طلبہ کو اپنے استادوں سے پنگا لینا مہنگا پڑ گیا شہراقتدار سے

دنیا میں کچھ تعلقات ہمیشہ ایک خاص احترام اور توازن کے محتاج ہوتے ہیں، جن میں استاد اور شاگرد کا رشتہ سب سے اہم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب شاگرد استاد کا ادب چھوڑ دیتا ہے تو علم کا نور بجھنے لگتا ہے اور جہالت کا اندھیرا غالب آ جاتا ہے۔ یہی منظر آج ہمیں ریاستوں کے تعلقات میں بھی نظر آ رہا ہے، جہاں شاگرد نے اپنے استاد سے پنگا لینے کی کوشش کی ہے — اور اب اس کی قیمت بھگت رہا ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی، جو حالیہ دنوں میں ایک بار پھر کشیدگی کی نئی حدوں کو چھو رہے ہیں۔

پاکستان نے برسوں تک افغانستان کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر کھڑا کیا۔ پناہ دی، تعلیم دی، تجارت کے دروازے کھولے، اور امن کے لیے قربانیاں دیں۔ لیکن جب شاگرد نے یہ سمجھ لیا کہ وہ اپنے استاد کے بغیر چل سکتا ہے، تب سے بگاڑ شروع ہوا۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد امید تھی کہ سرحد کے دونوں جانب امن اور تعاون کا نیا دور شروع ہوگا، مگر بدقسمتی سے الٹا ہوا۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے، ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں، اور مسلسل بیانات نے اس اعتماد کو توڑ کر رکھ دیا جو برسوں میں بنا تھا۔

پاکستان نے اپنے حصے کا صبر کر لیا۔ سفارتی ذرائع، مذاکرات، اور صلح کے پیغام بھیجے، مگر جب شاگرد سننے کو تیار نہ ہو تو استاد کو آخرکار چھڑی اٹھانی ہی پڑتی ہے۔ حالیہ کارروائیاں اسی "چھڑی” کی ایک شکل ہیں۔ پاکستان نے واضح پیغام دیا ہے کہ اب کسی کو اپنی سرزمین سے کھیلنے نہیں دیا جائے گا۔ چاہے وہ دشمن ملک ہو یا "دوست” شاگرد۔

افغان قیادت شاید یہ بھول گئی کہ پاکستان کی سرحدی پالیسی نرم ضرور رہی ہے، لیکن کمزور کبھی نہیں۔ جس ملک نے دہشت گردی کے خلاف 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی، وہ اب مزید نقصان برداشت نہیں کرے گا۔ اگر افغان حکومت واقعی خودمختاری چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی سرزمین پر موجود پاکستان مخالف گروہوں کو لگام دینی ہوگی۔

یہ ایک سبق بھی ہے اور انتباہ بھی — نہ صرف افغانستان کے لیے بلکہ ہر اس ملک کے لیے جو اپنے محسنوں کو بھول کر خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ استاد سے بغاوت وقتی جوش میں تو کی جا سکتی ہے، لیکن انجام ہمیشہ شرمندگی، نقصان اور پچھتاوے کا ہوتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن کا رشتہ تبھی بحال ہو سکتا ہے جب "شاگرد” پھر سے یہ مان لے کہ علم، تجربہ اور قربانی کا درجہ استاد ہی کو حاصل ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ "پنگا” اُسے مزید مہنگا پڑتا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے