خواتین کی ترقی محض ایک خواب نہیں بلکہ صنفی توازن کا مسئلہ ہے یہ ایک ایسی بنیاد ہے جو عالمی خوشحالی اور پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں آج بھی خواتین تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں برابر مواقع سے محروم ہیں۔ ان پر ہونے والا تشدد، ثقافتی رکاوٹیں اور سماجی دباؤ ان کی انفرادی ترقی کو متاثر کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر عالمی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اجرتوں میں عدم مساوات، قیادت میں کم نمائندگی اور کام کی جگہوں پر غیر محفوظ ماحول جیسے مسائل واضح طور پر موجود ہیں۔ ایسے حالات میں عالمی سطح پر مساوی مواقع کی فراہمی نہ اخلاقی تقاضا ہے، یہ معیشت اور معاشرت کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ شی جن پنگ کی جانب سے اس پہلو پر زور دینا خوش آئند ہے، کیونکہ جب عالمی رہنما ایسی سوچ اپناتے ہیں تو عالمی شعور بیدار ہوتا ہے۔ خواتین کی ترقی نہ صرف تعلیم، سیاست اور معیشت میں بہتری کا باعث بنتی ہے بلکہ پائیدار ترقی کے اہداف کو تیزی سے حاصل کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ان کی بھرپور شمولیت سے عالمی بیانیہ ایک نئی سمت اختیار کر سکتا ہے، جو انسانی مساوات، انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہو۔
صدر شی جن پنگ کی تجاویز اس معاملے پر نہایت جامع اور قابل عمل تصور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی سوچ روایتی نعروں یا رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر حقیقی اور پائیدار تبدیلی کے لیے ایک واضح خاکہ فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے خواتین کی ترقی کو نہ صرف سماجی اصلاح کا حصہ ہی ہے یہ تو عالمی امن، خوشحالی اور استحکام کا لازمی جزو قرار دیا۔ ان کی پہلی تجویز دنیا میں امن کے قیام سے متعلق ہے، جو ہر طرح کی ترقی کی بنیاد ہے۔ دوسری تجویز میں خواتین کی معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں شمولیت پر زور دیا گیا ہے تاکہ وہ ترقی کے دھارے کا لازمی حصہ بن سکیں۔ تیسری تجویز قانون سازی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی بہتری پر مرکوز ہے، جس سے خواتین کے حقوق کو تحفظ اور وقار دیا جا سکے۔ چوتھی تجویز صنفی مساوات اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ سے متعلق ہے، جو خواتین کے عالمی اتحاد اور ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ ان تجاویز میں کوئی خلاء محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر سطح پر قابل عمل اور دیرپا اثرات کی حامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں صرف مسائل کی نشاندہی تک محدود نہیں رہا گیا ان کا حل بھی واضح طور پر پیش کیا گیا ہے، جو انہیں ایک منفرد اور متوازن وژن بناتا ہے۔
تنازعات اور جنگیں خواتین پر سب سے گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ چاہے وہ پناہ گزینی کی صورت میں ہو یا جنسی تشدد جیسے سنگین نتائج، خواتین ہر پہلو سے متاثر ہوتی ہیں۔ شی جن پنگ نے اس نکتہ کو بڑی بصیرت سے اجاگر کیا ہے کہ خواتین کی ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب ماحول پُرامن ہو۔ جب زندگی کی بقاء ہی خطرے میں ہو تو تعلیم، صحت اور خودمختاری کی باتیں غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ تاہم خواتین نہ صرف متاثرہ فریق ہوتی ہیں اس بحران کے بعد معاشرتی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی ہمت، قربانی اور قیادت بحران زدہ معاشروں میں نئی روح پھونکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خواتین کو صرف متاثرہ کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ مسئلہ حل کرنے والی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ شی جن پنگ کا یہ زاویہ ایک نئی سوچ کو جنم دیتا ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر خواتین کو امن قائم رکھنے اور تنازعات کے حل میں مؤثر شراکت دار بنایا جائے تو یہ عمل نہ صرف شفاف بلکہ دیرپا ثابت ہو سکتا ہے۔
معاشی اور تکنیکی شعبوں میں خواتین کی شمولیت ایک ایسی بنیاد ہے جو معاشرے کو خود انحصاری، اختراع اور سبز ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ آج کے علم و ہنر پر مبنی دور میں خواتین کی شرکت ترقی کی رفتار کو دوگنا کر سکتی ہے۔ شی جن پنگ نے سائنسی، تکنیکی اور ماحولیاتی میدانوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی ہے، جو جدید دنیا کی ضرورت ہے۔ خواتین کو صرف مزدور کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے انہیں قائد اور موجد کے طور پر بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ ڈیجیٹل تفریق کا خاتمہ کیے بغیر خواتین کی مکمل شمولیت ممکن ہی نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی میں خواتین کی شرکت انہیں نہ صرف باعزت روزگار ہی دیتی ہے مستقبل کی معیشت میں مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بھی بناتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ جیسے اہم شعبے میں خواتین کی حساسیت، فطرت سے قربت اور پائیدار سوچ نئی راہیں کھول سکتی ہے۔ معاشی خود مختاری انہیں ظلم اور انحصار سے نجات دلاتی ہے۔ شی جن پنگ کی یہ سوچ خواتین کو محض نا ہی کارکن بناتی ہے انہیں فیصلہ ساز بنانے کی جانب قدم ہے، جو حقیقی ترقی کی ضمانت ہے۔
قانونی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر خواتین کا تحفظ اور ترقی ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد ایک ایسا زخم ہے جو معاشرتی ڈھانچے کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ شی جن پنگ نے اس مسئلے کو قانون اور اداروں کے تناظر میں پیش کیا، جہاں صرف قانون سازی کافی نہیں سمجھی جا سکتی ان پر مؤثر عمل درآمد بھی لازم ہے۔ عدالتی نظام کی پیچیدگیاں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم سنجیدگی اور معاشرتی رویے اکثر خواتین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس رویے کو بدلنے کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دینا ضروری ہے جو قابل رسائی، حساس اور شفاف ہو۔ خواتین کو قانونی مدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی، سماجی اور تعلیمی تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں میں ان کی مساوی رسائی کو یقینی بنانا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ادارہ جاتی اصلاحات صرف قوانین سے ممکن ہی نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی سوچ میں تبدیلی اور اداروں کے اندر انسانی حساسیت پیدا کرنے سے ممکن ہیں۔ یہی وہ ہمہ گیر تبدیلی ہے جو خواتین کے محفوظ، باوقار اور خودمختار مستقبل کی ضامن بن سکتی ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کی سیاسی نمائندگی ابھی تک محدود ہے۔ زیادہ تر خواتین صرف ووٹ ڈالنے تک محدود رہتی ہیں، جبکہ پالیسی سازی کے مراکز میں ان کی موجودگی نہایت کم ہے۔ شی جن پنگ نے خواتین کی سیاسی شرکت کو مکمل جمہوریت کا لازمی جزو قرار دیا۔ اگر معاشرے کی نصف آبادی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہو تو پالیسیوں میں توازن اور جامعیت کیسے ممکن ہے؟ خواتین کی سوچ، تجربات اور ترجیحات مردوں سے مختلف ہوتی ہیں، اس لیے ان کی شمولیت ہر سطح پر ضروری ہے۔ انہیں مقامی حکومتوں سے لے کر قومی اسمبلیوں اور کابینہ تک مکمل نمائندگی دی جانی چاہیے۔ یہ نمائندگی محض عددی نہ ہو یہ اختیارات کی حامل ہونی چاہیے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہاں خواتین نے قیادت سنبھالی، وہاں معاشرتی انصاف، تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کو فروغ ملا۔ شی جن پنگ کی یہ تجویز نہایت اہم ہے کہ خواتین کو ووٹ دینے سے آگے بڑھا کر پالیسی سازی میں مؤثر کردار دیا جائے۔ سیاسی تربیت، شعور کی بیداری اور محفوظ ماحول کی فراہمی وہ اقدامات ہیں جو اس خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔
صنفی مساوات محض برابری کا نعرہ نہیں یہ ایسا طرزِ عمل ہے جو ہر ادارے، رویے اور قانون میں جھلکنا چاہیے۔ مساوات اس وقت مکمل تصور کی جا سکتی ہے جب معاشرہ، قانون اور سوچ تینوں سطحوں پر اسے قبول کریں۔ شی جن پنگ نے مساوات کو نہ صرف قانونی حق تک محدود رکھا انہوں نے اسے سماجی رویے کی تبدیلی سے جوڑا۔ اگر قوانین موجود ہوں مگر معاشرہ عورت کو برابر نہ سمجھے، تو وہ مسلسل تعصب اور پابندیوں کا شکار رہتی ہے۔ احترامِ نسواں کو محض تقریروں سے بلکہ تعلیم، میڈیا، مذہبی قیادت اور گھریلو تربیت میں شامل کرنا ہوگا۔ خواتین صرف حق مانگنے والی ہے وہ ذمے داری بھی اسی اخلاص سے ادا کرتی ہیں۔ ان کا کردار مساوی، متحرک اور فیصلہ کن ہے۔ جب معاشرہ انہیں برابری کے اصول پر دیکھے گا تو انصاف، رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا، جو ایک مہذب دنیا کی بنیاد ہے۔
شی جن پنگ نے عالمی سطح پر خواتین کے تعاون کو فروغ دینے کا جو نظریہ پیش کیا، وہ روایتی سفارت کاری کے دائرے سے نکل کر ایک جامع انسانی ایجنڈے کی صورت اختیار کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو عالمی نظام میں محض تماشائی کے بجائے فعال شراکت دار بنایا جائے۔ یہ تصور بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک نئے باب کی شروعات ہو سکتا ہے، جہاں اقوام متحدہ جیسے اداروں کو ایک مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر کے دنیا بھر کی خواتین کو جوڑا جائے۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی خواتین جو کثیر الجہتی محرومیوں کا شکار ہیں، ان کے لیے یہ عالمی تعاون علم، ہنر، ٹیکنالوجی اور تجربے کی شراکت سے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا تعاون صرف مالی امداد تک محدود نہ ہو؛ اس میں عملی تبادلوں، تربیتی پروگرامز اور پالیسی شراکت داری جیسے پہلو بھی شامل ہوں۔ سرحدوں سے ماورا نیٹ ورکس تشکیل دیے جائیں جہاں خواتین کو اپنی آواز، تجربات اور صلاحیتوں کو عالمی سطح پر بروئے کار لانے کے مواقع حاصل ہوں۔ جب مسائل عالمی نوعیت کے ہوں تو ان کا حل بھی عالمی سطح پر مشترکہ کاوشوں سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں خواتین کو درپیش مسائل کا تناظر قدرے مختلف ہے۔ یہاں غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادیاں، جنسی ہراسانی، معاشی انحصار اور تعلیمی محرومیاں ایک کڑوی حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔ ایسے میں شی جن پنگ کی تجاویز پاکستان کے لیے ایک رہنمائی کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہاں خواتین کی سیاسی نمائندگی تو موجود ہے، تاہم مؤثر شمولیت ابھی بھی ایک چیلنج ہے۔ تعلیم کے نصاب میں صنفی حساسیت کو شامل کرنا، خواتین کے لیے محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام، اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنا وہ اقدامات ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت کو خواتین کی پہنچ میں لانا ضروری ہے تاکہ وہ صرف ملازمت کی تلاش پر انحصار نہ کریں؛ خود اختراعی شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ اگرچہ قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کی رفتار سست ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تجاویز کو مقامی سیاق و سباق میں ڈھال کر عملی منصوبوں کا حصہ بنائیں۔ جب حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا ایک پلیٹ فارم پر آ کر کام کریں گے تو ایک سازگار، محفوظ اور باوقار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے جس میں خواتین واقعی ترقی کر سکیں۔
شی جن پنگ کے پیش کردہ نظریات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی خواتین کو انسانی ترقی کا برابر شریک سمجھتے ہیں، یا اب تک صرف وعدوں اور بیانات کی حد تک محدود ہیں؟ کیا ہم اس وژن کو حقیقت میں ڈھال سکتے ہیں جس میں خواتین کو صرف رعایت نہ دی جائے؛ بلکہ مکمل خودمختاری حاصل ہو؟ وقت آگیا ہے کہ صنفی مساوات کو ایک سماجی مطالبہ نہیں سمجھا جائے؛ اسے عالمی ترقی کی بنیادی شرط تسلیم کیا جائے۔ یہ تجاویز ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم اپنے نظاموں، اداروں، رویوں اور نظریات کا تنقیدی جائزہ لیں۔ دنیا ایک ایسے نکتے پر کھڑی ہے جہاں ترقی کے خواب اس وقت ہی حقیقت میں بدلے جا سکتے ہیں جب پوری انسانیت، بالخصوص اس کا نصف حصہ یعنی خواتین، برابر کی شراکت دار بنیں۔ تعلیم، روزگار، تحفظ اور قیادت ے مساوی مواقع فراہم کرنا اب انتخاب کا سوال نہیں رہا؛ یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ اس وژن کو عملی شکل دینے کے لیے صرف حکومتیں کافی نہیں؛ ہر فرد کو اپنے حصے کی شمع روشن کرنا ہوگی۔ آئیں، ہم سب مل کر ایک ایسی دنیا کی تعمیر کریں جہاں عورت مرد کی ہمقدم ہو، پسماندہ نہیں۔ یہی وہ دنیا ہے جو حقیقی انسانی ترقی، انصاف اور امن کی ضامن بن سکتی ہے۔