جاوید میانداد کو صرف ایک بہترین بیٹسمین کہنا ان کے ساتھ انصاف نہیں۔ اگر ہم تکنیک، اعتماد، بے خوفی، ذہانت، حوصلے اور گیم سینس کے تمام پہلوؤں سے دیکھیں تو وہ کرکٹ کا مکمل پیکج تھے۔
جاوید میانداد کی تکنیک غیر روایتی مگر بے حد مؤثر تھی۔ ان کے شاٹس کی رینج وسیع تھی، وہ اسپنرز کے خلاف قدموں کا استعمال کمال مہارت سے کرتے اور فاسٹ بولرز کے خلاف پل، کٹ اور آن ڈرائیو جیسے شاٹس میں مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ ان کا بیلنس، ٹائمنگ اور فٹ ورک انہیں کسی بھی کنڈیشن میں کامیاب بناتا تھا۔ وہ جس پچ پر اترتے، وہاں ان کی بیٹنگ کا اپنا ایک انداز، اپنی ایک کہانی ہوتی تھی۔
اعتماد اور بے خوفی ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ جاوید کبھی بھی حریف بولر یا مشکل حالات سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ چاہے ڈینس للی ہوں، عمران خان ہوں یا رچرڈ ہیڈلی، وہ ان کے سامنے ہمیشہ جارحانہ مگر سمجھدار کرکٹ کھیلتے۔ ان کا جسمانی قد چھوٹا ضرور تھا مگر خوداعتمادی بہت بڑی۔ وہ اپنی باڈی لینگویج سے مخالف بولر کو دباؤ میں لے آتے تھے۔ میدان میں ان کی موجودگی ہی ایک پیغام ہوتی تھی کہ یہ کھلاڑی کسی بھی حال میں ہار نہیں مانے گا۔
جاوید کو میچ پڑھنے کی قدرتی صلاحیت حاصل تھی۔ وہ نہ صرف اپنے کھیل کو بلکہ مخالف ٹیم کی حکمتِ عملی کو بھی سمجھ جاتے تھے۔ اسی لیے ان کی کپتانی اور فیلڈ پلیسمنٹ اکثر حیران کن حد تک مؤثر رہتی۔ انہیں پتہ ہوتا تھا کہ کب ایک سنگل لینا ہے، کب بولر پر چڑھائی کرنی ہے، اور کب ٹیم کو سمیٹ کر کھیلنا ہے۔ وہ اسپورٹس مین سے بڑھ کر ایک اسٹریٹیجسٹ تھے — ایک ایسا کھلاڑی جو پورا میچ اپنے دماغ میں کھیل لیتا تھا۔
جاوید کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا حوصلہ تھا۔ زخمی ہو کر کھیلنا، مشکل وکٹ پر دیر تک ڈٹے رہنا، یا آخری بال پر چھکا مار کر میچ جیتنا — یہ سب ان کی شخصیت کے مظاہر ہیں۔ وہ ہر حال میں پاکستان کے لیے جیتنے نکلتے تھے، چاہے سامنے دنیا کی بہترین ٹیم ہی کیوں نہ ہو۔ کئی بار انہوں نے اکیلے اپنے بل بوتے پر ناممکن حالات کو ممکن بنایا۔
جاوید میانداد محض ایک بیٹسمین نہیں بلکہ ایک کرکٹ ذہن، ایک کردار اور ایک عہد کا نام ہیں۔ ان کی موجودگی ٹیم میں صرف رنز کی نہیں بلکہ حوصلے، سمجھداری اور جیتنے کی ذہنیت کی علامت تھی۔ ان جیسے کھلاڑی بہت کم پیدا ہوتے ہیں — اور شاید اسی لیے آج بھی جب کرکٹ کے سنجیدہ شائقین ماضی کے ہیروز کی بات کرتے ہیں تو جاوید میانداد کا نام سب سے پہلے زبان پر آتا ہے۔
ہمیں ہر صورت میں جاوید میانداد کو استعمال کرنا چاہیے۔ ان کی ذہانت، ان کا تجربہ اور ان کا گہرا کھیل کا فہم ہمارے لیے قیمتی خزانہ ہیں — ان سے فائدہ اٹھانا قومی مفاد ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں طویل عمر اور صحت دے تاکہ وہ اپنی رہنمائی سے پاکستان کرکٹ کو مضبوط کریں۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں کسی باہر کے آدمی کے محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی دانائی اور حوصلہ ہماری ٹیم کو وہ قوت دے سکتے ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ فوراً اور پرزور انداز میں جاوید میانداد کو اپنے تجربے، حکمتِ عملی اور رہنمائی کے لیے بروئے کار لایا جائے — کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جا سکتی۔
اگر ہم جاوید میانداد کو قومی ٹیم کا کوچ بنا دیں تو اس کے واضح اور عملی فوائد ہوں گے: بیٹنگ لائن میں وہ ایک منظم ڈھانچہ قائم کریں گے، اوپنرز کو مخصوص موجودگی کی تربیت دیں گے تاکہ ابتدائی وکٹیں کم ہوں، مڈل آرڈر کو شراکت داری بنانے، رنز کو مسلسل کرنے اور رنز کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کی مشق کروائیں گے۔ وہ رننگ بیٹ وین وکٹس، شارٹ بالز کا مؤثر جواب، اور حالات کے مطابق شاٹس کی ترجیح بتائیں گے۔ اس سے بیٹنگ لائن خود بخود سیدھی اور زیادہ قابلِ بھروسہ بنے گی۔ ان کے زیرِ اثر بیٹنگ یونٹس میں صبر اور جارحیت کا متوازن نظریہ آئے گا — کب پلٹ کر کھیلنا ہے، کب سمیٹ کر رکھنا ہے، اور کب تیزی سے کھیلنا ہے — یہ سب واضح طور پر سامنے آئے گا۔
حوصلہ، لڑنے کی روح اور برداشت جاوید کی تربیت کا بنیادی حصہ ہوں گے۔ وہ ذہنی مضبوطی، میچ کے دباؤ میں قابو پانے کی مشقیں، اور مخصوص حالات (مثلاً آخری 10 اوورز، خراب وکٹ یا چوکے چھکے روکنے والی حکمتِ عملی) کی تیاری کرائیں گے۔ کھلاڑیوں کو شکست برداشت کرنے، غلطیوں سے سیکھنے اور اگلی بار سخت مزاحمت کرنے کا طریقہ اسی تجربے سے آتا ہے — جاوید کھلاڑیوں کو بے خوف بنائیں گے، انہیں اعتماد دیں گے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال میں اپنا بہترین دے سکتے ہیں۔
بولنگ لائن کو وہ نظم دیں گے: لائن اور لینتھ کا ڈسپلن، بولرز کے درمیان مناسب رولز کی تقسیم، کنڈیشن کے حساب سے سوئنگ و رفتار کا پلان، اور ڈیتھ اوورز کے لیے مخصوص حکمتِ عملی۔ وہ نئے اور غیر متوقع بولرز کو بھی مؤثر انداز میں استعمال کرنا سکھائیں گے — کون سا بولر کب آنا چاہیے، کون سے بولرز کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانا ہے، اور کس طرح مخالف بیٹسمین کے خلاف مخصوص پلان بنانا ہے۔ اس سے بولنگ یونٹ میں مستقل مزاجی اور نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔
فیلڈنگ میں وہ چھوٹے چھوٹے فرق پیدا کریں گے جو میچ جتاتے ہیں: فیلڈنگ ڈرلز، کیچنگ کی تکنیک، فٹ ورک، اینٹیسیپیشن اور بارڈر مینجمنٹ۔ فیلڈنگ لائن کا نظم و ضبط بڑھنے سے رن ریٹ پر براہِ راست فرق پڑے گا، سست رن اور زائد رن کم ہوں گے، اور ٹیم کا مجموعی دفاع مضبوط ہوگا۔
اپوزیشن کی حکمتِ عملی کو پلٹنے کی صلاحیت جاوید کا خاصہ ہے — وہ مخالف ٹیم کی کمزوریوں کو جلدی جان لیتے، میچ کے دوران چھوٹی تبدیلیاں کر کے میچ کا رخ بدل دیتے۔ وہ میچ اسپیسفک پلان بنائیں گے، بولر-بیٹسمین جوڑیاں نشانہ بنائیں گے، اور ہر موقع پر متبادل حکمتِ عملی اپنائیں گے تاکہ مخالف ٹیم کو اپنی پالیسی بدلنی پڑے — یہی گیم سینس میچ جیتنے کے امکانات بڑھاتا ہے۔
یہ تمام خصوصیات جاوید میانداد کی شخصیت اور تجربے میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ محض تکنیک نہیں بلکہ سالہا سال کا مطالعہ، میدان میں جیتی گئی جنگیں اور ایک کھلاڑی کے اندر کی وہ بصیرت ہے جو خدا کی طرف سے عنایت کی سی محسوس ہوتی ہے۔ یہ خصوصیات قدرت نے جاوید میانداد کے ساتھ جوڑ کر پیدا کی ہیں۔ دیگر کرکٹرز میں ان میں سے کچھ باتیں بکھری ہوئی ضرور ملتی ہیں، مگر اس مجموعی امتزاج، گہرے تجربے اور فوری فیصلہ سازی کی طاقت کا ایک ساتھ ہونا بہت نایاب ہے۔ اسی لیے جاوید میانداد کی شمولیت ایک الگ سطح کی ضمانت ہے — کھیل، جذبہ اور قومی فخر، تینوں کا امتزاج۔
اللہ تعالیٰ جاوید صاحب کو صحت اور درازِ عمر دے۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں ان کی رہنمائی، مشورے اور تجربے سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ٹیم کو فوراً ان کے سپرد کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی ذہانت، تجربے اور قیادت سے پاکستان کرکٹ کو ازسرِنو زندہ کریں۔ ان کی قیادت میں ہم نہ صرف کھیل کی تکنیکی خامیوں کو درست کریں گے بلکہ ایک ایسی ٹیم بنائیں گے جو ہمت، برداشت، اتحاد اور فتح کی عادی ہو۔
کرکٹ مکمل طور پر جاوید میانداد کے سپرد کر دینی چاہیے — کس کو ٹیم میں رکھنا ہے، کس کو نہیں رکھنا، اور پھر ٹیم کو کس انداز میں ٹرین کرنا ہے، یہ سب فیصلے جاوید میانداد کے حوالے کر دینے چاہئیں۔ ان کی سوچ، تجربے اور فیصلہ سازی میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ تب ہی کرکٹ کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے، تب ہی قومی سطح پر کھیل کی عزت واپس آ سکتی ہے، اور تب ہی بین الاقوامی میدانوں میں جو شرمندگی اور جو ذلت ہمارے حصے میں آ رہی ہے، اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔