روخان یوسفزئی: قلم، فکر اور روشنی کا استعارہ

ادب اور فکر کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے قلم کی روشنی سے سماج کے شعور کو جگاتی ہیں اور خود زندہ ضمیر کی علامت بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی خیبر پختون خواہ کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک ہمہ جہت اور بامقصد شخصیت ہیں۔ انہوں نے شاعری، صحافت، تحقیق اور فلاحی سرگرمیوں میں ایسا عملی کردار ادا کیا ہے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

دیار خان، جنہیں ادبی حلقے روخان یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی باوقار اور فعّال شخصیت ہیں جنہوں نے تعلیمی اور مالی رکاوٹوں کے باوجود ادب میں ایسی شناخت قائم کی جو جدوجہد، خلوص، اور فن کی گہری لگن کا نتیجہ ہے۔ کراچی کے سخت حالات میں محنت مزدوری سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے دیار خان نے تخلیقی صلاحیت، فکری گہرائی، اور مسلسل جستجو کے ذریعے وہ مقام حاصل کیا جس تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ شاعری، نثر، تحقیق، اور ابلاغ کے مختلف شعبوں میں ان کی علمی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے فکری چراغ ہیں۔

ان کی شخصیت میں ایک نرمی، متانت اور گہرائی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا چہرہ عزم کی تصویر، اور آنکھیں مہربانی اور شعور کی روشنی سے معمور دکھائی دیتی ہیں۔ "روخان” کو اپنے ادبی نام کے طور پر اختیار کرنا ان کی فکری وابستگی کا واضح اشارہ ہے، جو پیر روخان کی علمی، فکری، اور انقلابی روایت سے گہرے تعلق کی علامت ہے۔ یہ نام صرف ایک انتخاب ہے بلکہ یہ فکری میراث سے جڑنے کی باضابطہ علامت ہے، جس میں قومی شعور، روحانی فکر، اور جدید ترقی پسند نظریات کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

ادب کی مختلف اصناف میں انہوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا۔ شعری مجموعے ہوں یا افسانے، خاکے ہوں یا تحقیقی مقالے ہر صنف میں ان کا اظہار اپنے اندر فکری بلوغت، ادبی نزاکت، اور معاشرتی بصیرت لیے ہوئے ہے۔ ان کے شعری مجموعے "څاروان کاروان”، "د رڼا خوب”، اور "د رڼا کور” تخلیقی وسعت، زبان کی لطافت، اور فکر کی گہرائی کی بہترین مثالیں ہیں۔ اردو زبان میں بھی ان کی تحریریں علمی استناد اور فکری جدت سے مالا مال ہیں، جبکہ پشتون تاریخ اور ثقافت پر ان کی توجہ ان کے تہذیبی شعور اور قومی ذمہ داری کی غماز ہے۔

ادب کے ساتھ ساتھ ان کی صحافتی خدمات بھی بے حد مؤثر اور بااثر رہی ہیں۔ وہ روزنامہ "ایکسپریس” سے منسلک ہیں اور ایف ایم ریڈیو "سنو پختونخوا” کے ذریعے ادبی، ثقافتی، اور سماجی موضوعات پر بامعنی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی یہ فعالیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ نہ صرف لکھنے والے ہیں وہ اپنی قوم کی آواز بن کر مسائل کی طرف توجہ بھی مبذول کرواتے ہیں۔

ان کے فکری پس منظر میں ترقی پسند تحریک کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے قلندر مومند اور سلیم راز جیسے فکری رہنماؤں کے نظریاتی ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی سوچ میں ایسا توازن پیدا کیا ہے جس میں جدت، روایت، قوم پرستی، اور انسان دوستی باہم رچی بسی نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری محض الفاظ کی ترتیب نہیں ہے یہ تو فکری شعور اور بیداری کا مکمل مظہر ہے، جو قاری اور سامعین دونوں کو متاثر کرتی ہے۔

شاعری ان کے اظہار کا سب سے توانا ذریعہ ہے۔ ان کی آواز، لہجے کی سچائی، اور الفاظ کی تاثیر جب محفلوں میں سنائی دیتی ہے تو سننے والے صرف محظوظ ہوتے، وہ اندر سے جھنجھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں وطن سے محبت، انسانی درد، اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط اور موثر صدا سنائی دیتی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ان کے کلام کو ایک عام شاعر سے ممتاز کرتے ہیں۔

ان کے زندگی کا سفر کراچی کی گلیوں سے لے کر خیبر پختون خوا کی علمی فضاؤں تک محض جغرافیائی تبدیلی کا نام ہے، یہ فکری پختگی، سماجی آگہی، اور تہذیبی ربط کی ایک مسلسل داستان ہے۔ وہ آج بھی اپنے گاؤں کے لوگوں سے والہانہ محبت رکھتے ہیں، لیکن وہاں کی بعض کمزوریوں پر تنقیدی فکر رکھتے ہوئے بہتری کی تمنا بھی دل میں بسائے ہوئے ہیں۔

روخان یوسفزئی کی ادبی زندگی کا ایک نیا اور اہم باب 23 ستمبر 2025 کو اسلام آباد میں رقم ہوا اس تاریخی دن پر چوتھا امن ایوارڈ، اجمل خٹک مرحوم کی صد سالہ جشن ولادت سالگرہ، پشتو کلچر ڈے اور ان کے شعری مجموعے "د رڼا کور” یعنی روشنی کا گھر کی بھی شاندار تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی۔ اس تقریب کا انعقاد ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم "نوے ژوند” کے تحت ہوا اور مقام تھا نیشنل کونسل آف دی آرٹس کا مرکزی ہال۔ اس موقع پر ادب، ثقافت، موسیقی، اور انسانی خدمت کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کیا گیا۔ صدرِ محفل ممتاز دانشور اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کی شرکت نے تقریب کو مزید وقار عطا کیا۔

اس باوقار تقریب میں افراسیاب خٹک، نورالامین یوسفزئی، پروفیسر اقبال شاکر آفریدی، چیئرمین پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس حبیب ملک اورکزئی، اور تنظیم کے چیئرمین نسیم مندخیل جیسے علمی و ادبی شخصیات نے اس کتاب کی رونمائی کی۔ تاہم یہ محض ایک ادبی تقریب نہ رہی، بلکہ اس میں انسان دوستی، ہمدردی اور عملی خدمت کے اعلیٰ جذبات بھی پوری شدت سے نمایاں ہوئے۔

روخان یوسفزئی کے بیٹے زریاب خان، جو دو برس سے خون کے سرطان جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں، ان کے علاج کے لیے اس کتاب کو ذریعہ بنایا گیا۔ تنظیم کے چیئرمین نسیم مندخیل نے شرکاء سے اپیل کی کہ وہ "د رڼا کور” خرید کر نہ صرف ادب کی سرپرستی کریں بلکہ ایک معصوم بچے کی زندگی کی بقا میں اپنا حصہ ڈالیں۔ کتاب کی قیمت 500 روپے رکھی گئی، لیکن صاحبِ استطاعت افراد کو زیادہ رقم دے کر انسانیت نوازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی گئی۔ پچاس کتابوں کا خصوصی اسٹال لگایا گیا تھا، اور زریاب خان پر بنائی گئی دستاویزی فلم نے حاضرین کو گہرے جذبات میں ڈوبا دیا۔

اس تقریب سے قبل پیش آنے والے ایک واقعے نے تنظیم کی سنجیدگی اور ذمے داری کے جذبے کو مزید اجاگر کر دیا۔ کتابیں پشاور سے اسلام آباد لانے والے فضل مومند اور حساس یوسفزئی کو سفر کے دوران ایک شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا، جب ان کی گاڑی کا ٹائر موٹروے پر پھٹ گیا۔ اس خطرناک صورت حال کے باوجود، انہوں نے نہ صرف کتابوں کو محفوظ انداز میں منزل تک پہنچایا بلکہ اپنی بے لوث خدمات سے ثابت کیا کہ اخلاص، قربانی، اور مشن سے لگن کسی بھی رکاوٹ کو عبور کر سکتی ہے۔ نسیم مندوخیل نے ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے اسٹیج ٹیم کو ہدایت دی تھی کہ کچھ ایوارڈز انہی حضرات کے ہاتھوں تقسیم کروائے جائیں، تاہم مصروفیت اور تنظیمی بھاگ دوڑ کے باعث یہ عمل مکمل نہ ہو سکا، جس پر چیئرمین نے بے حد افسوس کا اظہار کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ باقی یہ تقریب ہر پہلو سے فکری، ادبی، ثقافتی، اور انسانی خدمت کے اعلیٰ معیار پر پوری اتری ہے۔

مزید برآں، روخان یوسفزئی کی شاعری، شخصیت اور سماجی کردار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک فرد جب خلوص، فہم اور فن کو یکجا کرتا ہے تو وہ صرف ادیب یا شاعر نہیں رہتا، وہ ایک عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ کتاب ’’د رڼا کور‘‘ اور اس میں شامل تخلیقات پشتو ادب میں ایک فکری سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جو محض دل کو چھونے والی ہے، یہ تو ذہنوں کو روشن کرنے والی بھی ہیں۔ اس کتاب سے میرا تعلق محض قاری کا ہے، ایک ایسے طالبِ علم کا ہے جو الفاظ میں لپٹی روشنی کو تلاش کرتا ہے۔

میرے احساسات اس کتاب کے ساتھ خاصے گہرے اور ذاتی نوعیت کے ہیں۔ یہ نہ صرف شعری مجموعہ ہے کہ اس کو جسے کسی ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھا جائے، یہ تو ایک فکری رفاقت کا احساس دلاتی ہے۔ اس میں شامل نظموں نے مجھے کئی بار رلایا، سوچنے پر مجبور کیا، اور بعض مقامات پر اندر کی کھڑکیاں کھول دیں جہاں خاموشیاں سوال بن کر گونجتی تھیں۔ اس کتاب میں جس انداز سے سماجی، فکری اور تہذیبی بحرانوں کا احاطہ کیا گیا ہے، وہ کسی ادبی ہنر سے بڑھ کر ایک عمیق فکری مشق ہے۔ نظموں کے تنوع اور موضوعاتی وسعت اس بات کی دلیل ہیں کہ شاعر نے زمانے کی دھڑکنوں کو نہ صرف سنا ہے بلکہ انہیں محسوس بھی کیا ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں سے جاری جنگ، مسلسل عدم استحکام، اور پشتون خطے میں در آنے والے المیوں پر شاعر کی نظر گہری اور حساس ہے۔ اس نے انسانی دکھ کو شاعری کا پیرایہ دے کر نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی ہے انہوں نے ایک زندہ فکری ردعمل بھی تشکیل دیا۔ ترقی پسند روایت کے تسلسل میں یہ کتاب ایک ایسی کاوش ہے جو قاری کو محض جمالیاتی خوشبو میں بہلاتی ہے، بلکہ اسے حقیقت کی تلخی سے بھی آشنا کرتی ہے۔

کتاب کی شاعری کے ابتدا ایک دعا سے ہوتی ہے، جو ایک روحانی پیش خیمہ فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر "روشنی کا مینار” جیسی نظم دل کو چھو لینے والی عقیدت سے سرشار ہے۔ اس مجموعے کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ شاعر نے قومی اور تاریخی شخصیات کو نہ صرف یاد کیا ہے ان کی فکر کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت امام حسینؓ، باچا خان بابا، اجمل خٹک، علامہ محمد اقبال، غنی خان، لطیف لالا، اور حمزہ شنواری جیسے کرداروں پر لکھی گئی نظمیں گہرے فکری احترام کے ساتھ ان کے نظریات کی ہم آہنگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ان نظموں میں جذبہ، عقیدت اور شعور کی وہ مثلث قائم کی گئی ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کو ایک فکری دھارے میں جوڑ دیتی ہے۔

کتاب میں ذاتی جذبات کو بھی بڑی شدت اور اخلاص کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اپنے بیٹے دھنیال کے لیے لکھی گئی نظم ہو یا مشال خان جیسے معصوم شہید کے لیے لکھی گئی صدا ہر نظم ایک زندہ احتجاج اور ایک باپ، ایک بھائی، ایک دوست کے دل کی گواہی ہے۔ اسی طرح "ایک انقلابی پشتون لڑکی کا شکوا”، "وقت کی آواز”، "خود احتسابی”، "اعتراف” اور "میری صوابی” جیسی نظموں میں شاعر نے صرف مشاہدہ پیش نہیں کیا انہوں نے ایک فکری مکالمہ قائم کیا ہے، جو ہر باشعور قاری سے سوال کرتا ہے اور اسے جواب دینے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کتاب میں میری پسندیدہ نظم ’’جنګ او امن‘‘ ہے، جسے میں بار بار پڑھتی ہوں اور ہر بار ایک نیا زاویہ، ایک نئی گہرائی دریافت کرتی ہوں۔ یہ نظم ایک ایسا تخلیقی مظہر ہے جو دل کو چیر کر اندر اترتا ہے اور ایک ایسی روشنی بکھیرتا ہے جو محض فکری نہیں روحانی سطح پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ شاعر نے اس نظم میں امن اور جنگ جیسے دو متضاد تصورات کو جس شدت، سادگی اور گہرائی سے بیان کیا ہے، وہ قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ مطالعہ بھی۔ نظم کی پہلی سطریں ہی ایک فکری تھپکی کی مانند قاری کو جگا دیتی ہیں۔ امن کو "مینې د ښائست او د رڼا نوم” کہا گیا ہے، جو ایک طرف حسن اور روشنی کا استعارہ ہے، اور دوسری طرف ایک ایسے تصور کا اظہار، جو انسان کی فطرت میں بسا ہوا ہے۔

نظم آگے چل کر جس انداز میں جنگ کی ہلاکت خیزی کو بیان کرتی ہے، وہ نہ صرف ایک شعری اظہار ہے بلکہ یہ ایک زندہ احتجاج ہے۔ جنگ کو شاعر نے "لېونتوب”، "جهالت”، "نفرت” اور "سروېنې” جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے، جو اس کی فکری سخت گیری اور اخلاقی صداقت کا مظہر ہیں۔ شاعر ہمیں سمجھاتا ہے کہ جنگ محض بندوقوں اور بموں کا شور نہیں، یہ ایک خاموش تباہی ہے، جو ذہنوں، رشتوں اور دلوں میں جنم لیتی ہے۔ اس کے برعکس امن کا تصور صلح، اتحاد، دعا، روشنی اور مسکراہٹ جیسی کیفیات میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔

نظم کا اسلوب تشبیہات اور استعارات سے مزین ہے، جو نظم کو محض ایک خیال سے آگے لے جا کر ایک مکمل جمالیاتی تجربہ بنا دیتا ہے۔ شاعر نے امن کو "د ګل خله کښې خوشبو” اور "د مسکا نوم” جیسے پیکروں میں سمو کر اس کی نرمی، مہک، اور انسانی کشش کو واضح کیا ہے۔ جبکہ جنگ کو "سرې لمبې”، "سکروټې”، اور "تورې شپې د بلا” جیسی تشبیہاتی زبان میں بیان کر کے اس کی تباہ کاری، بدصورتی، اور سراسیمگی کو حقیقی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔

یہ نظم ہمیں نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلاتی ہے۔ یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کس کو ترجیح دیتے ہیں؟ نفرت کو یا محبت کو؟ بربادی کو یا زندگی کو؟ اس نظم کا ہر مصرع ایک اندرونی کشمکش کو آواز دیتا ہے، اور امن کی تلاش کو ایک اجتماعی مشن بنا دیتا ہے۔

اختتام پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ "جنګ او امن” صرف ایک نظم نہیں، یہ ایک پیغام، ایک منشور، اور ایک آئینہ ہے جس میں ہر قاری کو اپنا عکس دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ نظم بتاتی ہے کہ لفظ صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ عمل کی تحریک بھی بن سکتے ہیں۔

روخان یوسفزئی کا قلم آج کے دور میں ایک ایسا چراغ ہے جو نہ صرف تاریکی میں روشنی بانٹ رہا ہے بلکہ یہ امید، انسانیت اور شعور کے سفر میں رہنمائی بھی فراہم کر رہا ہے۔ ’’د رڼا کور‘‘ نہ صرف پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ یہ محسوس کی جانے والی صدا بھی ہے جو وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ یہی اس کتاب کی روح ہے، اور یہی روخان یوسفزئی کی اصل پہچان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے