"مجھے محبت سے ڈر لگتا ہے” — یہ اُس کتاب کا عنوان تھا جو میں نے پچیس برس کی عمر میں شائع کی۔ اس کتاب میں میری نوعمری کے زمانے کی شاعری، نثری نظموں پر مشتمل ایک مجموعے کی صورت میں پیش کی گئی تھی۔ نثری نظم ہمیشہ سے ایک متنازع صنف رہی ہے؛ شاید ویسے ہی جیسے میرا وجود اور میرا پس منظر اس معاشرے میں ہمیشہ ایک پیچیدہ سوال بنا رہا۔
اس کتاب کے بعد میری شاعری وقتاً فوقتاً مختلف ادبی رسائل، جن میں صریر اور تسطیر جیسے معروف جریدے شامل ہیں، میں شائع ہوتی رہی۔ میں نے ہمیشہ ادب سے محبت کی، مگر خود کو ادیبوں سے ایک فاصلے پر رکھا۔
یہ فاصلہ کسی تلخی یا غرور کا نہیں تھا — بلکہ اس پس منظر اور ان تجربات کا نتیجہ ہے جن کا بوجھ اور حقیقت اکثر ادبی حلقوں میں جگہ نہیں پاتے۔ میری زندگی کے کئی ابواب ادبی محفلوں کے مرکز میں نہیں بلکہ حاشیے پر وقوع پذیر ہوئے، شاید اسی لیے میں ادب کو دور سے دیکھتی ہوں، مگر اس سے ناتا ٹوٹتا کبھی نہیں۔ پھر میں نے شاعری شائع کرنا چھوڑ دیا۔ اب بھی کبھی کبھار لکھتی ہوں، مگر میں نے جانا کہ دکھ صرف ذاتی نہیں ہوتے — وہ سرحدیں پار کرتے ہیں۔ میرے لفظ جہاں ختم ہوتے ہیں، وہاں فلسطین جیسی کہانیاں شروع ہوتی ہیں۔ آج جب پوری دنیا جنگ بندی کی خبر سن رہی ہے، میں سوچتی ہوں: کیا یہ واقعی جنگ تھی؟
آج میں یہ بات اس لیے آپ سے شیئر کر رہی ہوں کہ دنیا بھر میں اس وقت سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔
میں سوچتی ہوں — کیا یہ واقعی جنگ تھی؟
کیا یکطرفہ بربادی اور تباہی بھی جنگ کہلاتی ہے؟
میں نے یکطرفہ محبت کو دیکھا ہے — ہم بہاریوں کی یکطرفہ محبت پاکستان کے ساتھ۔
آج، جب فلسطین میں "جنگ بندی” کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی ہے، میرے اندر ایک سوال گونجتا ہے:
کیا ڈرونز کی گونج ختم ہونے سے نسل کشی بھی ختم ہو گئی؟
کیا امن واقعی لوٹ آتا ہے؟
امن ہے کیا؟ بم، بارود، بربادی کی نظر آنے والی تصویر کا غائب ہو جانا یا ان تصورات کا ملیامیٹ ہو جانا؟ آگاہی، احتساب اور انصاف کا موجود ہونا؟
اگر امن دراصل محبت ہی کا دوسرا نام ہے… تو پھر یہ محبت کس صورت میں واپس آئے گی اُن بچوں، یتیموں، اجڑے گھروں اور کٹی ہوئی زندگیوں کے لیے جو غزہ کی مٹی میں اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں؟
اور اُن لاپتا، اجڑے ہوئے پاکستانی بہاریوں کے لیے جو گزشتہ چوّن برسوں سے بنگلہ دیش کے گنجان، تاریک، اور تنگ و محدود اذیت خانوں "کیمپوں” میں پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کے "ناقابلِ معافی جرم” میں بے وطنیت کا عذاب جھیل رہے ہیں — کیا محبت اُن کے لیے بھی کبھی پلٹ کر آئے گی؟
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کے فوجی پاکستانی فوجی اداروں میں آ کر دوسرے دوست ممالک کی طرح تربیت بھی حاصل کرتے ہیں اور سول اشرافیہ بھی مل جل کر رہتی ہے، بزنس کرتی ہے۔ میرے قریبی دوست اور سخت دشمن ایک مشترکہ سوال کرتے ہیں (لہجہ مختلف ہوتا ہے — سجن سمجھانے کی اور بیری بجھانے کی کوشش کرتے ہیں) —- اکثر پوچھتے ہیں:
“کیا بہاری بہاری کی رٹ لگا رکھی ہے؟ یہاں اور بھی رولے ہیں — کیا یہ تمہاری ترجیح ہونی چاہیے؟”
اور میں سوچتی ہوں…
اگر ترجیحات میں انسان، اس کے زخم، اس کی یادیں، اس کا دکھ اور اس کا حق شامل نہیں — تو پھر ترجیحات ہیں ہی کیا؟
ہم یہ سمجھنے میں بہت دیر لگا بیٹھے کہ جنگیں ہمیشہ بندوقوں اور بموں سے نہیں ہارتیں — بہت سی جنگیں ترجیحات سے ہاری جاتی ہیں۔
مجھے فرانز کافکا کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ برلن کے ایک پارک میں ایک چھوٹی سی بچی اپنی گڑیا کھو کر بری طرح رو رہی تھی۔ کافکا وہاں سے گزر رہا تھا۔ وہ چاہتا تو ایک اجنبی کی طرح آگے بڑھ جاتا — جیسے ہم سب اکثر کرتے ہیں — مگر وہ رُک گیا۔ اُس نے بچی سے کہا: “تمہاری گڑیا کھوئی نہیں، بس سفر پر گئی ہے۔” اگلے دن وہ ایک خط لایا — جو اس نے گڑیا کے نام سے لکھا تھا۔ پھر کئی دن تک ہر خط میں گڑیا کی نئی مہم جوئیاں ہوتی رہیں — وہ دنیا گھوم رہی تھی، ہنس رہی تھی، روتی تھی، بدل رہی تھی۔
ایک دن کافکا ایک نئی گڑیا لے آیا۔ اس نے بچی سے کہا: “یہ وہی ہے، بس سفر نے اسے بدل دیا ہے۔” برسوں بعد جب وہ بچی جوان ہوئی، تو اسے اس گڑیا کے اندر ایک خط ملا۔ کافکا نے لکھا تھا:
“جس سے تم محبت کرتے ہو، وہ شاید کھو جائے… مگر محبت کسی نہ کسی صورت میں واپس آ جاتی ہے۔”
یہ کہانی میرے لیے محض ایک قصہ نہیں — ایک آئینہ ہے۔
کافکا نے دکھ کو ٹھکرا کر نہیں، ترجیح دے کر اس میں زندگی بھری۔ اور ہم؟ ہم نے ڈھاکہ کے کیمپوں میں سسکتی نسلوں کے لیے کوئی خط نہیں لکھا۔ ہم نے اپنی تاریخ کے زخموں کے لیے کوئی نیا تخیل تراشنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے اپنے ہی لوگوں کو ان کے دکھ سمیت اندھی گلیوں میں چھوڑ دیا — اور خود اگلے موڑ پر چلے گئے۔
امن تب بنتا ہے جب کوئی ایک شخص رُک کر کسی دوسرے کے زخم کو محسوس کرے۔
یہ کہانی صرف ایک بچی اور ایک گڑیا کی نہیں… یہ ہماری اجتماعی ترجیحات کا سوال ہے۔
لیکن… ہم نے بطور قوم اپنی کھوئی ہوئی “گڑیاؤں” کے خط کبھی نہیں لکھے — نہ مشرقی پاکستان کے المیے پر، نہ فلسطین پر، نہ کیمپوں میں سسکتی نسلوں پر۔ ہماری ترجیحات کہیں اور رہ گئیں — اور جو رہی سو بے خبری رہی۔
ہم نے محبت کو واپس آنے کا راستہ ہی نہیں دیا — اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ نفرتیں کیوں پھیلتی ہیں؟
مصنفہ کا تعارف
ڈاکٹر رخشندہ پروین مصنفہ، سماجی ترقیاتی ماہر اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انٹر سیکشنل فیمنسٹ ہیں۔ وہ پاکستان میں صنفی تشدد، صنفی و سماجی مساوات، امن سازی، اور مہاجر و بہاری شناخت جیسے حساس موضوعات پر کام کرنے والی چند گنی چنی نڈر آوازوں میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک رجحان ساز ٹی وی اینکر اور ایوارڈ یافتہ پروڈیوسر ہیں جنہوں نے 1999ء میں پاکستان کی پہلی صنفی امور پر مبنی دستاویزی سیریز تیار کی،اور "جینڈر” کے اردو مترادف "صنف” کو زبانِ عام میں متعارف کروایا۔ ان کی تحریریں اور وی لاگز پاکستان، بنگلہ دیش اور فلسطین میں انصاف، شناخت اور انسان دوستی کی گم شدہ قدروں کی گواہی دیتے ہیں۔
وہ اپنا تعارف یوں کرواتی ہیں: بے ثمر کاموں کی عادی، زندگی کی طالبہ، اور ایک بہادر عورت۔