پشاور کے جامعہ سرحد میں شعبۂ اردو کے زیرِ اہتمام ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کے پہلے حصے میں دو پی ایچ ڈی سکالرز کے مقالوں کا عوامی دفاع ہوا اور دوسرے حصے میں دنیائے ادب کے معتبر قلم کار محمد حمید شاہد نے اردو افسانے کے ارتقا پر اظہار خیال کیا۔
نشست کے اغاز پر تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت گورنمنٹ سپیرئیر سائنس کالج پشاور کے طالب علم شایان معظم نے حاصل کی۔۔ تلاوت کے بعد سٹیج سیکرٹری نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور مہمان خصوصی کو حاضرینِ محفل سے متعارف کروایا۔انھوں نے بتایا کہ حمید شاہد نہ صرف تخلیقی سطح پر بلکہ تنقیدی حوالے سے بھی نصف صدی سے اردو افسانے کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اردو افسانے کے ارتقا پر بات کرتے ہوئے محمد حمید شاہد نے بتایا کہ افسانے اور کہانی کا وجود اسی وقت سے قائم ہوا جب انسان کو زمین پر اتارا گیا۔انھوں نے اپنے اس خصوصی لیکچر کے دوران اردو افسانے کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالتے ہوئے حاضرینِ محفل کو اپنی گفتگو سے مسحور کیے رکھا۔ ادب کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک جگہ نہایت دلچسپ بات بیان کی کہ ادب اس بات کو بھی کہنے کے قابل بنا دیتا ہے جو کہنے کے قابل نہیں ہوتی۔
افسانے کے موضوعات، اسالیب اور مختلف النوع تکنیکوں کا احاطہ کرتے ہوئے انھوں نے دورِ حاضر کی ایک صنف افسانچہ پر بھی اپنا مؤقف پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس صنف کے حق میں نہیں کیونکہ اس کے لیے کہانی کے لازمی اجزا میں سے کسی ایک جز کی قربانی دینی پڑتی ہے۔کیونکہ کہانی میں سپیس، کردار اور واقعہ کا ہونا لازمی ہے جب کے افسانچے میں ان تینوں کا بیک وقت رہنا ممکن نہیں رہتا۔
محمد حمید شاہد کی اس سیر گفتگو کے بعد یہ نشست اپنے احتتام کو پہنچی۔ آخر میں سرحد یونیورسٹی کی طرف سے مہمانوں کے لیے ضیافت کا احتتام کیا گیا تھا۔
یہ نشست ادبی لحاظ سے نہایت مفید رہی اور طلبا و طالبات کو مہمانوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ شرکائے محفل میں خالد سہیل ملک، ناصر علی سید، ڈاکٹر امتیاز، ڈاکٹر سید زبیر شاہ، ڈاکٹر قدرت اللہ خٹک ، عبید بازغ امر، شایان معظم کے نام نمایاں ہیں۔