بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، افسوس کہ انسانی سہولیات کے اعتبار سے سب سے زیادہ محروم بھی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں پہاڑوں کے درمیان بستیاں تو ہیں، مگر اسپتالوں میں بنیادی سہولتیں مفقود ہیں۔ یہاں کے لوگ سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے کوئٹہ پہنچتے ہیں، مگر اسپتال کے دروازے پر پہنچ کر اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ بیماری کا علاج تو شاید یہاں بھی میسر نہ ہو، بلکہ ایک نئی آزمائش ان کی منتظر ہوتی ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں ایک غریب ماں اپنے بیٹے کے لیے دوا خریدنے کی سکت نہیں رکھتی اور ایک باپ اپنی مزدوری بیچ کر محض ایک ایکسرے کرانے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ وہ بلوچستان ہے جہاں ہر مریض کا چہرہ ریاست سے ایک سوال کرتا ہے: "کیا ہم انسان نہیں؟”
کوئٹہ کے بڑے سرکاری اسپتال، سول اسپتال اور بلوچستان میڈیکل کمپلیکس (بی ایم سی)، آج بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ شہر جو پورے صوبے کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں کے اسپتال مریضوں کو مکمل علاج فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے وارڈوں میں حد سے زیادہ رش، دواؤں کی کمی، اور مشینوں کی خرابی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ مگر ان سب مسائل میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اور حیران کن بات یہ ہے کہ کوئٹہ جیسے اہم شہر میں آج تک تھوراسک ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا وہ شعبہ جو براہِ راست انسان کی سانس، پھیپھڑوں اور زندگی سے جڑا ہوا ہے۔
تھوراسک دراصل یونانی زبان کے لفظ Thorax سے لیا گیا ہے، جس کے معنی سینہ یا چھاتی ہیں۔ طب کا یہ نہایت اہم اور نازک شعبہ پھیپھڑوں، سینے، پسلیوں، غذائی نالی، اور دل کے گرد جھلی سے متعلق بیماریوں کے علاج سے متعلق ہے۔ اس میں پھیپھڑوں کا کینسر، رسولیاں، سینے میں گولی لگنے کے کیس، غذائی نالی کی رکاوٹ، پسلیوں کے فریکچر، یا پھیپھڑوں میں پانی یا ہوا جمع ہونے جیسے خطرناک مسائل شامل ہیں۔ ان بیماریوں کے علاج کے لیے نہ تو جنرل سرجن کافی ہوتا ہے اور نہ ہی عام فزیشن۔ ان کے لیے ایک تربیت یافتہ، تجربہ کار اور ماہر تھوراسک سرجن کی ضرورت ہوتی ہے، جو مخصوص آلات، تربیت یافتہ عملے، اور جدید سہولیات کے ساتھ ہی بہتر علاج فراہم کر سکتا ہے۔
بلوچستان جیسے بڑے صوبے میں، جہاں آبادی بکھری ہوئی اور فاصلہ وسیع ہے، وہاں تھوراسک شعبے کی عدم موجودگی نہایت افسوسناک ہے۔ پورے صوبے میں صرف ایک یا دو ایسے سرجن موجود ہیں جو اس مہارت کے حامل ہیں، مگر ان کے پاس نہ مطلوبہ مشینیں ہیں، نہ مناسب جگہ، اور نہ ہی مکمل عملہ۔ نتیجتاً، سینکڑوں مریض یا تو کراچی، پشاور یا اسلام آباد کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یا علاج کے انتظار میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ یہاں علاج کی سہولت نہ ہونا ہی اکثر مریض کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
پچھلے سال ژوب سے تعلق رکھنے والے پشتون نوجوان صنم گل کے ساتھ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ اسے سینے میں گولی لگی تھی اور اُسے فوری طور پر کوئٹہ کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد اُسے صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا، مگر چند دن بعد اُسے شدید سانس کی تکلیف ہونے لگی۔ جب دوبارہ اسپتال لایا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس کے پھیپھڑے میں سوراخ ہے اور خون جمع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں نے فوری آپریشن تجویز کیا جس کا خرچ دس لاکھ روپے بتایا گیا۔ آخرکار صنم گل کو پشاور لے جایا گیا جہاں لیڈی ریڈنگ اسپتال معروف تھوراسک سرجن پروفیسر ڈاکٹر عمران نے معائنہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ آپریشن کا کیس نہیں بلکہ ہم Lung Bagging Technique سے علاج کر سکتے ہیں۔ چند دنوں کے اندر ہی صنم گل کی حالت بہتر ہو گئی، سانس بحال ہوا، اور وہ صحت یاب ہو گیا۔
صنم گل کی کہانی دراصل بلوچستان کے ہزاروں غریب مریضوں کی کہانی ہے۔ ان کے لیے بیماری سے بڑھ کر اذیت “علاج کی تلاش” بن جاتی ہے۔ اگر کوئٹہ میں تھوراسک ڈیپارٹمنٹ ہوتا تو شاید صنم گل کو پشاور نہ جانا پڑتا۔ نہ جان کو خطرہ لاحق ہوتا، نہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے۔ نہ اس کے خاندان کو کمر توڑ مالی بوجھ اٹھانا پڑتا، اور نہ انہیں اجنبی شہر کے ہسپتالوں میں دھکے کھانے پڑتے۔ آج بھی پشاور کے ایل آر ایچ اسپتال میں یہ شعبہ کامیابی سے کام کر رہا ہے، جہاں ماہر سرجن، جدید آلات، اینستھیزیا ٹیم اور ری ہیبلیٹیشن یونٹس مکمل طور پر موجود ہیں۔
اسی اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عمران نے بلوچستان حکومت کو باقاعدہ طور پر پیشکش کی ہے کہ اگر حکومت سنجیدہ ہو تو وہ بی ایم سی یا سول اسپتال میں تھوراسک ڈیپارٹمنٹ کے قیام میں ہر ممکن تعاون کریں گے۔ مگر افسوس کہ بلوچستان حکومت نے اب تک اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ فائلیں ابھی بھی دفاتر میں بند ہیں، اور انسانی درد کی آواز حسبِ روایت کاغذوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئٹہ کے اسپتال صرف مقامی لوگوں کے لیے نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے لاکھوں افراد کی آخری امید ہیں۔ مستونگ، ژوب، خضدار، لورالائی، نوشکی، گوادر، سبی اور دیگر اضلاع سے مریض کوئٹہ پہنچتے ہیں صرف اس امید پر کہ شاید یہاں سے کوئی زندگی کی ڈور تھامنے والی امید مل جائے۔
مگر اکثر مریضوں کو اسپتال پہنچتے ہی بتایا جاتا ہے: “یہاں علاج ممکن نہیں، کراچی یا پشاور جائیں۔” یہ ایک جملہ کسی بھی غریب کے لیے ایک موت کا پروانہ بن جاتا ہے۔ وہ شخص جو صرف پٹرول کے پیسے جوڑ کر آیا ہوتا ہے، وہ کراچی یا اسلام آباد کے لاکھوں کے اخراجات کیسے اٹھا سکتا ہے؟ ترقی یافتہ شہروں کے بڑے اسپتالوں میں تھوراسک یونٹس زندگی اور موت کے درمیان ایک حد فاصل ہوتے ہیں۔ وہاں فوری آپریشن، ماہر سرجن، اور جدید سہولیات کی موجودگی درجنوں جانیں بچاتی ہے، مگر افسوس کہ کوئٹہ جیسے اہم شہر میں ایسا کوئی فعال تھوراسک یونٹ موجود نہیں ہے۔
یہ صورتِ حال صرف تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ جو مریض پھیپھڑوں یا سینے کی تکلیف میں مبتلا ہو، اُسے مجبورا کراچی، پشاور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ اس سفر میں نہ صرف پیسہ خرچ ہوتا ہے بلکہ وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور اکثر یہی وقت مریض کی زندگی کے لیے قیمتی ثابت ہوتا ہے۔ غریب عوام کے لیے یہ سفر صرف اذیت ناک نہیں بلکہ اکثر ناممکن بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف مالی تنگی، دوسری طرف اجنبی شہر کی گلیاں، اور وہاں کا پیچیدہ نظام۔ یہ لوگ پہلے اسپتال ڈھونڈتے ہیں، پھر وارڈ کا پتہ پوچھتے پھرتے ہیں، اگر خوش قسمتی سے ڈاکٹر مل جائے تو مہنگی دوائیوں کی پرچیاں لے کر اپنی جیب دیکھتے ہیں، اور اکثر خاموشی سے لوٹ جاتے ہیں۔
اگر علاج کے دوران خون کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ بھی ایک نئی آزمائش بن جاتا ہے۔ نہ کوئی رشتہ دار، نہ کوئی جاننے والا۔ اگر ڈاکٹر باہر سے دوائیں لکھ دے تو وہ دوائیں خریدنا غریب کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ صحت کارڈ سے شاید آپریشن تو ہو جائے، مگر دوائیں، رہائش، کھانے پینے، اور بعد از علاج خرچوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ یہ وہ روزمرہ کی حقیقت ہے جو بلوچستان کے ہر مریض اور اُس کے خاندان کو درپیش ہے۔ عوام دواؤں، ٹیسٹوں، سفری اخراجات، اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں پستے جا رہے ہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو وہ ادھورا علاج کرواتے ہیں یا خاموشی سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
بلوچستان کے وزیرِ صحت بخت کاکڑ اکثر خود کو ایک عوامی اور سوشل ایکٹوسٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگر وہ واقعی عوام کے نمائندہ ہیں، اگر وہ واقع اپنے دعووں میں سچے ہیں، تو اب وقت ہے کہ وہ عملی اقدامات کریں۔ اُن کے لیے سب سے پہلا اور فوری قدم یہی ہونا چاہیے کہ وہ کوئٹہ کے سول اسپتال یا بلوچستان میڈیکل کمپلیکس (بی ایم سی) میں ایک مکمل اور فعال تھوراسک ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا اعلان کریں ایک ایسا شعبہ جو ہزاروں جانیں بچا سکتا ہے، ایک ایسا یونٹ جو بلوچستان کے باسیوں کو اپنے ہی شہر میں علاج کی سہولت فراہم کر سکے، تاکہ اُنہیں کراچی، پشاور یا اسلام آباد کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ان لوگوں کا وہ بنیادی حق ہے جس سے انہیں برسوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
بلوچستان کا دوسرا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے اکثر ماہر ڈاکٹرز دن کے وقت سرکاری اسپتالوں میں غیر حاضر رہتے ہیں اور شام ہوتے ہی پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگی فیس لے کر مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر جن کے پاس صبح کو غریب عوام مفت علاج کی امید لے کر پہنچتے ہیں، وہ شام میں اُنہی سے تین گنا فیس لیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف بد دیانتی ہے بلکہ ایک طرح کا کھلا استحصال ہے۔ وہ لوگ جو دن میں لائنوں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، شام کو قرض لے کر انہی ڈاکٹروں کے کلینک کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں بیماری نہیں بلکہ غربت ماری جاتی ہے۔
اگر بلوچستان حکومت واقعی عوام دوست ہے، تو اسے چاہیے کہ پشاور کے ایل آر ایچ ماڈل پر عمل کرے، جہاں تمام سرکاری ڈاکٹرز شام کے اوقات میں سرکاری اسپتال کے اندر ہی پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔ اس ماڈل کے تحت ڈاکٹر کو بھی قانونی آمدنی ملتی ہے، عوام کو سستے داموں ماہرین تک رسائی حاصل ہوتی ہے، اور سرکاری اسپتال شام کے وقت بھی فعال رہتے ہیں۔ یہی ایک ایسا متوازن نظام ہے جس سے عوام، حکومت اور ڈاکٹر تینوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف پرائیویٹ کلینکس کی اجارہ داری ختم ہو گی، بلکہ سرکاری اداروں میں عوام کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔
آخر میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ، چاہے وہ سڑک ہو یا عمارت، انسان کی جان سے بڑا نہیں ہوتا۔ ایک اسپتال صرف اینٹ پتھر سے بنی عمارت نہیں بلکہ وہ امید کی آخری سانس ہوتا ہے جب یہ سانس بجھ جائے، تو قومیں مرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اگر آج بخت کاکڑ صاحب واقعی اپنے منصب کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں، تو وہ نہ صرف تھوراسک ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا اعلان کریں بلکہ بی ایم سی میں شام کے اوقات میں قانونی پرائیویٹ پریکٹس کے نظام کو بھی متعارف کرائیں۔ انہیں یہ فیصلہ صرف فائلوں میں محدود نہیں رکھنا بلکہ زمینی حقیقت بنانا ہو گا۔
بلوچستان کو دہائیوں سے نظرانداز کیا گیا ہے، مگر اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ ایک تھوراسک ڈیپارٹمنٹ کا قیام نہ صرف ایک سرکاری اقدام ہوگا بلکہ یہ ان ہزاروں ماؤں کے آنسوؤں کا جواب ہو گا جنہوں نے اپنے بچوں کو صرف اس لیے کھو دیا کہ وقت پر ماہر ڈاکٹر یا سہولت دستیاب نہ تھی۔ یہ ان باپوں کی امید ہو گا جن کے خواب ایکسرے اور دواؤں کے خرچ تلے دب چکے ہیں۔ یہ فیصلہ دراصل اُن مریضوں کے لیے ہوگا جو زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر اُن کے پاس وسائل نہیں۔
اگر یہی حالت برقرار رہی، تو بلوچستان پہاڑوں کی خاموشی میں اپنے مریضوں کے ساتھ خاموشی سے مرتا رہے گا اور ہم سب صرف تماشائی بنے رہیں گے۔ یاد رکھیں "ایک اسپتال صرف عمارت نہیں ہوتا، بلکہ وہ امید کی آخری سانس ہوتا ہے جب یہ سانس بجھ جائے، تو قومیں مرنا شروع کر دیتی ہیں”۔