تمباکو چھوڑنے کی سہولتیں: ایک نظر انداز شدہ ضرورت اور بڑھتا ہوا بحران

پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ چونسٹھ ہزار افراد تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث جان کی بازی ہار دیتے ہیں، جن میں قریباً تینتیس ہزار افراد ایسے ہیں جو خود تمباکو استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی تمباکو نوشی کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک خوفناک حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں تمباکو نوشی نہ صرف براہ راست بلکہ بالواسطہ طور پر بھی انسانی جانوں کے لیے مہلک خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے باوجود آج تک محکمہ صحت کی جانب سے ایسا کوئی جامع پروگرام یا منصوبہ موجود نہیں جس کے تحت تمباکو نوشی ترک کرنے کے خواہشمند افراد کو باقاعدہ سہولتیں اور مدد فراہم کی جا سکے۔

یہ خلا اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ تمباکو کی صنعت اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہے۔ وہ نکوٹین پاؤچز، ای سگریٹس اور ویپس جیسے نئے مصنوعات کو تمباکو چھوڑنے کے طریقوں کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ یہ ایک گمراہ کن دعویٰ ہے جس نے نوجوان نسل کو اور بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مصنوعات صحت کے لیے اتنی ہی خطرناک ہیں اور کئی ممالک ان کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) بھی واضح طور پر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ مصنوعات صحت مند متبادل نہیں بلکہ نئے خطرات کی شکل ہیں۔

پاکستان چونکہ عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (WHO FCTC) کا دستخط کنندہ ہے، اس لیے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمباکو نوشی ترک کرنے کی سہولیات فراہم کرے اور ایسے منصوبے شروع کرے جن کے ذریعے عوام کو حقیقی مدد مل سکے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک کوئی ایسا سرکاری سطح کا پروگرام سامنے نہیں آیا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت کے محکمے ترکِ تمباکو کے حوالے سے بھرپور منصوبے چلا رہے ہیں، جہاں لوگوں کو مشاورت، طبی سہولیات، اور جدید علاج کی صورت میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس سمت میں خاموشی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف عوامی صحت بلکہ قومی معیشت کے لیے بھی سنگین نتائج پیدا کر رہی ہے، کیونکہ تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ جیسے صوبے، جہاں صحت کا ڈھانچہ پہلے ہی کمزور ہے، فوری طور پر ترکِ تمباکو سہولتیں فراہم کرنے کا آغاز کریں۔ یہ مراکز شہریوں کو امید اور عملی مدد فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ اس جان لیوا عادت کو چھوڑ سکیں۔ ترکِ تمباکو کے منصوبے نہ صرف افراد کو صحت مند زندگی کی طرف لے جا سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی تمباکو کے عذاب سے بچا سکتے ہیں۔

اگر حکومت نے یہ قدم نہ اٹھایا تو تمباکو کی صنعت نئے مصنوعات کے ذریعے لوگوں کو مزید پھنسانے میں کامیاب ہو جائے گی اور صحت کا نظام ایک ایسے بوجھ کے تلے دب جائے گا جسے سنبھالنا ناممکن ہو گا۔ یہ وقت ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور ایک جامع، شفاف اور عوام دوست ترکِ تمباکو منصوبہ فوری طور پر شروع کریں تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور صحت مند مستقبل کی ضمانت پا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات، اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیمی پروگرام، اور میڈیا کے ذریعے شعور اجاگر کرنا بھی اس حکمتِ عملی کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ صرف قانون سازی نہیں بلکہ عملی اقدامات اور وسائل کی فراہمی ہی اس بحران سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے