کل تیرہ اکتوبر 2025 کو مصر کے مشہور شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ترکیہ، قطر، مصر اور امریکہ کی میزبانی میں باقاعدہ امن کانفرنس منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں باقاعدہ امن معاہدے پر دونوں فریقوں (اسرائیل اور حماس) اور معاہدے کے ضامنوں(ترکیہ، قطر، مصر اور آمریکہ) نے دستخط کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں گزشتہ دو سال سے جاری خون آشام جنگ کے خاتمے کا امکان پیدا ہوگیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معاہدے کو پوری دنیا کے لیے بہت بڑا دن قرار دیا، انہوں نے کہاکہ غزہ امن معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ آج تاریخی دن ہے، غزہ امن معاہدہ بڑی کامیابی ہے، دوست ممالک کے تعاون سے غزہ امن معاہدہ ممکن ہوا۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ایسا کامیاب دن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، غزہ امن معاہدے میں مصر کا کردار اہم ہے جبکہ معاہدے کے لیے قطری امیر کی انتھک کاوشیں بھی قابل تحسین ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ صدر رجب طیب اردوان کا بھی شکریہ جن کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے، صدر اردوان ایک بہترین انسان ہیں، ان کی دوستی پر میں شکر گزار ہوں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام چاہتے ہیں، ہم مل کر غزہ میں تعمیر نو کریں گے۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ دستاویز میں غزہ سے متعلق معاہدے کے ضابطوں کی تشریح شامل ہے، غزہ معاہدہ ایک جامع معاہدہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ معاہدہ سب سے مشکل کام تھا تاہم اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ معاہدہ پائیدار ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات کی حوالگی کا مسئلہ اب بھی حل طلب ہے، غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات کی تلاش میں ہم مدد فراہم کریں گے۔
اس سے قبل حماس نے بیس یرغمالیوں کی رہائی کے بعد چار مغویوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کردیں
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت ان بیس یرغمالیوں کی رہائی کے بعد چار مغویوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کر دیں۔ حماس نے چاروں مغویوں کی لاشوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے اسرائیلی کے حوالے کیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی جانب سے جن مغویوں کی لاشوں کو حوالے کیا گیا ان میں گائے ایلوز، یوسی شارابی، بپن جوشی اور ڈینیئل پریز شامل ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ باقی چوبیس لاشوں کو نکالنے میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ تدفین کے تمام مقامات کا علم نہیں۔
حماس نے گزشتہ روز معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جن زندہ بیس یرغمالیوں کو رہا کردیا تھا، رہائی پانے والے تمام یرغمالی ہشاش بشاش اور صحت مند نظر آئے۔ دوسری جانب اسرائیلی جیلوں سے ایک ہزار نو سو چونسٹھ فلسطینی قیدی بسوں میں سوار ہو کر غزہ اور مغربی کنارے پہنچے۔ برسوں بعد اپنے پیاروں کو دیکھ کر اہلخانہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، ایک دوسرے کو گلے لگا کر خوب پیار کیا۔
اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد مغربی کنارے پہنچنے والے ایک فلسطینی شہری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور پھر غزہ کے لوگوں اور مزاحمتی تحریک کے قدم چومتے ہیں جنہوں نے ہمیں عزت کے ساتھ رہائی دلوائی۔ فلسطینی شہری نے مزید کہا کہ "جیل کے حالات بہت زیادہ سخت تھے، ہمیں چار دن پہلے اپنی کوٹھریوں سے نکالا گیا اور تب سے اب تک ہمیں مسلسل مارا پیٹا جاتا رہا اور ذلیل کیا جاتا رہا”۔ اسرائیل نے گزشتہ دو سال میں اپنی دفاعی طاقت اور انسانی پسماندگی کے بے شمار ثبوت پیش کیا ہے۔
مشرق وسطی کی سیاست اور احوال سخت پیچیدہ اور کثیرالجہت ہیں۔ تاریخی طور پر بھی یہ خطہ تنازعات کا شکار رہا ہے، جہاں علاقائی دشمنیاں، مذہبی تقسیم اور بیرونی طاقتوں کی ہر آن مداخلت نے امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ تاہم گزشتہ دو برسوں میں جو تباہی اور بربادی ہوئی اس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی اور اب بین الاقوامی کوششوں کے نتیجے میں امن معاہدہ عمل میں آگیا، اس معاہدے میں ترکیہ، قطر، مصر اور امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں عزہ کی مکمل تباہی نے دنیا کو یہ یہ سوچنے کا موقع ضرور فراہم کیا کہ انسانی سلامتی، تحفظ اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ سب سے پہلے اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اس طرح آزاد اور غیر جانبدار نگران کمیٹیاں قائم کی جائیں جو مشرق وسطی میں انسانی حقوق کی صورتحال کی مسلسل نگرانی کریں۔
اس طرح جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد، چاہے وہ کسی بھی فریق سے تعلق رکھتے ہوں، بین الاقوامی عدالت میں پیش کئے جائیں۔ اس طرح علاقائی ممالک کے درمیان باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لیے ثقافتی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح تنازعات کے حل کے لیے دو طرفہ مذاکرات کو ترجیح دی جائے، جس میں تمام متاثرہ فریقوں کی نمائندگی شامل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بااثر ممالک بھی تنازعات سے لاتعلق نہ رہے بلکہ امن کے قیام اور تنازعات کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
موجودہ معاہدے میں ترکیہ، قطر، مصر اور امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ترکیہ کا کردار بطور ثالث بہت اہم تھا، کیونکہ حماس کو مذاکرات پر اس نے آمادہ کیا۔ اس طرح قطر نے مالی امداد اور مذاکرات میں معاونت فراہم کی۔ اس طرح مصر نے میزبانی کے فرائض انجام دئیے اور نہ صرف یہ بلکہ اسرائیل کو تنازعے کے لیے تیار بھی کیا۔ اس کے علاؤہ مصر غزہ کی سرحد کی نگرانی بھی کر رہا ہے جبکہ امریکہ بین الاقوامی دباؤ اور ضمانتوں کے ذمہ دار طاقت کے طور پر ایک اہم پوزیشن پر ہے۔
امن 2025 معاہدے کے فوری فوائد یہ ہیں کہ
1. فوری جنگ بندی ہو جائے گی۔
2. قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہوا۔
3. انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور جائیں گی۔
4. طویل المدت امن کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔
تاہم ان کے ساتھ کچھ خدشات بھی موجود ہیں مثلاً حماس اور اسرائیل کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، اس طرح یروشلم کی حیثیت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، اس طرح فلسطینی مہاجرین کا مستقبل بھی مخدوش ہے۔ اس کے علاؤہ کچھ طویل المدت رکاوٹیں بھی سامنے ہیں مثلاً غزہ کی مستقبل کی حیثیت کیا ہوگی، اس کے انتظامی امور کون چلائے گا؟ اس طرح فلسطینی اتھارٹی کا کردار کیا ہوگا، اس طرح اسرائیل کی جانب سے حماس کے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ شدید ترین اختلاف کا سبب ہے۔
حالیہ معاہدے کی کامیابی کے لیے ضروری شرائط یہ ہیں کہ دونوں فریقوں کی جانب سے ضروری لچک کا مظاہرہ ہو، اس طرح بین الاقوامی ضمانتیں یقینی ہو، اس طرح طے شدہ معاملات کے نفاذ کے لیے واضح میکانزم موجود ہو کیونکہ حماس نے بار بار اسرائیل پر معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور امریکہ سے قابل اعتماد ضمانت طلب کی ہے۔
مصر میں امن کانفرنس کے انعقاد سے مسئلے کے حل اور جنگ کے خاتمے کا ایک واضح امکان پیدا ہوا ہے اور یہ ممکن ہوا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو۔ ہماری دعا ہے کہ دنیا بھر میں موجود تمام تنازعات انصاف کی بنیاد پر ختم ہو اور دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے جہاں تمام اقوام اور افراد کے حقوق محفوظ ہو۔