خوشی کا حصول اور سید محمد حاتم جان: ایک احساس، ایک اظہار

سید محمد حاتم جان میرا چھوٹا بیٹا ہے۔ ساڑھے چار سال عمر ہے۔ بے حد پیارا، لاڈلا اور اپنے لیے اٹھنے والا بڑوں کا ہر غصہ اپنی شیریں باتوں اور دلچسپ حرکتوں سے جلدی میں ٹھنڈا کرنے والا۔ ہر دم کچھ نہ کچھ کرنے والا تیز و طرار، شوخ و شنگ اور چاق و چوبند بچہ۔

شرارتوں، چالاکیوں، لڑائیوں اور حق تلفیوں میں ( زیادہ تر اپنے بہن بھائی کی) بے باک اور لاجواب۔ "نیکی” پر اجائے تو خدا کو خوش کر دیں (اپنے شان لاحقہ سے) اور "بدی” کا تہیہ کریں تو شیطان کو ہنسا دیں۔ مجال ہے کہ اذان سنتے وقت کوئی بات زبان سے نکالیں، کوئی آذان کے دوران باتیں کرتے ہوئے پکڑا گیا تو تھپڑ پہلے رسید کرتا ہے خاموش رہنے کی ترغیب بعد میں کی جاتی ہے۔ آذان سنتے ہی مسجد کا رخ کرتا ہے۔ کوئی ناپسندیدہ بات سنتا ہے تو کہتا ہے ایسا نہ کہیں اللہ ناراض ہوتا ہے۔

نعتیں پڑھنا اور گانے گانا (خود ساختہ) دونوں سے شغف رکھتا ہے، ڈھٹائی سے جھوٹ بولتا ہے جبکہ آزادانہ گالیاں بھی دیتا ہے، ترنم سے تلاوت کرنا اور باقاعدگی سے سوشل میڈیا کا استعمال بھی معمولات میں شامل ہیں۔ بھکاریوں کی آواز سنتا ہے تو برق رفتاری سے پیسے یا کچھ اور لے کر ان کو دے آتا ہے۔ جھگڑے میں رو رعایت کا روادار ہے نہ جواب دینے میں لحاظ کا۔ لڑائی جھگڑے کے دوران تمام دستیاب وسائل یعنی ڈنڈوں اور جوتوں وغیرہ سے پورے بے جگری کے ساتھ آزادانہ کام لیتا ہے۔

خدمت کرنے کا بھی بے حد جذبہ رکھتا ہے اور ہر کام خود کرنے کا جنون بھی۔ مہمانوں کا استقبال گرم جوشی سے کرتا ہے اور ان کے ساتھ گپ شپ بھی۔ میرا ایک جملہ جو اس کے لیے بار بار زبان پہ لاتا ہوں اسے بڑا پسند ہے جب بھی میرے ساتھ کسی بات پر بگڑتا ہے تو میں اس جملے کا سہارا لیتا ہوں جس کا حیرت انگیز اثر ہوتا ہے "تم میرا پیارا بیٹا ہو نا”۔

سراپا تجسس ہے۔ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ وہ کیوں ہے؟ یہ کیسے ہوا؟ وہ کیسے ہوا؟ ہر کسی سے ہر چیز کے بارے میں ہر طرح کے سوالات داغنا اس کا مرغوب مشغلہ ہے۔ اس کے سوالات ہمیشہ تشنہ رہتے ہیں کیونکہ وہ کوئی حد و حساب نہیں رکھتا۔ ایک سوال جو ہر وقت دہراتا رہتا ہے یہ ہے کہ "ہم کیوں بار بار یہ کرتے ہیں؟ ہم کیوں بار بار وہ کرتے ہیں؟”۔ اب اس سوال کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟۔ بار بار چیزوں اور کاموں کے دہرانے پر اسے بڑا اعتراض ہے۔ دفتر جاتا ہوں تو گیٹ پر آ کر الوداع کرتا ہے واپس آتا ہوں تو استقبال، جاتے ہوئے مم (بازاری چیزیں) یاد دلانا اور آتے ہوئے طلب کرنا کبھی نہیں بھولتا۔

محمد حاتم جان میرے لیے سراپا خوشی ہے۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو خوش، سنتا ہوں تو خوش، دہی کھلاتا ہوں تو خوش، دودھ پلاتا ہوں تو خوش اس کی شرارتیں، لڑائی جھگڑے، اس کے جوش و جذبے سے بھرپور نعرے "اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد” اور "کشمیر بنے گا پاکستان”، بار بار باہر ساتھ جانے کی ضد وغیرہ سے بے انتہا لطف اندوز ہوتا ہوں گوں کبھی غصہ بھی دلاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کو دوسرے بچوں کی نسبت ٹھیک ٹھاک رعایت دیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے گھر والوں کی جانب سے باقاعدہ حاتم جان کے بارے میں جانب داری کے الزام کا سامنا ہے۔

اولاد بچپن میں خوشی، جوانی میں ذمہ داری اور بندے کی اپنی بزرگی میں ایک مضبوط سہارا ہوتی ہے۔ بچپن میں اولاد صرف اور صرف خوشی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "اولاد خدا کی نعمت بھی ہے اور امانت بھی۔ نعمت پر شکر ادا کیجیئے اور امانت کی ذمہ داری کو نہ بھولیے گا”۔ یہ اولاد کی بہت ہی خوبصورت اور جامع تعریف بے۔

میرا تو حال یہ ہے کہ جب بھی تھک جاتا ہوں یا پریشان، دب جاتا ہوں یا بے بس تو اللہ تعالیٰ مجھے میرے بچوں خاص کر حاتم جان کی وساطت سے خوش کر دیتا ہے جبکہ میں بھی بطورِ شکر اپنے رب کے سامنے اپنی پوری ہستی سے جھک جاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ مہربان ہے یا اللہ ہمارے بس میں قطعاً نہیں کہ ہم تیرا شکر بجا لانے کا حق ادا کریں۔

حاتم جان کا ہر سوال، ہر شرارت اور ہر جذبہ درحقیقت زندگی کے بنیادی سوالوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اس کا "ہم یہ بار بار کیوں کرتے ہیں؟” کا سوال ہماری ان بے معنی اور جمود زدہ عادات پر ایک معصومانہ طنز ہے جن کو ہم بڑوں نے بے مقصد طور پر اپنا لی ہیں۔ ہم طرح طرح کی ذہنی اور نفسیاتی علتوں میں پڑ کر خوشی کے حصول کو پیچیدہ بنا کر اسے کھو دیتے ہیں، جبکہ حاتم جان جیسے بچوں کے پاس ان کی معصوم آنکھوں، بے ساختہ قہقہوں اور بے لوث محبت میں موجود ہے۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ خوشی کا تعلق حال میں مکمل طور پر موجود رہنے میں ہے چاہے وہ اذان کی آواز پر مسجد بھاگنے کا لمحہ ہو، ایک بھکاری کو کچھ دینے کی خوشی ہو، یا پھر میرے ساتھ بغیر کسی وجہ کے بگڑنے کا معصومانہ انداز۔ یہ معصومیت ہی وہ کلید ہے جو خوشی کے خزانے کو دوبارہ سے کھول سکتی ہے۔

میرا ماننا ہے مقدار اور رسائی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے خوشی اور خیر کو سب سے زیادہ پیدا فرمایا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ خوشی اور خیر انسان کو جینے کا حوصلہ اور جواز فراہم کر رہی ہیں۔ ذرا سوچئے خوشی کتنی پھیلی ہوئی ہے؟ صحت میں خوشی ہے، دولت میں خوشی ہے، عزت میں خوشی ہے، خاندان اور اولاد میں خوشی ہے، عہدے اور اختیار میں خوشی ہے، شہرت اور مقبولیت میں خوشی ہے، حسن اور جاذبیت میں خوشی ہے، اتحاد اور اتفاق میں خوشی ہے، صلاحیت اور مہارت میں خوشی ہے، بہتر رہائش، لذیذ خوراک اور مناسب لباس و پوشاک میں خوشی ہے، حفاظت اور عافیت میں خوشی ہے، دوستی اور تعلقات میں خوشی ہے، رشتوں ناطوں میں خوشی ہے، خدمت اور عبادت میں خوشی ہے، ہدایت اور شفافیت میں خوشی ہے، بچپن کی معصومیت، جوانی کی طاقت اور بزرگی کی وجاہت میں خوشی ہے، صفائی ستھرائی اور نفاست و نزاکت میں خوشی ہے، باتیں سننے اور سنانے میں خوشی ہے، محفلیں جمانے اور دعوتیں اڑانے میں خوشی ہے، علم اور حلم میں خوشی ہے، محبت اور محنت میں خوشی ہے آخر وہ کون سا درخت یا پتھر ہے جس کے نیچے خوشی کے خزانے پوشیدہ نہیں۔

انسان اپنی فطرت، طلب، وجود، حال احوال، رجحان اور مزاج کے اعتبار سے جس چیز کا سب سے زیادہ متلاشی رہتا ہے، وہ خوشی ہے۔ انسان ہر معاملے میں خوشی تلاش کرتا پھرتا ہے۔ زندگی سے اگر خوشی کا احساس اور تلاش نکال دیں تو وہ انسان کے لیے ایک بے معنی چیز بن کر رہ جائے گی۔ ایک فرد کو جہاں خوشی میسر آتی ہے وہاں وہ پوری طرح جم جاتا ہے اور جہاں خوشی کا معقول سامان وہ نہیں پاتا وہاں سے بھاگنے میں دیر نہیں کرتا۔ یہ ایک حقیقت ہے خوشحال انسان پرامن، مہذب، خاموش، ذہین و فطین، کسی بھی معاملے میں وقت دینے اور محنت کرنے پر آمادہ اور تیار رہتا ہے۔ اصول اور ضوابط کا اگر وہ قائل ہو جائے تو پابند بھی رہتا ہے۔ وہ زندگی اور معاملات زندگی کے بارے میں زیادہ محتاط، حساس اور ذمہ دار ہوتا ہے۔ عین یہی حال خاندانوں، قوم قبیلوں، ملکوں اور معاشروں کا بھی ہوتا ہے۔

خوشی کے حصول کا ایک سادہ اصول ہے وہ یہ کہ اپنی زندگی، معاملات اور اخلاقیات کو حق و سچ، حقیقت و فطرت، محنت و مشقت اور آفاقی و الہامی اصولوں سے ہم آہنگ کر لیں۔ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے خوشی اور خوشی کے اسباب دونوں زندگی میں نمودار ہوتے ہیں۔ زندگی کا سفر چونکہ ہموار نہیں لہذا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کہیں پہ خوشی کے اسباب تو بہت زیادہ لیکن احساس اسی طرح کا نہیں ہوتا اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ احساس زیادہ مقدار میں سینے کے اندر موجود لیکن اسباب نسبتاً کمیاب ہوتے ہیں۔ یہ حال احوال معاشرے میں ماورائی پیمانوں، مبہم اتار چڑھاؤ اور صبح و شام رونما مد و جزر کے سبب بنتے ہیں اور اس نے گویا زندگی میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ "ہم نے کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہیں” انسان کے لیے کائنات کا مسخر کرنا کوئی معمولی بات نہیں یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات میں بے شمار خزانے چھپے ہوئے ہیں دوسری جانب خود انسان کو علم و عقل کی صلاحیتوں سے پوری طرح بہرہ مند کر دیا گیا ہے گویا انسان کے سامنے یہ امکان رکھ دیا گیا ہے کہ علم و عقل کی قوتوں سے کام لے کر کائنات میں پوشیدہ خزانوں کو باہر لایا جائیں۔

مغربی اقوام فطرت کے اس سبق کو بخوبی سمجھ گئی ہیں، انہوں نے علم اور عقل سے کام لے کر مادے، مائے اور گیس میں قدرت کے چھپائے خزانوں کو انسان کے دسترس میں لے آئی ہیں۔ مغربی اقوام کو یہ ادراک بھی ہوا ہے کہ عمومی خوشحالی کی جڑیں اجتماعی نظم و ضبط، بنیادی انصاف، صحت و سلامتی، صفائی و ستھرائی، سائنسی تحقیق، اور تعلیم و ہنر کے فروغ میں پیوست ہے۔ انہوں نے ان معاملات کے حوالے سے ایک جاندار، شاندار اور فعال سسٹم تشکیل دیا ہے اور پھر اس سسٹم کو پوری طرح لاگو بھی کیا ہے نتیجہ ظاہر ہے آج مغربی اقوام دنیا میں خوشحال، طاقتور اور با اثر ہیں لیکن ایک بڑا اور اہم مسئلہ انہیں بھی لاحق ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے خالق کائنات کی جانب سے اتارے ہوئے الہامی اصولوں سے روگردانی اختیار کی ہے اس طرزِ فکر و عمل نے وہاں بے شمار مسائل پیدا کر دئیے ہیں جو انسان سے وہ خوشی اور راحت چین رہے ہیں جو اس نے علم اور عقل کی قوتوں کو کام میں لانے سے پایا ہے۔ اب وہاں انسان کا حال یہ ہے کہ ایک طرف مادی آسودگی اور راحت سے لطف اندوز ہو رہا ہے تو ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف روحانی کرب اور خاندانی سسٹم کے توڑ پھوڑ نے اسے بے چین بھی کر رکھا ہے۔

جہاں مغربی معاشرے نے مادی خوشی کے تمام وسائل کو بروئے کار لا کر حیرت انگیز ترقی کی ہے، وہیں ان کا سب سے بڑا المیہ روحانی خلا ہے۔ انہوں نے خوشی کو صرف "حصول” تک محدود کر دیا ہے، جبکہ اس کی اصل بنیاد "احساس” ہے۔ وہ سسٹم تو بنا سکے جس میں زندگی آسان ہوگئی، لیکن وہ روحانی سکون اور خاندانی تعلق کی گہری چھاؤں میں موجود اطمینان کو برقرار نہ رکھ سکے۔ نتیجتاً، ایک طرف عیش و آرام ہے تو دوسری طرف ڈپریشن، تنہائی اور بے معنویت کا ایک طوفان ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک واضح سبق ہے کہ ترقی اور خوشی کا راستہ صرف سائنس اور نظم و ضبط سے نہیں گزرتا، بلکہ اس کا ایک اہم پڑاؤ ہمارے دلوں میں موجود ایمان، اخلاقیات اور خاندانی رشتوں کی مضبوطی سے بھی گزرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ انسان کے لیے عمومی، گہری اور پائیدار خوشی صرف اور صرف ربانی تعلیمات اور فطری اصولوں کی مکمل پاسداری میں پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے وقت بوقت انسانوں کے سامنے پیش کیا ہیں۔ محنت، محبت، نفاست، شفافیت اور سادہ طرزِ زندگی میں بھی خوشی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے جبکہ جمود، نفرت، خیانت، ظلم اور تکلفات سے بھری زندگی یقیناً ناآسودہ ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے