نومولود وزیر اعلیٰ اور کے پی کے

خیبرپختونخوا کی سیاست ایک بار پھر غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ صوبے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی بظاہر ایک معمولی سیاسی ردّ و بدل دکھائی دیتی ہے، مگر درحقیقت یہ تبدیلی تحریکِ انصاف کے اندرونی تضادات، قیادت کے ابہام اور طاقت کے نئے توازن کا مظہر ہے۔ علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹا کر ایک نسبتاً کم معروف اور نوجوان چہرے کو سامنے لانے کے فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

ہمیں تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ پہلے تو علی امین گنڈاپور کو وزیرِاعلیٰ کیوں بنایا گیا تھا؟ ایک شہد کے ایکسپرٹ کا وزیرِاعلیٰ کے طور پر کیا کام تھا؟ شاید خیال یہ تھا کہ شہد کی مکھیاں انتظامی تجربہ دے جائیں گی۔ اور اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اس نومولود بچے کو وزیرِاعلیٰ کیوں بنایا گیا ہے؟ کیا صوبے کے سارے تجربہ کار سیاستدان ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں جو نوبت یہاں تک آن پہنچی؟

یہ دونوں سوالات اس وقت کے سیاسی منظرنامے کی سمت متعین کرتے ہیں۔ گنڈاپور کو اُس وقت وزیرِاعلیٰ بنایا گیا جب تحریکِ انصاف کے لیے مرکز میں حکومت نہ ہونے کے باوجود صوبہ خیبرپختونخوا واحد مضبوط گڑھ تھا۔ خیال یہی تھا کہ وہ پارٹی کے سخت گیر حلقوں کی نمائندگی کریں گے، عمران خان کے بیانیے کو کھل کر آگے بڑھائیں گے، اور انتظامی فیصلوں میں کسی "مصالحانہ” رویے کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ مگر عملی طور پر گنڈاپور ایک محدود سوچ کے حامل، غیر لچکدار اور جارحانہ اندازِ سیاست کے علمبردار ثابت ہوئے۔ اُن کے بیانات، طرزِ گفتگو اور حکومتی فیصلے اکثر پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے۔ وہ مرکز اور اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بجائے ٹکراؤ کی راہ پر چلتے رہے — جیسے کسی نے انہیں خاص طور پر ٹکرانے کے لیے ہی بنایا ہو۔

دوسری جانب، پارٹی کے اندر ایک گروہ مسلسل اس بات پر زور دے رہا تھا کہ صوبے میں ایک نسبتاً نرم، مطیع اور لچکدار وزیرِاعلیٰ ہونا چاہیے جو مرکز کے ساتھ مفاہمت کے راستے نکال سکے۔ اسی تناظر میں اب ایک "نوجوان” کو سامنے لایا گیا ہے، جو پارٹی قیادت کے لیے زیادہ قابلِ بھروسہ، کم خطرناک اور زیادہ تابع فرمان سمجھا جا رہا ہے۔

مگر یہاں دوسرا سوال جنم لیتا ہے: آخر اس بچے کو وزیرِاعلیٰ کیوں بنایا گیا ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب صوبے کو مالی بحران، بدامنی، دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے، مہنگائی اور گورننس کے شدید مسائل کا سامنا ہے، ایک ناتجربہ کار، غیر معروف اور کمزور سیاسی قد کاٹھ رکھنے والے شخص کو صوبے کا سب سے بڑا عہدہ دینا کیا دانشمندانہ فیصلہ ہے؟ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو نصاب میں "سیاسی معجزات” کے عنوان سے ایک نیا باب شامل کرنا پڑے گا۔

اگر کہیں یہ خیال ہے کہ اس نئے وزیرِاعلیٰ کو محض ایک کٹھپتلی کے طور پر استعمال کیا جائے گا، اور اصل ڈور کہیں اور ہوگی، تو یاد رہے کہ بعض دفعہ کٹھپتلیاں اچانک ڈور کاٹ کر خود ہی حرکت شروع کر دیتی ہیں — اور پھر وہ نہ سنبھالی جاتی ہیں، نہ واپس کسی کے قابو میں آتی ہیں۔

خیبرپختونخوا کی عوام کو اس وقت ایک ایسے وزیرِاعلیٰ کی ضرورت تھی جو نہ صرف صوبے کے اندرونی معاملات کو سمجھتا ہو بلکہ مرکز کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو بھی متوازن رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر پارٹی کے اندرونی حساب کتاب نے اس اہلیت کے بجائے وفاداری اور "تابع داری” کو ترجیح دی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے تحریکِ انصاف کے اندر طاقت کی نئی لکیریں کھنچتی نظر آتی ہیں۔

گنڈاپور کا ہٹایا جانا محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ پارٹی کے طاقتور حلقوں کا پیغام ہے کہ اب فیصلے ایک شخص کے اختیار میں نہیں رہیں گے۔ عمران خان کے گرد جو نیا دائرہ تشکیل پا رہا ہے، وہ زیادہ کنٹرولڈ، زیادہ محتاط اور بظاہر "پالیسی فالو کرنے والا” حلقہ ہے۔ اس میں مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی جھلک زیادہ نمایاں ہے۔ یا یوں کہیے کہ اب "ڈنڈا پالیسی” کی جگہ "پالیسی فالو” نے لے لی ہے۔

تاہم، یہ حکمتِ عملی وقتی سکون تو دے سکتی ہے مگر طویل المدت استحکام کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ تحریکِ انصاف کے ووٹرز اب بھی گنڈاپور جیسے جارحانہ اور بیباک کرداروں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایک نرم لہجے والا، کمزور تاثر دینے والا وزیرِاعلیٰ شاید ان ووٹرز کے جذبات سے ہم آہنگ نہ ہو سکے۔ نتیجتاً پارٹی کے اندر مایوسی اور بددلی بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔

دوسری طرف، اگر نیا وزیرِاعلیٰ محض علامتی کردار ادا کرتا رہا اور اصل فیصلے پسِ پردہ قوتیں یا پارٹی کی مرکزی قیادت لیتی رہی، تو صوبے میں گورننس مزید کمزور ہو جائے گی۔ ایک ایسا صوبہ جہاں روزانہ سیکیورٹی کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں، وہاں سیاسی کمزوری اور تجربے کی کمی خطرناک نتائج لا سکتی ہے۔ مگر شاید فیصلے کرنے والوں کا ماننا ہے کہ "سیاسی تجربہ” بھی ایک غیر ضروری عیاشی ہے۔

یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خیبرپختونخوا کی سیاست ہمیشہ سے شخصیات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ادارہ جاتی تسلسل کا فقدان اس صوبے کا بڑا مسئلہ رہا ہے۔ گنڈاپور کے جانشین کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہوگا کہ وہ خود کو ایک مضبوط منتظم کے طور پر منوائیں، نہ کہ محض ایک نامزد شدہ نمائندے کے طور پر — ورنہ تاریخ میں اُن کا ذکر بھی "گنڈاپور فیز ٹو” کے نام سے ہی کیا جائے گا۔

تحریکِ انصاف اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے — ایک ایسا دور جہاں سیاسی حکمتِ عملی جذبات پر نہیں بلکہ مجبوریوں اور مصلحتوں پر قائم دکھائی دیتی ہے۔ مگر سوال اپنی جگہ برقرار ہے: اگر گنڈاپور کو وزیرِاعلیٰ بنانا غلط تھا تو یہ نیا تجربہ کس بنیاد پر درست سمجھا جا رہا ہے؟ یا شاید یہ سیاست کا وہی پرانا کھیل ہے جہاں چہرے بدلتے ہیں مگر فیصلہ کرنے والے ہاتھ وہی رہتے ہیں — بس اب کٹھپتلیاں تھوڑی فیشن ایبل ہو گئی ہیں۔

تحریکِ انصاف کی اپنی کہانی بھی کسی سبق سے کم نہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ہی مایوس کرتی رہی۔ نہ اس کے اندر ڈسپلن پیدا ہو سکا، نہ تنظیمی ڈھانچہ۔ اپوزیشن سے حکومت میں آئی تو اپوزیشن موڈ سے نکل نہ پائی۔

خان صاحب کو سیاست سمجھ نہ آئی — انہوں نے سیاست کو کرکٹ ٹیم بنانے کی کوشش کی۔ مگر سیاست جم نہ سکی، اور ادھر ملک میں کرکٹ کی ٹیم بھی تقریباً ختم ہی ہو گئی۔ اب لگتا ہے کہ سیاست اور کرکٹ، دونوں ہی نیٹ پریکٹس کے مرحلے میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے