حضرت مولانا راحت گل: ایک ممتاز عالم، مخلص ثالث، زندہ دل سیاح، بالغ نظر سیاست دان اور ایک بہترین منتظم۔

کچھ عرصہ قبل اپنے تعلیمی ڈاکومنٹس کو الٹ پلٹ رہا تھا کہ اچانک اس سرٹیفکیٹ پر نظر پڑی جو آج سے دو عشرے پہلے ملک کے مایہ ناز عالم، سیاح، سیاستدان، خطیب اور دانشور حضرت مولانا راحت گل مرحوم نے عطا کیا تھا۔ یہ دیکھنا ہی تھا کہ میں تصور ہی تصور میں اپنی زندگی کے خوبصورت ترین دور میں ریورس ہو کر گویا کھو گیا۔ اے کاش! ہم عملاً بھی زندگی میں ایک دو بار ریورس ہو پاتے تو میں لازم مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد چلا جاتا اور واپس ہونے سے انکار کر دیتا۔ مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد کی صبح و شام میں کتنی خوشی، دن رات میں کتنا سکون، درس و تدریس کی کلاسوں میں کتنی رونق، دوستوں کی محفلوں میں کتنی آسودگی، تربیتی پروگراموں میں کتنا جوش و خروش اور تکرار کے حلقوں میں کتنی گرما گرمی ہوتی تھی۔

حضرت مولانا راحت گل میری زندگی میں آنے والے اور دل میں اترنے والے افراد میں، نمایاں حیثیت کے حامل انسان تھے۔ آپ محض ایک فرد نہیں، پورا ایک اداراہ تھے، صرف ایک عالم نہیں بلکہ زندہ و تابندہ تحریک تھے۔ آپ کی شخصیت نے ایمان، علم، بصیرت، اعتماد، ہمت، مستقل مزاجی، خوش مزاجی، نظم و ضبط، ذہانت و فطانت اور محبت و شفقت سے تشکیل پائی تھی۔ تعلق بنانے پھر خلوص سے نبھانے اور بالآخر اسے کسی اچھے مقصد سے جوڑنے میں آپ کو جو کمال حاصل تھا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا کوئی دوسرا فرد نہیں دیکھا۔ آپ کی باتوں میں سحر، محفلوں میں سکون، رہنمائی میں روشنی اور قربت میں خوشبو، لوگوں کو ٹھیک ٹھاک اپنے حصار میں لے لیتے تھے۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب پشاور یونیورسٹی کے قریب واقع، خیبر پختونخوا کے معروف دارلعلوم "مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد” کے بانی مہتمم تھے، آپ کئی برس تک صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے چیف خطیب کے منصب پر فائز رہے۔ آپ کا آبائی تعلق اگر چہ نوشہرہ سے تھا لیکن زندگی کا بڑا حصہ پشاور میں بسر کیا۔ امن و امان کے حوالے سے بدنام زمانہ مقام پلوسی کی جانب جانے والی سڑک کے پاس ایک ایسی جگہ آکر بیٹھ گئے جہاں لوگوں کے لیے رہنا تو درکنار، گزرنا بھی مشکل تھا میں ایک حد درجہ پر اعتماد اور جاذب شخصیت کو دیکھ کر لوگوں کے لیے ایک ویران سی جگہ میں ایسی کشش پیدا ہو گئی کہ لوگ آتے گئے، آباد ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ ایک جنگل نما جگہ روشن بستی میں بدل گئی، آج راحت آباد پشاور کا ایک خوبصورت اور پر رونق مقام بن گیا ہے۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب نے 1969ء کو مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد کی بنیاد رکھی اور اس کو صوبے کا ایک نمایاں دارالعلوم بنانے میں دن رات ایک کر دیئے۔ مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد خطے میں طلبہ علومِ نبوت کے لیے ایک دل پسند مقام کی حیثیت رکھتا ہے، خیبرپختونخوا اور افغانستان کا شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں کی نمائندگی مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد میں نہ ہو۔ مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد معروف معنوں میں روایتی مدرسہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کا ایک ایسا زبردست مرکز بن چکا ہے جہاں جدید و قدیم علوم کا ایک حسین امتزاج قائم ہے۔ مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد سے ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل طلبہ ملک اور بیرون ممالک کی نمایاں یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں جیسے اب مختلف مقامات پر ذمہ دارانہ مناصب پہ فائز ہو کر دین و ملت کی بہترین خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ خاکسار کو بھی مرکز علوم سے، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں جانے کا موقع میسر آیا تھا۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب تقریر و تحریر دونوں میدانوں کے یکساں شاہسوار تھے۔ آپ طویل عرصہ صوبہ سرحد کے چیف خطیب رہے جبکہ "جماعت اسلامی کا تنہا مسافر” اور "جہاد افغانستان کا یکتا مجاہد” جیسی مقبول کتب ضبط تحریر میں لائے ہیں ان کے علاؤہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی معرکہ آرا تفسیر "تفہیم القرآن” کا پشتو زبان میں ترجمہ بھی کیا، ان کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں مختلف اصلاحی، علمی، سیاسی اور تعمیری موضوعات پر پمپلٹس بھی تحریر اور شایع کیے ہیں۔

مولانا راحت گل مرحوم کا مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے طویل خط و کتابت کا سلسلہ "جماعت اسلامی کا تنہا مسافر” نامی کتاب کا حصہ ہے جو حد درجہ دلچسپ اور تاریخی نوعیت کا ہے۔ آپ اس نظریے کے عالمبردار تھے جس میں دین و دنیا اور سیاست و اقدار ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر آگے بڑھتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی بھی تفاوت در نہیں آتی۔ آپ دین و دنیا کی جدائی اور سیاست و اقدار کی دوری کو فساد کی جڑ قرار دیتے۔ آپ صرف ملکی سیاست اور تاریخ کے ہی شناور نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست اور احوال کا بھی گہرا ادراک رکھتے تھے۔

مولانا راحت گل روس کے جابرانہ اقدامات اور مغرب کے شاطرانہ چالوں کا بیک وقت شدید ناقد رہے نیز کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو انسانیت کے لیے زہر قاتل سمجھتے رہے اور اس حقیقت پر اصرار کرتے رہے کہ انسانیت کے فلاح و بہبود صرف اور صرف اسلامی نظام میں یقینی ہیں۔ کہا کرتے تھے "روس اور اسرائیل کے علاؤہ پوری دنیا کو دیکھا، کسی حد تک سمجھا اور کافی کچھ برتا ہوں”۔ سعودی عرب اور برطانیہ دونوں کو مرغوب رکھتے تھے، برس ہا برس رمضان المبارک کا آخری عشرہ حرمین شریفین میں گزارنے کا معمول رہا۔ بین الاقوامی اسفار سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات جب کبھی بیان کرنے لگتے تو حکمت و دانش کے چشمے بہاتے اور دل کرتا تھا کہ بس وہ بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔

مولانا راحت گل ایک بہت ہی حساس، بیدار مغز اور باہمت رہنما تھے۔ ہر اہم قومی، بین الاقوامی اور عالم اسلام سے متعلق ایشو پر فوراً مرکز علوم اسلامیہ میں کانفرنس بلاتے اور ایسی شخصیات کو مدعو کرتے جن سے عوام اور حکومت دونوں کو بہترین رہنمائی فراہم ہوتی۔ میں اس قسم کے بے شمار کانفرنسوں کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس طرح جب عالم اسلام کی سرکردہ شخصیات پاکستان کے دورے پر آتی تو ان کی بھرپور کوشش ہوتی کہ انہیں مرکز میں بلائیں تاکہ باہمی افہام و تفہیم اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھلیں۔

تفہیم القرآن کے بارے میں مولانا محترم لکھتے ہیں۔۔۔

"1961 کے موسم سرما کی صبح تھی۔ پشاور یونیورسٹی کی عظیم اور پر جلال مسجد میں نماز فجر سے فراغت کے بعد درہ خیبر سے چلنے والی سرد ہواؤں کی تاب نہ لاتا ہوا واپس جائے قیام پر آیا تاکہ کمرے میں بیٹھ کر تلاوت کروں۔
اپنے میزبان سے پوچھا: قرآن مجید ہے ؟؟
"جی ہاں اپ کے سرہانے میز پر رکھا ہے”۔ میزبان نے بتایا۔

ہاتھ بڑھایا، اٹھایا، کھولا تو۔۔۔۔ تفہیم القران جلد اول و سوئم ابوالاعلیٰ مودودی

جی میں آیا کہ رکھ دوں، کیونکہ یہ نام دیکھتے ہی وہ ساری باتیں دماغ میں گھوم گئیں جو ان کے بارے میں سنتا رہا تھا۔ میں نے سوچا ایسے شخص کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہئے۔
لیکن مجھے قران مجید کی تلاوت کرنی تھی اور اس طرح قرآن ہی اس موقع پر جھوٹ اور سچ کو علیحدہ کر کے دکھانے کی بنیاد بنا۔
میں متن کی تلاوت کر رہا تھا اور ترجمہ کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔
تلاوت ختم کرچکا تو ناشتہ میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی، مودودی صاحب نے اپنی طرف سے کیسا ترجمہ کیا ہے؟ ایک صفحہ پڑھا… پھر دوسرا… تیسرا اور چوتھا۔ دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ باتیں کیا پھیلائی جا رہی تھیں اور آنکھیں کیا دیکھ رہی تھیں۔ میں خیالات کی دنیا میں گم ہوگیا۔
"ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے” کے الفاظ نے مجھے جھنجھوڑا لیکن ناشتے کے دوران بھی ذہن کسی اور دنیا میں گھوم رہا تھا۔سوچا، کئی ترجمے اور تفاسیر دیکھ چکا ہوں مگر ” ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ” کے مصداق یہ ترجمہ کچھ اور ہی مزہ رکھتا ہے۔
عام فہم اتنا کہ وقت کی ضرورت کے بھی عین مطابق ہے اور نئی نسل کے مزاج کو بھی قران کی طرف موڑ سکتا ہے۔غیر عربی دان اور ترجمہ قران کے اصول و قواعد سے نابلد اشخاص قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھتے ہوئے جو دقت محسوس کرتے ہیں، تفہیم القرآن میں وہ دِقّت بھی نہیں یے۔ موجودہ سائنسی اور ایٹمی دور میں بے شمار جدید مسائل کے پیدا ہونے سے بظاہر جو الجھنیں نظر آتی ہیں، تفہیم القرآن انہیں حل کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے دکھائی دیتی ہے۔ یہ اسلام سے فرار کی تمام راہیں مسدود کر دیتی ہے۔
اگر تعلیم جدید کے دلدادگان اور مغربی دانشوران، فلسفیوں، قانون دانوں اور آئین سازوں سے مرعوب ہونے والے افراد صاف ذہن لے کر تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ قرآن ہر دور کے مسائل اسی طرح حل کر سکتا ہے جس طرح اس نے اپنے زمانہ نزول میں پیش آمدہ مسائل کو حل کیا تھا۔ قرآن آج بھی مسلمانوں کو وہی عظمت بخش سکتا ہے جو خیر القرون اور اس کے بعد کے زمانے کے مسلمانوں کو بخش چکا ہے۔
ان خیالات کے ساتھ ایک رشک آمیز لہر بڑی تیزی کے ساتھ پورے بدن میں سرایت کر گئی۔
مولانا صاحب کے ساتھ پشتو ترجمہ تفہیم القران کے حوالے سے خط و کتابت بھی ہوئی۔
مولانا مودودیؒ کے ساتھ یہی پہلا تعارف ہے جو تفہیم القران کے ذریعے ہوا۔ پھر مزید مطالعہ نے وہ تمام شکوک و شبہات کافور کر دیے جو مولانا مودودیؒ کے بارے میں میرے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے”۔ (جماعت اسلامی کا تنہا مسافر)

حضرت مولانا راحت گل صاحب کی اگر چہ طویل وابستگی جماعت سے رہی تھی اور اس میں بھی شک نہیں کہ حد درجہ مخلصانہ رہی بلکہ شدید مخالفانہ ماحول (اکوڑہ خٹک) میں جماعت کی حمایت تھن من دھن سے جاری رکھی لیکن زندگی کے آخری برسوں میں بوجوہ تحریک سے ناراض ہوئے اور یوں علیحدگی کا تکلیف دہ لمحہ ہمارے دیکھا دیکھی چلا آیا۔ مجھے بار بار کہا کہ "عنایت! میں اس اقدام پر بالکل خوش نہیں ہوں اور بڑی تعداد میں میرے رفقاء اور احباب بھی اس فیصلے پر ناخوش ہیں اور اس سے بھی بڑی تعداد میں لوگ مجھے ٹیلی فون کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس کہ جماعت نے میری شکایات سننے کے بجائے رابطے ہی منقطع کر دیئے جو کہ میرے لیے درینہ تعلق کی بدولت حد درجہ صدمے کا باعث بنا”۔

میرا خیال ہے انسانوں کے درمیان تعلق کی خرابی میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کو خاص عمل دخل حاصل ہے۔ اے کاش! لوگ بروقت ایک دوسرے کی شکایات سنے اور اصلاح احوال کے خاطر مخلصانہ اقدامات اٹھائے تو یوں عشروں پر محیط رفاقتیں کبھی دم نہ توڑتی۔ مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد عشروں تک اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبہ عربیہ کی تربیتی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ میں نے اپنے پانچ سالہ دور طالب علمی میں ایسے بے شمار پروگراموں کے انتظام و انصرام میں ہاتھ بٹایا، میں نے کئی مرتبہ بطورِ منتظم حلقہ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو مختلف موضوعات پر دینی مدارس کے طلبہ کو مخاطب ہونے کا موقع دیا۔ اس طرح کے پروگراموں کو میں نے دونوں حلقوں کے درمیان صحت مندانہ مفاہمت کے تناظر میں حد درجہ مفید پایا۔ لیکچرز کے بعد سوال و جواب کی نشست ہم ضرور رکھتے تاکہ ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھنے کا ماحول بن سکے۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب کے مدرسے میں مجھے پانچ سال (1999 سے 2004 تک) پڑھنے کا موقع میسر آیا ہے۔ آپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے، میں دوسرے طلبہ کی نسبت آپ سے زیادہ قریب تھا یہی وجہ تھی کہ مجھے سفر و حضر، محفلوں، خطبوں اور ملاقاتوں نیز مختلف پروگراموں میں مشترکہ شرکت کی بدولت زیادہ استفادے کا موقع ملا۔ مرحوم دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی نہ صرف بھرپور حوصلہ افزائی فرماتے بلکہ اپنے ادارے میں اس کے لیے خاص انتظامات بروئے کار لائے تھے۔ طلبہ کو ہمیشہ اپنے خطبات میں یوں مخاطب کرتے کہ ” آگر اپنا مستقبل روشن اور دنیا میں اپنی قدر و قیمت بڑھانا چاہتے ہوں تو اپنی اہلیت اور صلاحیت کا لوہا منوا لوں، وقت ہرگز ضائع نہ کریں اور صحت کو خراب کرنے والی تمام عادتوں اور سرگرمیوں سے ہمیشہ بچ کر گزرے ورنہ ندامت دل میں ایسی اتری گی کہ پھر زندگی بھر نہیں نکلے گی”۔

2002 کو ایک سڑک حادثے میں مرکز علوم اسلامیہ کے ناظم، ایک باصلاحیت اور ہردلعزیز شخصیت محی الدین کی اچانک وفات نے ہم سب کو گہرے صدمے سے دو چار کیا، اس واقعے پر دکھ اور احساس کی شدت سے میں نے مولانا محترم کو بالکل تڑپتے دیکھا۔ آپ نے نہ صرف مرحوم کی صلاحیتوں اور خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا بلکہ اس کے خاندان سے بھرپور ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ کہتے تھے "محی الدین کی وفات دارلعلوم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے”۔ محی الدین کی وفات کے چند دن بعد مجھے بلایا اور کہا "میں عنقریب دوسرے ناظم کا انتظام کروں گا لیکن جب تک کوئی دوسرا نہیں آتا آپ بعض انتظامی معاملات میں تعاون کریں لیکن یاد رکھے اس ذمہ داری میں آپ کی پڑھائی کا حرج بالکل نہیں ہونا چاہیے، آپ کی پہلی اور بنیادی ترجیح پڑھائی ہونی چاہیے، ہم آپ پر زیادہ بوجھ قطعاً نہیں ڈالیں گے”۔ میں نے بخوشی حامی بھری اور یوں میں مولانا محترم کے اور زیادہ قریب آگیا، انہوں نے ہمیشہ مجھے بہترین نصیحتوں سے نوازا، مجھ پر ہر دم مہربان رہے اور جب کبھی کوئی درخواست رکھی تو بالکل باپ جیسی شفقت سے قبول کرتے۔ کہتے تھے عنایت! ایک ذمہ دار فرد کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ معاملات میں سختی اور تعلقات (اخلاقیات) میں نرمی سے کام لیتا رہے۔ معاملات میں نرم پڑنا اور تعلقات میں بے جا سختی سے خرابیاں جنم لیتی ہیں”۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب 21 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود، میری یادوں اور دعاؤں میں آج بھی زندہ و تابندہ ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں آپ مجھے یاد نہیں آ رہے۔ میرے والدین سے ٹیلی فون پر بے تکلف گپ شپ کرتے اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے۔ حضرت مولانا راحت گل صاحب ہمدرد کے زیر اہتمام ہفتہ وار پروگرام "شام ہمدرد” کے باقاعدہ مقرر تھے۔ آپ مجھے اکثر ساتھ لے جاتے۔ اس موقع پر کی گئی تقاریر میں ان کے وسیع و عریض مطالعے اور جاندار و باریک مشاہدے سے کبھی کبھی دم بخود رہ جاتا۔ مجھے مولانا محترم کی معیت میں مختلف نامور شخصیات سے ملنے کے مواقع میسر آئیں ہیں مثلاً سابق گورنر کے پی کے جنرل (ر) افتخار حسین شاہ مرحوم، جنرل نصیر اللہ بابر مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا فضل الرحمن صاحب، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق، مولانا عبد الاکبر چترالی، محترم اجمل خٹک مرحوم، مایہ ناز عالم مولانا حسن جان مرحوم، سابق چیف سیکرٹری کے پی کے محترم عبد اللہ صاحب، مختلف امریکی اور یورپی صحافیوں سمیت دوسری بین الاقوامی شخصیات سے ملا ہوں۔

مرکز علوم اسلامیہ کے طلبہ سے حضرت مدیر (مولانا راحت گل مدرسے میں مدیر صاحب کے نام سے معروف تھے) کا سلوک بہت ہی مشفقانہ اور رحم دلانہ ہوتا تھا۔ وہ دل و جان کی اتھاہ گہرائیوں سے آرزو مند اور کوشاں تھے کہ ان کے ادارے سے منسلک طلبہ بہترین تعلیم و تربیت پا کر ایک اچھی اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں نہ صرف یہ بلکہ انہیں طلبہ کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی بھی فکر لاحق رہتی تھی اور اپنی زندگی کے نوع بہ نوع تجربات سے مثالیں دے دے کر طلبہ کو سمجھاتے کہ کامیابی کو پانا کس طرح سے ممکن ہوگا۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم جو حد درجہ شوخ و شنگ لیکن کمال کا ذہین و فطین اور خوش آواز نوجوان تھا حضرت مدیر کو وہ بہت عزیز تھا اس کو وقت بہ وقت بلاتے اور موقع کی مناسبت سے کبھی قرآن کریم کی تلاوت، کبھی نعت رسول مقبول سنا کرتے تھے اور اس سے بے تکلف گپ شپ بھی کرتے تھے۔ اس طرح ضلع دیر بالا سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم احسان اللہ جو کمپیوٹر کے ماہر تھے اور ایک تیز و طرار اور باصلاحیت نوجوان تھا وہ بھی اپنی خوبیوں کی بدولت حضرت مدیر صاحب کو بہت عزیز تھے اور اس کو گویا اپنے معاون خصوصی کا درجہ دیا تھا آئیے حضرت مدیر صاحب کے بارے میں اس کے تاثرات ملاحظہ کرتے ہیں وہ بتاتا ہے!

"اللہ تعالیٰ مدیر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ بندہ ناچیز کے سر پر ہمیشہ شفقت کا ہاتھ رکھا، اپنے بچوں سے بڑھ کر محبت دی، ہر معاملے میں مکمل اعتماد اور ہر موقع پر رہنمائی فرمائی، میرے زندگی میں میرے والدین سے زیادہ شفقت اور حوصلہ جو مجھے ملا “مدیر” صاحب سے ہی ملا، آج میں جس مقام پر ہو یہ انہی کی بدولت ہے بس اگر مجھے پچھتاوا ہے تو اس بات پہ کہ ان کے آخری ایام میں ان سے غیر حاضر رہا”۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب کا اصل ورثہ محض ایک عمارت یا ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک زندہ فکر اور عمل کا ایک تسلسل ہے۔ آج بھی جب کوئی طالب علم مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد کے احاطے میں قدم رکھتا ہے تو وہ آپ کے قائم کردہ نظم و ضبط، علم کے جدید و قدیم امتزاج، اور خلوص پر مبنی ماحول کو محسوس کر سکتا ہے۔ آپ نے جو بیج بویا تھا، وہ آج ایک تناور درخت کی شکل میں پورے خطے میں پھیل چکا ہے۔ آپ کے ہزاروں شاگرد ملک و بیرون ملک دین و ملت کی مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اور یہی آپ کی کاوشوں کی حقیقی کامیابی اور زندہ و جاوید نشانی ہے۔ آپ کی زندگی کا یہ پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا کہ علم کو عمل سے، ایمان کو جدوجہد سے، اور محبت کو خلوص سے ہم آہنگ کر کے ہی ایک بہتر معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب کی شخصیت ایک نایاب ہیرے کی مانند تھی جس کے مختلف پہلو تھے۔ ایک طرف جہاں آپ ایک سخت گیر منتظم تھے، وہیں طلبہ کے لیے شفیق باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ ایک صوفی منش درویش بھی تھے اور ایک کھرا سیاستدان بھی۔ آپ کے خطبات میں جہاں جہاد کا جوش تھا، وہیں آپ کی محفلوں میں سکون و وقار کی کیفیات بسی ہوئی تھیں۔ یہی جامعیت آپ کی شخصیت کا حقیقی کمال تھی۔ آج ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم آپ کے علمی، اخلاقی اور تحریکی ورثے کو سمجھیں، اس سے استفادہ کریں اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہی آپ کے ساتھ سچی عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتیں عطا کی تھیں، اور آپ نے انھیں حق اور خلق کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ایسی ہستیوں کو زمانہ کبھی فراموش نہیں کر پاتا۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علم و حلم، عزم و ہمت، احساس و ادراک، انتظام و انصرام، ذہانت اور فطانت میں سے وافر حصہ عطا کیا تھا۔ آپ نے حیات مستعار کے ایک ایک لمحے کی قدر کرتے ہوئے اسے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ نیک اور لائق انسانوں کے دل سے قدردان تھے جبکہ ضررناک قسم کے لوگوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ کہتے تھے "میں عزت میرٹ پر دیتا ہوں، جو جتنی عزت کا مستحق ہوتا ہے میں اسے اتنی عزت دیتا ہوں کم یا زیادہ نہیں”، کہتے تھے "لائق اور نیک طالب علم کی مثال درست بلب جیسی ہے جو گھر میں اچھے مقام پر لگتا ہے جبکہ نالائق اور شریر طلبہ کی مثال جلے ہوئے بلب جیسی ہے جس کا انجام ہمیشہ کوڑا کرکٹ کی ڈھیر بنتی ہے۔ کہتے تھے "مدرسے میں آنے والا ہر طالب علم پڑھنے والا نہیں ہوتا، بعض طالب علم ارادی طور پر نہیں بلکہ حادثاتی طور پر مدارس کا رخ کرتے ہیں ان کا پڑھائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اس لیے یہ لازم ہے کہ پڑھنے والوں کو نہ پڑھنے والوں سے بچایا جائیں”۔

حضرت مولانا راحت گل مرحوم کے بڑے صاحب زادے مولانا سید العارفین ان کے جانشین اور مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد کے مہتمم ہیں جبکہ چھوٹے صاحب زادے مولانا قاری شبیر احمد الازہری ان کے شریک و معاون ہیں۔ دونوں باوقار اور صاحب علم و فضل بھائیوں نے اپنے عظیم والد کے عظیم مشن کو آگے بڑھانا زندگی کا مقصد بنایا ہے اور اس پر پورے عزم سے کار بند ہیں ۔اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنی خصوصی مدد و نصرت سے نوازیں۔ ان کے علاؤہ حضرت مدیر صاحب نے اپنا پورا خاندان دین اور علم کے راستے پر گامزن چھوڑا ہے ان کے سب عزیز و اقارب انتہائی خوش اخلاق، لائق و فائق اور شریف و نیک خو ہیں اللہ تعالیٰ سب پر اپنی رحمتوں کا سایہ دراز رکھے اور ان کو دین و دنیا کی سعادتوں سے سرفراز فرمائیں۔

حضرت مولانا راحت گل صاحب مرحوم و مغفور، یا اللہ انہیں جنت الفردوس کا باسی بنا دیں اور دین و علم دین کے لیے ان کی جد و جہد کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے