ نکالنے کہ لئیے آپ لوگوں کو بھی اپنی زمہداریاں دیکھانا بتانا شروع کردے کیونکہ حکومت اور حکومتی ادارے سخت نالاں ہیں غصّے میں ہیں کیونکہ ان کے ناک میں نکیل جو ڈلی ہے اب وہ کیا کرتے ہیں اس سے پہلے اپنا محاسبہ کر کہ اپنے معاملات اگر درست نہیں ہیں تو براہ کرم درست کر لیجئیے۔یہ نہ ہو کہ کہیں دیر ہوجائے ۔۔۔