ہم بچپن سے ہی بہادر لوگوں کی کہانیاں سنتے آئے ہیں ان لوگوں کی، جنہوں نے ہمیشہ مظلوموں کی مدد کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی، مگر کبھی اپنے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے۔
ہم اکثر سوچتے تھے کہ وہ لوگ کتنے عظیم ہوں گے کیونکہ آج کے دور میں جب ہر انسان کو اپنی جان عزیز ہے، تو کون ایسا ہوگا جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مظلوموں کی مدد کرے۔
میں بھی ہمیشہ یہی سوچتا رہا لیکن حال ہی میں ایک شخص نے میری یہ سوچ پوری طرح غلط ثابت کر دی۔ اس نے یہ دکھا دیا کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے۔
میں بات کر رہا ہوں سینیٹر مشتاق احمد خان کی، جن کا حالیہ غزہ کا سفر ایمان، عزم اور قربانی کی ایک زندہ داستان بن چکا ہے۔
اس سفر کی تفصیل پڑھنے کے بعد میں بالکل چپ ہوگیا گویا بولنے کی سکت کھو بیٹھا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کے عزم، حوصلے اور ہمت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
ان کا سفر پاکستان سے شروع ہوا جہاں سے وہ خفیہ راستے کے ذریعے ملائیشیا گئے اور وہاں سے اسپین۔
پاکستان میں ان کے خلاف مقدمات کی وجہ سے انہوں نے ہوائی اڈے پر رکنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
اسپین سے وہ بین الاقوامی رضاکاروں کے ایک قافلے "گلوبل فلوٹیلا” (Global Flotilla) کا حصہ بنے، جو 45 جہازوں پر مشتمل تھا اور انسانی امداد لے کر غزہ جا رہا تھا۔
یہ سفر آسان نہ تھا۔ غزہ کے سمندر میں پہنچ کر انہیں ہدایت دی گئی کہ اپنے فون پانی میں پھینک دیں تاکہ ان کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔
راستے میں کھانے کے لیے صرف دو کھجوریں اور ایک روٹی ان کا کل سرمایہ تھیں۔
مگر ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی تھی اور زبانوں پر بس ایک دعا کہ وہ مظلوموں تک پہنچ سکیں۔
بالآخر جب وہ غزہ کے قریب پہنچے تو اسرائیلی افواج نے انہیں دیکھ لیا اور گرفتار کر لیا۔
ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں، ہاتھوں اور پاؤں میں زنجیریں ڈال دی گئیں، اور انہیں قید خانے لے جایا گیا۔
وہاں انہوں نے شدید جسمانی تشدد برداشت کیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بعد میں ایک ویڈیو میں انہوں نے خود بتایا کہ ان پر کتے چھوڑے گئے، انہیں زمین پر گھسیٹا گیا اور تازہ ہوا تک سے محروم رکھا گیا۔
جب ان سے کہا گیا کہ اگر وہ فوری رہائی کے دستاویزات پر دستخط کر دیں تو انہیں فوراً آزاد کر دیا جائے گا،
تو انہوں نے انکار کر دیا۔
ان دستاویزات میں درج چند شرائط یہ تھیں:
1. تمام قیدی یہ تسلیم کریں کہ وہ فلسطین میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوئے۔
2. وہ غزہ پر اسرائیلی حکومت کی بالادستی کو تسلیم کریں۔
3. وہ آئندہ 100 سال تک غزہ کی سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکیں گے۔
وہ فوراً آزاد ہو سکتے تھے، مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، سینیٹر مشتاق احمد خان کی فطرت میں کبھی بھی ناحق بات پر رضامندی شامل نہیں رہی
لہٰذا انہوں نے انکار کیا اور قید و اذیت برداشت کی مگر سچائی پر قائم رہے۔
بالآخر چند دنوں بعد انہیں آزاد کر دیا گیا۔ وہ اردن کے راستے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے
جہاں ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھے۔
سب کے ہاتھوں میں فلسطین کے جھنڈے تھے، اور جب وہ نمودار ہوئے تو ان پر پھولوں کی بارش کر دی گئی۔
ان کا استقبال ایک ہیرو کے شایانِ شان انداز میں کیا گیا۔
یہ سارا واقعہ سن کر میرے دل میں دو کیفیات پیدا ہوئیں
ایک طرف خوشی تھی کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مصیبت کے وقت اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مظلوموں کی مدد کرتے ہیں
اور دوسری طرف شرمندگی تھی کہ دو ارب مسلمان خاموش تماشائی بنے رہے،
جبکہ ایک شخص تنِ تنہا حق کے لیے لڑ رہا تھا۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جس عمر میں لوگ خود سہارے کے محتاج ہو جاتے ہیں، اس عمر میں سینیٹر مشتاق احمد خان پاکستان کے لیے باعثِ فخر بن گئے۔
ان کا یہ سفر اس بات کی علامت ہے کہ جب ایمان سچے جذبے کے ساتھ جڑ جائے تو انسان کو قید، تشدد اور خوف بھی نہیں ہرا سکتا۔
اللہ تعالیٰ انہیں ان کی اس قربانی کا عظیم اجر عطا فرمائے،
اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
آمین۔