جب گھر ٹوٹتے ہیں تو معاشرے بکھر جاتے ہیں

کسی بھی معاشرے کی بنیاد ایک مضبوط خاندانی نظام ہوتا ہے جو اسے پھلنے، پھولنے اور بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن اگر معاشرے کی اینٹیں ہی کمزور ہوں تو وہ معاشرہ کیسے پروان چڑھ سکتا ہے۔ انسان اپنے دکھ، درد، پریشانی اور مسائل کو سب سے پہلے اپنے خاندان کے ساتھ بانٹتا ہے اور وہیں سے سکون اور حوصلہ پاتا ہے۔

لیکن اگر خاندان خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو پھر انسان کہاں جائے، کس سے امید رکھے؟

اگر ہم مغرب پر نظر ڈالیں تو بظاہر وہاں انسان نے مادی ترقی کی انتہا چھو لی ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، اور سائنس میں وہ بہت آگے ہیں، لیکن خاندانی نظام کے زوال نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ وہاں خاندان ٹوٹ چکے ہیں، والدین اولڈ ہاؤسز میں ہیں، بچے خود مختار مگر تنہا ہیں، اور ازدواجی رشتے وقتی خواہشات تک محدود ہو گئے ہیں۔ اسی تنہائی نے وہاں کے لوگوں کو ذہنی دباؤ، افسردگی، فرسٹریشن، خودکشی اور جرائم کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مشہور سماجی ماہر ایمل ڈرکھائم نے بھی کہا تھا کہ خودکشی کی بڑی وجہ معاشرتی انضمام کی کمی ہے، اور یہی کمی آج کے مغرب کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

اگر پاکستان پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا خاندانی نظام بھی اب ٹوٹ پھوٹ کے ابتدائی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

عدالتوں میں طلاق اور خلع کے کیسز کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہ صرف دو افراد کے تعلق کا ختم ہونا نہیں بلکہ ایک پورے سماجی بحران کی علامت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہر سال ہزاروں شادیاں عدالتی دروازوں پر انجام کو پہنچتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کہیں ہم بھی مغرب کے اسی راستے پر تو نہیں چل نکلے۔

سوشل میڈیا نے اس خرابی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ وہاں ایک ایسا بیانیہ پھیلایا جاتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ جو چیز ہمیں دکھائی جاتی ہے، ہم لا شعوری طور پر اس کو اپنی حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ روزانہ سلیبریٹیز کی شادیاں اور اگلےہی دن ان کی علیحدگی کی خبریں لوگوں کو یہ احساس دیتی ہیں کہ شادی کوئی سنجیدہ رشتہ نہیں بلکہ وقتی کھیل ہے۔ہمارے ڈرامے اور فلمیں بھی حقیقت کے بجائے دکھاوا بن چکے ہیں۔ رشتے توڑنے کو معمولی بات سمجھ لیا گیا ہے۔ میڈیا صرف خبر نہیں دیتا بلکہ ذہن سازی بھی کرتا ہے، اور یہی چیز آج کے نوجوانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ پہلے خیالات داخل کیے جاتے ہیں، پھر وہی خیالات عمل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

شادی دراصل دو انسانوں کے درمیان ایک سماجی و جذباتی معاہدہ ہے۔ یہ صرف دو لوگوں کا ساتھ نہیں بلکہ برداشت، قربانی، اور احساس کا نام ہے۔ جب ایک مرد اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اب وہ پرانی بات نہیں رہی، تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہی عورت اس کے بچے کو نو مہینے اپنے جسم میں سنبھالتی ہے، اپنی ہڈیوں سے غذا دیتی ہے، اور موت کے دہانے سے گزر کر نئی زندگی عطا کرتی ہے۔ اگر یہی قربانی کسی مرد نے دی ہوتی تو کیا وہ بھی اسی طرح بے حسی دکھاتا؟ دوسری طرف کچھ عورتیں اپنے شوہروں پر مسلسل شک کرتی ہیں، طعنوں اور ذہنی اذیت کے ذریعے انہیں اس مقام تک لے آتی ہیں جہاں مرد یا تو ٹوٹ جاتا ہے یا پھر کسی اور طرف سہارا ڈھونڈتا ہے۔

ہمارے گھروں میں کمیونیکیشن کی بہت کمی ہے۔ لوگ بات کرنے سے زیادہ لڑنے لگتے ہیں۔ اصل بات چیت یہ نہیں کہ آپ دوسرے پر اپنی بات مسلط کر دیں، بلکہ سننا، سمجھنا اور برداشت کرنا سیکھیں۔ میاں بیوی کے درمیان بات بحث میں بدل جاتی ہے، بحث الزام میں، اور الزام رشتے کے خاتمے میں۔ یہی وجہ ہے کہ محبت کی جگہ تلخی لے لیتی ہے۔

اکثر خواتین کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ شوہر صرف ان کا ہونا چاہیے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ شادی کا مطلب یہ ہے کہ شوہر باقی رشتوں سے کٹ جائے اور صرف اس کی خدمت کرے۔ لیکن شوہر کے والدین، بہن بھائی، یہ سب بھی اسی کے رشتے ہیں جن کا احترام کرنا اتنا ہی ضروری ہے ۔ دوسری طرف کچھ مرد بھی عورت کو صرف اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں۔ جب رشتے میں توازن ختم ہو جاتا ہے تو وہاں سے مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھنے لگتے ہیں۔ یہی عدم توازن بعد میں اولڈ ہاؤسز اور بکھرے ہوئے خاندانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

اکثر میاں بیوی ایک دوسرے کو قصوروار سمجھ کر نفرتیں پال لیتے ہیں، جبکہ کسی بھی رشتے میں تعریف اور قدردانی کا عنصر سب سے ضروری ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے محبت کے دعوے کیے جاتے ہیں کہ چاند تارے توڑ لائیں گے، مگر شادی کے بعد وہی جذبے جیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ مردوں کو گھر سے باہر ہر عورت اچھی لگتی ہے، تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، مگر اپنی بیوی کے سامنے تعریف کرنا اپنی انا کے خلاف سمجھتے ہیں۔

عورتیں بھی شوہر کو صرف ایک اے ٹی ایم مشین سمجھنے لگتی ہیں، جہاں سے فائدہ حاصل کرنا مقصد بن جاتا ہے۔ محبت کی اصل روح ختم ہو جاتی ہے۔

آج کے معاشرے میں شادی کے کردار بدل چکے ہیں۔ شوہر بیوی سے ڈرتا ہے کیونکہ اگر وہ بولے تو اسے “ظالم” کہہ دیا جاتا ہے، اور دوسری طرف بعض مرد عورتوں کے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں جیسے وہ ان کی جاگیر ہوں۔ یہ دونوں انتہائیں خطرناک ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فیمینزم کی غلط تعبیر نے بھی گھروں کو تباہ کر دیا ہے۔ عورت کی آزادی کے نام پر اسے مرد کے مقابلے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ رشتوں میں محبت کے بجائے مسابقت آ گئی ہے۔

مغرب میں مساوات کے نام پر عورت کو آزادی دی گئی، مگر درحقیقت اسے مارکیٹ کی مشین بنا دیا گیا۔ گھر سے نکال کر دفتروں میں کھڑا کیا گیا، تاکہ وہ بھی وہی “پیداوار” بنائے جو مرد بناتا ہے۔ یہ آزادی نہیں تھی، بلکہ ایک نئی غلامی تھی جذباتی، جسمانی اور نفسیاتی غلامی۔

عورت کے کردار کو “ماں، بیوی، بیٹی” کے تقدس سے نکال کر “صارف” (consumer) بنا دیا گیا۔

اشتہارات، فیشن، اور میڈیا نے اسے آزادی کے نام پر نمائش کی شے بنا دیا۔ اب وہ خود اپنی شناخت کھو چکی ہے نہ وہ مکمل طور پر ماں رہی، نہ شریکِ حیات، اور نہ ہی سکون پانے والی روح۔ یہ سب کچھ “برابری” کے نام پر ہوا، مگر برابری کا مطلب کبھی مقابلہ نہیں ہوتا۔
مرد و عورت کے کردار مختلف مگر مکمل کرنے والے (complementary) ہیں، نہ کہ متصادم۔

فیمینزم نے اسی توازن کو بگاڑا۔ اس نے عورت کو یہ باور کرایا کہ اگر وہ گھر میں رہتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے، تو وہ “کمزور” ہے۔ حالانکہ یہی کردار معاشرتی تعمیر کا بنیادی ستون ہے۔ اگر ماں مضبوط، باشعور اور پر سکون ہوگی تو نسلیں متوازن ہوں گی۔

ہمارے معاشرے میں فیمینزم کی درآمد شدہ شکل نے گھر کے اندر محبت کے رشتے کو “طاقت کی جنگ” میں بدل دیا ہے۔ مرد کو ظالم، اور عورت کو مظلوم کے طور پر پیش کیا گیا، گویا رشتہ محبت نہیں بلکہ مقابلہ ہے۔ میڈیا اور این جی اوز نے اسی بیانیے کو فروغ دیا جس سے عورت نے اپنی اصل پہچان کھو دی۔ اب وہ محبت کے بجائے “حقوق کے مطالبے” کے دائرے میں قید ہو گئی ہے۔ حالانکہ جہاں محبت، احساس اور تعاون موجود ہو، وہاں حق خودبخود محفوظ ہو جاتا ہے۔

اصل مساوات یہ نہیں کہ عورت مرد کی طرح سب کچھ کرے، بلکہ یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ یہی توازن ہے جو آج کی فیمینسٹ تحریکوں میں غائب ہے۔

مغربی طرزِ فیمینزم نے عورت کو آزادی تو دی، مگر سکون نہیں دیا۔ وہ اب آزاد ضرور ہے، مگر تنہا، خالی اور بیزار۔ نہ اسے گھر کی محبت حاصل ہے، نہ معاشرے کا احترام۔ ہمارے معاشرے میں جب یہی فلسفہ نقل کیا گیا تو اس نے خاندانی نظام کی بنیادیں ہلا دیں۔ مرد و عورت کے درمیان اعتماد کم ہوا، انا بڑھ گئی، اور محبت ختم ہونے لگی۔

پاکستانی میڈیا اور این جی اوز نے اسی بیانیے کو اپنایا اور عورت کو شوہر کے خلاف ایک “طاقت” کے طور پر پیش کیا، نہ کہ اس کے ساتھ ایک “ساتھی” کے طور پر۔ نتیجہ یہ ہے کہ گھر ٹوٹے، بچے بکھرے، اور ذہنی سکون ختم ہو گیا۔ یہ سب دراصل میڈیا کے پروپیگنڈے اور سوشل ڈسکورسز کا نتیجہ ہیں۔ میڈیا ایک طاقتور ادارہ ہے جو ہمارے رویے، سوچ اور احساسات کو تشکیل دیتا ہے۔

یہ صرف تفریح نہیں بلکہ ذہن سازی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عام گھرانے بھی انہی مغربی نمونوں کی نقل کرنے لگے ہیں۔

درحقیقت یہ سب عوامل ہیں جو رشتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ ان کا اثر صرف فرد پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ یہ ایک رجحان بن جاتا ہے اور پھر پورا ملک اس کی زد میں آ جاتا ہے۔ ان مسائل کو ختم کرنا آسان نہیں لیکن ہم اپنی سطح پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو دبانے کے بجائے بات چیت کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کبھی اختلاف ہو تو اپنے حصے کی ضد چھوڑ دیں، سمجھوتہ کر لیں، اور ایک دوسرے کے لیے اظہارِ محبت کریں۔

یہ رشتہ ایک زندہ تعلق ہے جس میں تجدید ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کریں، خیال رکھیں، ایک دوسرے کی قدر کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جس سے تم محبت کرتے ہو، اسے بتاؤ کہ تم اسے چاہتے ہو۔” یہ احساس کسی بھی رشتے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ محبت ایک noun نہیں بلکہ یہ ایک verb ہے۔ ذمہ داری نبھانا، ایک دوسرے کی فکرمندی کرنا، اور احساس دکھانا محبت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

ہم سب کو مل کر اس رشتے اور اس نظام کو بچانا ہے کیونکہ خاندان کی مضبوطی ہی معاشرے کی مضبوطی ہے۔ ایک مضبوط خاندان انسان کو ذہنی سکون دیتا ہے، اس کا ڈپریشن کم کرتا ہے، اسے جرم سے دور رکھتا ہے، اور اس کی سوچ کو متوازن بناتا ہے۔ اسی ذہنی استحکام سے ہی قوم کی ترقی، پیداوار اور مستقبل وابستہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے شعور، برداشت، خلوص اور محبت کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی، کیونکہ خاندان کی بقا ہی معاشرے کی بقا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے