خواتین کا ذاتی کاروبار: آج کی دنیا میں ایک بدلی ہوئی سوچ کی ضرورت ہے

پاکستانی معاشرے میں خواتین کی معاشی خودمختاری ایک ایسا خواب ہے جسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں انقلاب درکار ہے۔ شہروں میں خواتین مختلف شعبوں میں ملازمت کر رہی ہیں، مگر کاروبار کی طرف ان کی رغبت قدرے کم ہے۔ مواقع کی کمی نہیں ہر طرف ایسے پلیٹ فارم موجود ہیں جہاں خواتین اپنا ہنر، صلاحیت اور جذبہ بروئے کار لا کر کاروباری دنیا میں اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔ ایک پرانی اور جامد سوچ ان کے قدم روک رہی ہے، وہ سوچ کہ کاروباری دنیا مردوں کا مخصوص علاقہ ہے، خواتین کی ترقی کو محدود کرتی ہے معاشی آزادی کی راہ کاروباری کوششوں سے ہو کر گزرتی ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔

بہت سی خواتین کچھ نیا کرنے کا عزم رکھتی ہیں، اپنی پہچان بنانا چاہتی ہیں، مگر جیسے ہی یہ ارادہ ظاہر ہوتا ہے، روایتی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں۔ انہیں باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی دنیا گھریلو دائرے تک محدود ہے۔ وہ خواب ضرور بناتی ہیں، مگر انہیں حقیقت کا رنگ دینے کے لیے ضروری حوصلے سے اکثر محروم رہتی ہیں۔ عورت صرف ایک بیٹی، بہن یا شریکِ حیات نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان ہے، خواب دیکھنے اور تعبیر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ جب تک مواقع مساوی نہیں بنائے جائیں گے، ترقی کا سفر مکمل نہیں ہوگا۔

کاروباری راہ اختیار کرنا ہر فرد کے لیے چیلنج ہوتا ہے، مگر عورت کے لیے یہ سفر کئی مشکلات سے بھرا ہوتا ہے۔ بعض لوگ اسے غیر سنجیدہ یا خیال پرست سمجھتے ہیں، اس کے جذبے کو کم تر قرار دیتے ہیں۔ ایسے ردعمل اعتماد کو زک پہنچاتے ہیں، اور قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بہت سی خواتین ہنرمند ہیں، مگر اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ان ہنر کو کس طرح کاروباری مواقع میں تبدیل کیا جائے۔ اگر حکومتی اور نجی سطح پر رہنمائی، تربیت اور مالی معاونت ایمانداری سے فراہم کی جائے، تو وہ نہ صرف کامیاب ہوں گی بلکہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں۔ ایک باشعور اور پراعتماد عورت معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے سماج کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

ہماری معاشرت میں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ خواتین میں کاروباری لگن کم نہیں۔ افشاں خان پشاور کی مثال ہیں، جنہوں نے استاد ہونے کے بعد گھر سے پیکجنگ کا کاروبار شروع کیا۔ اپنی جمع پونجی اور زیورات بیچ کر ایک ذمہ دار تجارتی یونٹ قائم کی، جہاں دیگر خواتین کو روزگار ملا۔ خاندان کا تعاون ان کا سہارا بنا، مگر اصل محنت اور جدوجہد انہوں نے خود کی۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے فخر سے کہیں کہ ان کی ماں ایک کامیاب کاروباری خاتون ہے۔ ان کی کہانی بتاتی ہے کہ محنت، عزم اور استقامت ہر حد عبور کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔

تعلیم کا شعبہ خواتین کو کاروباری دائرے میں لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں آج بھی ڈگریوں پر سارہ زور صرف ہو رہا ہے، مگر کاروبار کی تربیت، مالیاتی سمجھ بوجھ اور عملی منصوبہ بندی پر کوئی خاص توجہ نہیں۔ بچیوں کو ابتدائی عمر سے یہ سبق دینا ضروری ہے کہ وہ ملازمت کی خواہش کے ساتھ ساتھ خود مختار کاروباری سوچ بھی تشکیل دیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں ایسے پروگرام متعارف ہونے چاہئیں جن سے وہ کاروباری ماڈل، مارکیٹنگ اور کاروباری سوچ سے روشناس ہوں۔ کامیاب خواتین کی کہانیاں نصاب اور سیشنز میں شامل ہوں تاکہ یہ احساس پروان چڑھے کہ عورت صرف ملازمت کی محتاج نہیں، بلکہ اپنے کاروباری وجود کی مالک بھی ہے۔

اسلام آباد کی سبیکہ کی مثال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح گھر کے ہنر کو جدید انداز میں پیش کر کے معاشی طور پر ایک خاص مقام حاصل کیا۔ سبیکہ نے گھریلو کھانوں کے ہنر کو بیکری کا روپ دیا، روایتی میٹھائیاں اور جدید کیک و پیسٹریز بنائیں۔ وہ اپنی نو سالہ بیٹی کو بھی اس کام میں شامل کرتی ہیں تاکہ ہنر منتقل ہو اور خاندانی اثاثہ زندگی میں زندہ رہے۔ شادی اور ماتحت ذمہ داریوں کے باوجود اپنا جذبہ مرجھانے نہ دیا، جدت اور لگاؤ کے ساتھ کام آگے بڑھایا۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ نسلِ نو بھی یہ وراثت فخر سے آگے بڑھائے۔

کاروبار دولت کمانے کا ذریعہ تو ہے، مگر اس سے بڑھ کر یہ مردوں اور عورتوں کی شخصیت نکھارتا ہے، اس سے اعتماد مستحکم ہوتا ہے، مقام و شناخت حاصل ہوتی ہے۔ جب عورت خود کماتی ہے، فیصلوں کا حصہ بنتی ہے، اپنی آواز پہنچاتی ہے۔ مگر یہ مقام حاصل کرنا آسان عمل نہیں۔ بعض مرتبہ گھر کے افراد کی شکایات اور اعتراض اسے گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف رہنے کا تقاضا پیش کرتے ہیں۔ یہ تاثر کہ عورت گھریلو دائرہ سے باہر کام نہیں کر سکتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ گھر والوں کو چاہیئے کہ خواتین کے خوابوں کو اہمیت دیں، ان پر بھروسہ کریں، اور یہ ثابت کریں کہ سماجی خوشحالی بھی اُن کی کامیابی سے وابستہ ہے۔

ادارے، بینک اور مالیاتی ادارے اس سفر میں اہم معاون بن سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں اکثر خواتین کو قرض یا سرمایہ حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، یا شرائط ایسی عائد ہوتی ہیں کہ وہ متاثر ہوتی ہیں۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے کاروبار نہیں چلا سکتیں، حالانکہ بہت سوں نے استحکام کے ساتھ بڑے کاروباری ادارے قائم کیے ہیں، ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ ریاست کے لیے لازم ہے کہ خواتین کے لیے مخصوص تربیتی سہولیات، آسان قرضے، مارکیٹنگ معاونت اور ڈیجیٹل بازار تک رسائی کے امکانات فراہم کرے۔ کاروبار کا آغاز مہیا کرنا کافی نہیں، بلکہ ایک ایسا مستحکم نظام درکار ہے جو ترقی کے تمام مراحل میں سپورٹ فراہم کرے۔

گھریلو معاونت کاروباری سفر کا ستون ہے۔ ماں، بھائی، شوہر یا والد کا حوصلہ افزا رویہ عورت کی ہمت اور استقامت کو فروغ دیتا ہے۔ بعض مرتبہ ایک مؤکد لفظ ‘ہم تمہارے ساتھ ہیں’ عورت کی سوچ بدل دیتا ہے، اس کے عزم کو مضبوط کرتا ہے۔ بدقسمتی سے بعض گھروں میں روایتی خیالات اس امید کو گھٹا دیتے ہیں کہ عورت گھر اور کاروبار کا توازن برقرار رکھ پائے گی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر عورت معاشی طور پر مستحکم ہو جائے تو پورا گھرانہ خوشحال ہوسکتا ہے، مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ یہ خیال کہ خواتین صرف ذاتی زندگی تک محدود ہیں بدلنا ہے تاکہ وہ خاندانی، سماجی اور اقتصادی محاذوں پر مؤثر کردار ادا کریں۔

تبدیلی کی رفتار بھلے سست ہو، مگر علامات واضح ہیں۔ شہری علاقوں میں خواتین بوتیکس، اسٹالز اور آن لائن کاروبار کے ذریعے جگہ بنا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں مواقع کم ملتے ہیں، مگر وہاں بھی اگر ہنر، تربیت، مالی مدد اور بازار تک رسائی سے منسلک ہوں، تو بڑے اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کڑھائی، سلائی، فوڈ مصنوعات اور دیگر روایتی ہنر دیہی خواتین کے لیے روشن امکانات ہیں۔ این جی اوز، سرکاری ادارے اور مقامی مراکز مل کر ایسے پروگرام تشکیل دیں کہ خواتین خود کفیل ہوں اور اپنی کمیونٹی کی ترقی میں شریک ہوں۔

تحفظ کی اہمیت اس پورے دائرے میں سب سے زیادہ قابلِ لحاظ امر ہے کہ کاروباری امور کے دوران عورت کو سلامتی کا احساس ہو۔ بازار جانا، سپلائرز سے لین دین کرنا یا صارفین سے ملاقات معمولی عمل نہیں ہوتا۔ ان کی سلامتی کے انتظامات ضروری ہیں جن پر پائدار عمل درآمد ہو۔ محفوظ بزنس زونز اور مخصوص بازار تیار کرنا، قابل اعتماد آن لائن پلیٹ فارمز کو فروغ دینا اِس وقت کا مطالبہ ہے۔ قانونی آگاهی فراہم کرنا ضروری ہے کہ عورت ہر ممکن زیادتی یا ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکے۔ جب خود کو محفوظ محسوس کرے گی، تو پورے عزم اور توانائی کے ساتھ کام کرے گی، اعتماد اور ولولہ برقرار رہے گا۔

میڈیا ایک قوت ہے جو سوچوں کی تشکیل میں بہت اہم ہے، کرداروں کو نئے معنی دینے اور معاشرتی رجحانات بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ موجودہ میڈیا مواد میں اکثر خواتین کو قربانی، جذباتیت یا روایتی کرداروں تک ہی محدود دکھایا جاتا ہے، جس سے روایتی سماجی تصورات مستحکم رہتے ہیں۔ تصویر بدلے گی اگر کامیاب کاروباری خواتین کی حقیقی کہانیاں عوامی سطح پر عام ہوں، جدوجہد اور کامیابی کی منازل دکھائی جائیں، تاکہ نوجوان لڑکیاں محسوس کریں کہ وہ بھی اپنا راستہ چن سکتی ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام پر تربیتی مواد، کامیابی کے بیانیے اور عملی رہنمائی عام ہوں گے تو یہ رجحان مضبوط ہوگا۔

یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ کاروباری عمل عورت کی ذاتی فتح سے بڑھ کر سماجی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ جب خواتین معاشی اعتبار سے مضبوط ہوں گی، غربت گھروں سے نکلے گی، بچوں کو بہتر مواقع ملیں گے، معاشرتی توازن قائم ہوگا۔ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر اس قابلیت کو مواقع سے جوڑا جائے تو ترقی سچے پیمانوں پر ممکن ہے۔ ہمیں بچپن سے اپنی لڑکیوں کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ صرف کچھ کرداروں کی محتاج نہیں، قوت اور رہبری کی حامل ہیں، اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے حق دار ہیں۔ یہ انقلاب منصوبہ سازوں کی سوچ سے شروع ہوگا، معاشرتی روایات سے متعارض تبدیلیاں لائے گا، اور یوں ہر سطح پر خواتین کے عزائم کو تقویت دے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے