چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں ایک اہم اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا، جس میں مسلم ممالک کے رہنماؤں نے غزہ میں جاری جنگ اور وہاں کے انسانی بحران پر تفصیلی غور کیا۔ اس اجلاس میں پاکستان، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، اردن، مصر اور انڈونیشیا کے اعلیٰ نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور مستقبل میں ایک جامع امن منصوبے کی تشکیل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر صدر ٹرمپ نے اپنا 20 نکاتی امن ایجنڈا پیش کیا، جسے مسلم ممالک کے نمائندوں نے غور سے سنا اور بعض نکات پر اپنی تجاویز بھی دیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوغان نے اسے “ایک مثبت پیش رفت” قرار دیا، جب کہ نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ مسلم ممالک نے امن کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تجویز کیا ہے جو فلسطینی عوام کے دیرپا مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ اجلاس بلاشبہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی نئی امید بن کر ابھرا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بعد ازاں نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران وہ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ ” غزہ ایک غیر انتہاپسند زون بنے گا جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہیں ہوگا۔ غزہ کی دوبارہ تعمیر اور معاشی ترقی اس کی عوام کے فائدے کے لیے کی جائے گی۔ اگر دونوں فریق (اسرائیل اور حماس) اس تجویز پر متفق ہوں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی.
اسرائیلی افواج ایک متفقہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی اور ہاسٹیجز کے تبادلے کی تیاری ہوگی۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی عوامی منظوری کے 72 گھنٹوں کے اندر زندہ اور مردہ دونوں ہاسٹیجز واپس کیے جائیں گے۔ ہاسٹیجز کی واپسی کے بعد اسرائیل بعض بڑے مدت کے قیدیوں کو رہا کرے گا (ذرائع کے مطابق مخصوص تعداد/شرائط کا تذکرہ کیا گیا ہے)۔
غزہ کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ایک ٹرمپ اقتصادی منصوبہ یا ماہرین پر مشتمل پینل بنایا جائے گا تاکہ سرمایہ کاری اور روزگار پیدا کیا جا سکے۔ ایک خصوصی اقتصادی زون/تفضیلی تجارتی اہلیت قائم کی جائے گی جس کے تحت مراعات اور آسانیاں فراہم ہوں گی۔ کسی کو غزہ سے زبردستی نہیں نکالا جائے گا؛ جو چاہے چھوڑ کر جا سکتا ہے اور واپسی کی آزادی بھی ہوگی، حماس اور دیگر گروپ غزہ کی حکومت میں براہِ راست یا بالواسطہ کوئی کردار نہیں رکھیں گے۔
غزہ کی عسکری ساخت، بشمول سرنگیں اور ہتھیار سازی کے ذرائع، تباہ کیے جائیں گے اور دوبارہ تعمیر نہ ہونے دیا جائے گا، اس عمل کی بین الاقوامی مانیٹرنگ ہوگی۔
علاقائی شراکت دار (عرب ممالک وغیرہ) اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس یا فریقین اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہ کریں۔ بحرانی دور میں ایک عارضی بین الاقوامی استحکامی فورس (ISF) تشکیل دی جائے گی جو اندرونی سیکورٹی فورسز کو تربیت دے گی اور قانون نافذ کرے گی؛ اس میں علاقائی ممالک کا مشورہ/شمولیت متوقع ہے۔ ایک نئی غزہ انتظامیہ/ٹرانزشنل بورڈ قائم کیا جائے گا، جس میں ماہرین اور غزہ کے مقامی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل، بعض بین الاقوامی شخصیات کی قیادت یا نگرانی کے تحت۔ اس عارضی انتظامیہ کے تحت شفاف انتخابات، نصاب کی اصلاح، اور اداروں کی بحالی کے لیے عملی اقدامات طے کیے جائیں گے۔
بین الاقوامی نگران اور نگرانی کے طریقہ کار ہوں گے،انسانی ضرورتوں کے لیے فوری امداد، طبی اور بنیادی خدمات کی رسائی کو یقینی بنایا جائے گا؛ امداد اور بحالی کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا۔ غزہ کے عوام کو روزگار، تعلیم، اور بنیادی انفراسٹرکچر کی فراہمی کے ذریعے یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ ایک پرامن اور معاشی طور پر فعال معاشرہ بنیں۔
امن کی کامیابی کے لیے علاقے میں نارملائزیشن کو فروغ دینے کی کوششیں (عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان) کو وسعت دی جائے گی۔ عمل درآمد کی خلاف ورزی پر واضح سزاؤں/ردعمل کا تعین، جو بھی امن معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا اس کے ساتھ منطقی عالمی اور علاقائی اقدامات ہوں گے۔ طویل مدتی حل کے لیے مستقبل میں مشروط خودمختاری/انتظامی تسلسل، ممکنہ طور پر بعد از جنگ انتخابات اور مقامی کنٹرول کی جانب راہ لیکن پہلے سلامتی اور استحکام کو مقدم رکھا جائے گا۔ اس منصوبے کے تین بنیادی ستون واضح ہیں، جس میں سیکیورٹی اور ڈیمیلٹرائزیشن، حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنا دوسرا ایمرجنسی انسانی امداد اور اقتصادی ری کنسٹرکشن، فوری طبی امداد، بنیادی خدمات کی بحالی اور خصوصی اقتصادی زونز جںکہ تیسرا حماس کی جگہ عبوری انتظامیہ اور سیاسی عمل، ایک عبوری ٹیکنوکریٹ حکومت/بورڈ کے ذریعے اداروں کی بحالی، نصاب کی اصلاح، اور مستقبل میں شفاف انتخابات کی راہ تیار Chat۔
منصوبے میں ہاسٹیجز کی واپسی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، اور اگر دونوں فریق متفق ہوں تو جنگ فوراً رکے گی اور 72 گھنٹوں کے اندر ہاسٹیجز واپس کیے جانے کی بات کی گئی ہے۔
اس منصوبے کے اعلان سے پہلے ہی پاکستان نے اس کی حمایت کا اعلان کیا، ان نکات کے سامنے آنے کے بعد پاکستان اور دیگر مسلم ممالک نے کہا کہ جو نکات ہمارے سامنے پیش کیے گئے تھے ان میں تبدیلی کی گئی ہے، جںکہ دیگر اقوام عالم میں اس منصوبے کی پذیرائی اور مخالفت بھی سامنے آئی۔ چند گھنٹوں بعد حماس نے بھی ان نکات میں مناسب تبدیلی کے ساتھ اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا، ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے 20 نکات کے جواب میں حماس نے 6 مطالبات پیش کیے، پہلا مطالبہ غزہ میں مستقل اور جامع جنگ بندی، دوسرے مطالبے میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء تیسرے مطالبے میں غزہ میں انسانی اور امدادی سامان کی بلا رکاوٹ رسائی چوتھا مطالبہ غزہ سے نکالے گئے بے گھر فلسطینیوں کی باحفاظت واپسی پانچواں مطالبہ غزہ کے ماہرین کی نگرانی میں غزہ کی تعمیرِ نو جبکہ چھٹے مطالبے میں حماس کا کہنا ہے کہ قیدیوں کا منصفانہ تبادلہ ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مصر میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔
دریں اثناء پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے کہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے خونریزی کو روکا جائے، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور دیرپا امن کیلئے ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے، اسرائیل کو فوری طور پر حملے بند کرنے چاہئیں۔ جمعرات کے روز صبح حماس اور اسرائیل میں سیز فائر معاہدہ طے پا گیا۔ حماس ہفتے یا اتوار کو 20 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں 1700 بے گناہ فلسطینی قیدی بدنام زمانہ اسرائیلی جیلوں سے آزاد ہوں گے جن میں 250 عمر قید یافتہ قیدی بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیل غزہ سے انخلا کرے گا۔ امریکا، قطر، ترکی اور مصر ڈیل کے گارنٹر ہیں البتہ رپورٹس یہ بھی ہیں کہ اسرائیل نے سیز فائر کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔
ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے اور سیز فائر پر دنیا بھر میں بحث جاری ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے جس کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اور یہ ریاست کسی بھی عالمی یقین دہانی یا گارنٹی کے باوجود اپنی جارحیت سے باز نہیں آتی۔ حال ہی میں گلوبل صمود فلوٹیلا کے پُرامن قافلے پر اسرائیلی فورسز نے حملہ کر کے چالیس سے زائد کشتیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ان میں موجود درجنوں رضاکاروں کو ملک بدر کر دیا۔ یہ کشتیاں ایک بیڑے کی شکل میں غزہ کے محصور بچوں اور معصوم عوام تک خوراک اور امداد پہنچانے جا رہی تھیں۔ یہ افسوسناک واقعہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اسرائیل کے لیے انسانی ہمدردی کی کوئی قدر باقی نہیں رہی۔ بے شک امن کے منصوبے بنتے رہیں، مگر جب تک اسلام کے اصولوں کے مطابق انصاف قائم نہیں ہو جاتا، تب تک مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔