"تاخیر سے یاد آنے والا احتجاج”

کہتے ہیں کہ جو مُکّا لڑائی کے بعد یاد آئے، وہ اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔ یہی مثال آج کے حالات میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر صادق آتی ہے۔ جب دنیا بھر میں غزہ کے حوالے سے نسبتاً سکون اور جنگ بندی کی خبریں آ رہی ہیں، جب فلسطین میں جنگ سے تباہ حال خاندان سکھ کا سانس لینے لگے ہیں، اُس وقت ٹی ایل پی کو احتجاج یاد آیا ہے۔

یہ احتجاج اُس وقت شروع ہوا ہے جب عالمی سطح پر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پا چکا ہے، سفارتی محاذ پر بات چیت جاری ہے، اور اسلامی ممالک میں یہ اُمید کی کرن جاگی ہے کہ شاید اب خون خرابہ کم ہو۔ مگر ٹی ایل پی نے اپنے مخصوص انداز میں سڑکوں پر نکل کر ایک بار پھر وہی پرانا طریقہ اختیار کیا ہے — جلوس، نعرے، تصادم، اور نظامِ زندگی مفلوج کرنا۔ سوال یہ ہے کہ جب فلسطینی اپنے شہداء کے جنازے پڑھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تب پاکستان میں یہ شور کیوں؟

ٹی ایل پی کی قیادت ماضی میں بھی ایسے مواقع پر اُٹھ کھڑی ہوتی ہے جب عالمی منظرنامہ کچھ اور سمت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ شاید مقصد کسی مخصوص مذہبی یا سیاسی بیانیے کو زندہ رکھنا ہو، مگر نتیجہ ہمیشہ وہی نکلتا ہے — عوام کی مشکلات، سڑکوں پر رکاوٹیں، اور ملک کے معاشی و سماجی نظام پر دباؤ۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ہر مسلمان کے دل کا درد ہے، اور ہر پاکستانی غزہ میں ہونے والے مظالم پر افسردہ ہے۔ مگر احتجاج کے بھی ایک وقت، انداز اور اثر کے تقاضے ہوتے ہیں۔ اگر ٹی ایل پی واقعی فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتی ہے تو انہیں اپنے احتجاج کو حکمت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے، سفارتی دباؤ بڑھانے، امدادی مہمات، یا اقوام متحدہ میں آواز اُٹھانے جیسے عملی اقدامات پر زور دینا چاہیے، نہ کہ سڑکوں پر تصادم سے اپنے ہی ملک کو مفلوج کرنا۔

یہ وقت احتجاج کا نہیں بلکہ یکجہتی اور دانش مندی کا ہے۔ جب حماس اور اسرائیل کے درمیان سیزفائر قائم ہو چکی ہے تو ٹی ایل پی کو چاہیے کہ وہ قوم کو انتشار نہیں، اتحاد کا پیغام دے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی انتشار سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایسے میں مذہبی جذبات کو سڑکوں پر لا کر جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کسی کے لیے فائدہ مند نہیں۔

ٹی ایل پی کو سمجھنا ہوگا کہ مذہبی جذبات کی آڑ میں سیاست کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب قوم دلیل، حکمت اور عمل کی سیاست چاہتی ہے۔ اگر مقصد واقعی امتِ مسلمہ کا دفاع ہے، تو اس کے لیے احتجاج سے زیادہ مؤثر راستے بھی موجود ہیں۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ غصے سے نہیں، عقل سے کام لیا جائے۔ ورنہ وہی بات پھر ثابت ہوگی ۔

جو مُکّا لڑائی کے بعد یاد آئے، وہ اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے