پاک افغان حالیہ کشیدگی اور ہماری ذمہ داریاں

پاک افغان کے مابین حالیہ کشیدگی دونوں ممالک کے عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کے اثرات ختم کرنے میں صدیاں لگ سکتی ہیں۔ اس کشیدگی سے سب سے زیادہ جو لوگ متاثر ہوں گے وہ پختون اور بلوچ ہوں گے۔

اس معاملے کا قابلِ التفات پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ پختونوں کی خیر خواہی کی بنا پر اس صورتحال میں ایسے رویے کے حامل نظر آتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی شاید ہماری مظلومیت کا مداوا بن سکے۔ مگر یہ رویے خواہ کسی کو کتنا ہی قوم کی حمایت میں محسوس ہوتے ہوں اور وہ اس میں کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو، اس کا لازمی اور فطری نتیجہ پختون قوم کا مزید مسائل کے دلدل میں پھنس جانا ہے۔

چونکہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اور افراد کی سیاست کا محور و مرکز مقامی قومی خدمت ہوتی ہے، اس لیے قوم پرستوں کو اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے۔ قوم پرستوں کے علاوہ مذہبی جماعتوں کو بھی اس کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی اپنے نقطۂ نظر کے اعتبار سے آفاقی نظریے کی حامل ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے اور پوری امت کے مسائل کو اجاگر کرنا اپنا نظریہ قرار دیتی ہے، لہٰذا جماعت اسلامی کا یہی نظریہ اس سے اس کشیدگی میں مؤثر کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ مذہبی جماعتوں میں دیوبندی مکتبِ فکر کے مختلف سیاسی اور علمی دھڑوں کا بھی اس کشیدگی کے خاتمے میں مؤثر کردار ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان کا تعلق تقریباً مسلکِ دیوبند سے ہے۔ ایک ہی مسلک ہونے کی بنا پر ان حضرات کو بھی اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

ایک اور گروہ لبرل اور سیکولر ہے جن کا بیانیہ یہ ہے کہ دنیا میں جنگیں نہ ہوں، اور اسی طبقے سے وابستہ لوگوں نے اسرائیل اور فلسطین کی کشیدگی میں مؤثر کردار ادا کیا۔ اس لیے اس طبقے سے بھی اس کے نظریات کا یہی تقاضا ہے کہ وہ بھی آگے آ کر اس کشیدگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔

جہاں تک پنجاب اور سندھ کے صوبوں کا تعلق ہے، ان کے عوام کو بھی چاہیے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ خدانخواستہ اگر یہ کشیدگی طول پکڑتی ہے تو اس کے اثرات سے مذکورہ بالا صوبے بھی نہیں بچ سکیں گے۔
یہاں ایک اہم تجویز کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ قوم پرستوں، مذہبی جماعتوں، اور سیکولر و لبرل حلقوں کو متفقہ طور پر ایک پلیٹ فارم جتنی جلدی ہو سکے بنانا چاہیے اور انہیں دونوں ممالک کے صاحبِ اختیار لوگوں کے ساتھ اس مسئلے کے حل پر بات چیت کرنی چاہیے۔ ساتھ ساتھ اسی متفقہ پلیٹ فارم کے لوگوں کے ایک وفد کو چین جانا چاہیے اور اسے اس صورتحال میں فوری کردار ادا کرنے پر زور دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان کے مابین خراب تعلقات کا اثر براہِ راست چین پر پڑے گا، اور شاید چین یہ چاہتا بھی ہو کہ اس سلسلے میں اسے دونوں ممالک کے عوام کا تعاون حاصل ہو۔

اس سلسلے میں ایک اور کرنے کا کام یہ ہے کہ پاکستان میں جو مشترکہ عوامی پلیٹ فارم بنے، اسی طرز پر افغانستان میں بھی ایک عوامی پلیٹ فارم بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ مشکل بات بھی نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے ان دونوں عوامی پلیٹ فارمز کو مشترکہ طور پر حالات کی درستگی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

آخر میں عرض ہے کہ
دونوں طرف بااختیار اور صاحبِ اقتدار طبقے کو اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔
نوٹ: عام عوام اور خصوصاً سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے قطعی طور پر غیر سنجیدہ رویے سے اجتناب کریں۔ یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس حوالے سے جو بھی بات کی جائے، وہ پوری ذمہ داری سے کی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے