انسانی فطرت کا ایک بنیادی پہلو "خواہش” ہے۔انسان کچھ نہ کچھ چاہتا ہے، کبھی دولت، کبھی عزت، کبھی محبت، کبھی طاقت۔ مگر جوں جوں انسان ان چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے، وہ خود کو ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں پاتا ہے، جہاں سکون، اطمینان اور آزادی محض خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ فلسفہ اور روحانیت کی دنیا میں صدیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا انسان اس دوڑ سے نکل سکتا ہے؟ کیا وہ ایسی زندگی گزار سکتا ہے جس میں وہ خواہشات کے غلام نہ ہو؟ بہت سے فلسفیوں کا ماننا ہے کہ خواہشات کو مکمل طور پر ختم کرنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن ان کے اثر سے آزاد ہونا ضرور ممکن ہے — اور یہی اصل آزادی ہے۔
یونانی فلسفی دیوگنیز آف سینوپ (Diogenes of Sinope) کی زندگی اس نظریے کی زندہ مثال ہے۔ وہ Cynic فلسفے کے بانیوں میں سے تھے، اور ان کا ماننا تھا کہ سادگی، خود کفالت، اور خواہشات سے بے نیازی ہی انسان کی حقیقی خوشی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے تمام سماجی روایات، دولت، عزت اور طاقت کو رد کر دیا۔ وہ ایک مٹی کے گھڑے میں رہتے تھے اور ان کی ضروریات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ایک بار سکندر اعظم ان سے ملنے آیا اور کہا کہ "جو مانگو گے، دوں گا”، تو دیوگنیز نے صرف اتنا کہا: "سورج کی روشنی میرے اوپر پڑنے دو، ذرا ہٹ جاؤ۔” یہ جملہ اس بات کی علامت تھا کہ ایک ایسا انسان جسے دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں، وہی اصل میں سب سے زیادہ طاقتور اور آزاد ہے۔
مگر کیا ہر انسان دیوگنیز جیسی زندگی گزار سکتا ہے؟ شاید نہیں۔ اور خود دیوگنیز نے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خواہشات کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ان کا پیغام یہ تھا کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کریں۔ ہمیں اپنی زندگی سے غیر ضروری خواہشات کو کم سے کم کرنا ہے تاکہ ہم ان کے غلام نہ بنیں۔ اسی بات کو بدھ مت میں "تَشناگی” (Tanha) کہا گیا ہے — جو تمام دکھوں کی جڑ ہے۔ گوتم بدھ نے بھی یہی تعلیم دی کہ خواہشات کو مکمل ترک نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان سے غیر وابستگی (non-attachment) پیدا کی جا سکتی ہے، جس سے انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے۔
سقراط بھی کچھ ایسی ہی سوچ رکھتے تھے۔ ان کے مطابق ایک "جانچا گیا” (examined) وجود ہی جینے کے قابل ہوتا ہے، اور ایسا وجود صرف تب ممکن ہے جب ہم خود سے سوال کریں کہ ہم جو چاہتے ہیں، وہ کیوں چاہتے ہیں؟ کیا ہم اپنی خواہشات کے مالک ہیں یا غلام؟ سقراط نے ہمیشہ اندرونی سچائی، اخلاقی اصولوں، اور خود آگہی کو ظاہری دنیا سے زیادہ اہمیت دی۔
رومی (مولانا جلال الدین رومی) نے بھی اس بات کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا:
"خواہش کی آگ میں جلتے رہو گے تو کبھی خود کو نہ پا سکو گے، خود کو پانا ہے تو اس آگ سے باہر آنا ہوگا۔”
رومی کا ماننا تھا کہ انسان کی اصل شناخت اس کے اندر ہے، اور جب تک ہم باہر کی چیزوں میں خوشی ڈھونڈتے رہیں گے، ہم اندرونی سکون سے دور رہیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ خواہشات زندگی کا حصہ ہیں۔ ہمیں کھانے کی، سونے کی، محبت کی اور سماجی رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سے مکمل انکار ممکن نہیں۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ خواہشات حد سے بڑھ جاتی ہیں اور ہمیں کنٹرول کرنے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص بس اپنی بنیادی ضرورت کے لیے کماتا ہے تو وہ آزاد ہے، لیکن اگر وہ ہر وقت دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگا رہے، تو وہ اس دوڑ کا غلام بن جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں، جہاں سوشل میڈیا، مارکیٹنگ اور سرمایہ داری ہر لمحے ہمیں نئی خواہشات کا غلام بناتی ہے، وہاں دیوگنیز، بدھ، سقراط اور رومی جیسے مفکرین کی باتیں اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ کامیابی کا مطلب زیادہ چیزیں حاصل کرنا ہے، مگر یہ فلسفی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کامیابی کا مطلب خود پر قابو پانا، سادگی اپنانا، اور اندر سے مطمئن ہونا ہے۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ خواہشات کو مکمل مٹانا شاید ناممکن ہو، لیکن انہیں سمجھ کر، ان پر قابو پا کر، اور ان کی نوعیت کو جان کر ہم ضرور ان کے اثر سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ آزادی ہے جو انسان کو نہ صرف ذہنی سکون دیتی ہے، بلکہ اسے اپنی زندگی کا حقیقی مالک بھی بناتی ہے۔