رفتار کی راہ پر: عرشیہ اختر کا حوصلہ، جدوجہد اور عالمی موٹرسپورٹ میں تاریخی سفر

وہ تیز سوچتی ہیں اور فیصلے بھی اسی سرعت سے لیتی ہیں۔ اپنے راستے خود بناتی ہیں اور ان پر اس رفتار سے آگے بڑھتی ہیں جس کا تعین وقت نہیں خود ان کا شعور کرتا ہے۔ عورت ہمیشہ سے تخلیق، جستجو اور طاقت کی علامت رہی ہے ایسی طاقت جو نرمی کو کمزوری اور خاموشی کو بے بسی سمجھنے سے انکار کرتی ہے۔ جب وہ کسی خواب کو دل میں جگہ دیتی ہے تو اس کے پیچھے صرف جذبات نہیں ہوتے ایک منظم حکمتِ عملی، مستقل مزاجی اور صبر کا سمندر بھی شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عورت کسی شعبے میں قدم رکھتی ہے، تو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتی ہے اور روایتوں کو نئے معانی دیتی ہے۔ چاہے وہ سائنس کی تجربہ گاہ ہو، فن کا اسٹیج ہو، سیاست کا ایوان ہو یا پھر تیز رفتاری سے بھرا ریسنگ ٹریک ہر میدان میں یہ ثابت کیا کہ صلاحیت صنف کی محتاج نہیں۔

اسی حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں عرشیہ اختر، ایک پاکستانی خاتون جنہوں نے عالمی موٹرسپورٹ میں قدم رکھتے ہی اپنی رفتار، فہم اور حوصلے سے نئی تاریخ رقم کی۔ جب منزل کا خواب واضح ہو، تو راستے خود بہ خود سامنے آنے لگتے ہیں۔ عرشیہ اسی یقین، عزم اور جنون کی علامت ہیں۔ انہوں نے وہ مقام حاصل کیا جو اب تک کسی پاکستانی خاتون کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ 27 جون 2025 کو وسکونسن کے روڈ امریکہ ریس ٹریک پر ان کی فارمولا ریس میں شرکت محض ایک دوڑ نہ تھی بلکہ ایک پوری قوم کے لیے افتخار اور نئی امیدوں کا پیغام تھی۔ ان کی ہر پیش قدمی صرف تیز رفتار گاڑیوں کے شور میں نہیں گونجتی ان کے عزم، علم اور محنت کی ایک دلیر داستان بھی سناتی ہے۔ یہ کہانی صرف انفرادی کامیابی کی ہے بلکہ ان تمام خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے جو غیر روایتی میدانوں میں اپنی شناخت قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔

عرشیہ کا کار ریسنگ سے تعلق بچپن میں ریاض کے ایک کارٹنگ ریس ٹریک پر جا کر قائم ہوا۔ اس معصوم سی دلچسپی نے آنے والے برسوں میں ان کے جنون اور پیشہ ورانہ کیریئر کی بنیاد رکھی۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ ایک ایسی بچی، جس کی والدہ اور بہن کو ڈرائیونگ لائسنس تک حاصل نہ تھا، مستقبل میں دنیا کی تیز ترین ریسنگ ٹریکس پر دوڑتی گاڑیوں کے درمیان اپنی مہارت کا لوہا منوائے گی۔ یہ ابتدائی جھلک ایک بڑے خواب کی پہلی کرن تھی، جو دو دہائیوں کی مسلسل محنت، مشق اور قربانیوں کے بعد قابلِ فخر حقیقت بن گئی۔

لاہور میں پیدا ہو کر سعودی عرب میں پرورش پانے والی عرشیہ نے 2017 میں امریکہ کا رخ کیا۔ یہ قدم صرف جغرافیائی تبدیلی نہ تھا بلکہ خوابوں کے تعاقب میں ایک جست تھی۔ امریکہ میں وہ ایک طرف کلینیکل ریسرچ میں کل وقتی ملازمت کرتی تھیں، اور دوسری طرف موٹرسپورٹ کا خواب پورا کرنے کے لیے ٹریکس اور سیمولیٹر پر گھنٹوں گزارتی تھیں۔ ان کے دن کا آغاز صبح سویرے ہوتا، ریسنگ کالز اور سپانسرز سے گفتگو، دن بھر تحقیقی کام، شام کو ورزش، کتوں کی سیر اور ریسنگ کی مشق یہ معمول بتاتا ہے کہ کامیابی کے پیچھے کتنی محنت، منصوبہ بندی اور نظم و ضبط کارفرما ہوتا ہے۔

2025 کے آغاز میں انہوں نے فارمولا ریس پروموشنز ٹیم کے ساتھ مقابلوں کا آغاز کیا، اور پورے سیزن میں تسلسل کے ساتھ عمدہ کارکردگی دکھا کر پوائنٹس ٹیبل پر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ یہ کامیابی نہ صرف کسی ریس میں جیت تھی یہ سسٹم کا حصہ بننے اور خود کو منوانے کا عملی ثبوت تھی۔ اس کے پیچھے ان کی رفتار کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی لگن، تکنیکی فہم اور حکمتِ عملی بھی شامل تھی۔ ان کے کوچ ناتھن برڈ کے مطابق، وہ کم وقت میں سیکھنے، رائے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں جو کسی بھی عالمی معیار کے ڈرائیور کے لیے بنیادی عنصر ہے۔

ایف آئی اے سے پروفیشنل لائسنس حاصل کرنا ایک محنت طلب، وقت گیر اور تکنیکی عمل ہے، جسے عرشیہ نے استقامت کے ساتھ مکمل کیا۔ انہوں نے قواعد، گاڑی کی ساخت، سیفٹی معیارات اور ریس کیٹیگریز کا تفصیلی مطالعہ کیا اور امتحانات کے ذریعے خود کو اہل ثابت کیا۔ اس وقت ان کے پاس FIA گریڈ C لائسنس ہے، اور وہ گریڈ B کی جانب گامزن ہیں جو سپر لائسنس سے محض ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ جیت نہ صرف انفرادی ہے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے، جہاں ایک پاکستانی خاتون عالمی سطح پر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

اس پورے سفر کا سب سے بڑا چیلنج اجنبی میدان تھا۔ جب وہ کسی نئے ٹریک پر پہنچتیں تو اکثر یہ ان کا پہلا تجربہ ہوتا، جبکہ دوسرے ڈرائیورز پہلے کئی بار اس پر دوڑ چکے ہوتے۔ ایسے میں ان کی تیاری نہ صرف جسمانی ہوتی تھی یہ ذہنی سطح پر بھی بھرپور ہوتی۔ وہ گھنٹوں سیمولیٹر پر ٹریننگ کرتیں، ریسنگ لائنز اور کورنرز کا تجزیہ کرتیں، مگر وہ تسلیم کرتی ہیں کہ مشق اور حقیقت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ ٹریک پر قدم رکھتیں، فیصلے لمحہ بہ لمحہ بدلتے، اور وہی لمحے اصل مہارت کا امتحان بنتے۔

موٹرسپورٹ جیسے مہنگے کھیل میں سپانسرز اور وسائل کا ہونا ضروری ہے، تاہم عرشیہ نے اب تک زیادہ تر اخراجات کا بندوبست خود کیا ہے۔ یہ مالی چیلنج ان کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکا۔ اگر ہم غور کریں تو ان کا مقصد یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر اندر صلاحیت اور خود اعتمادی ہو، تو کوئی رکاوٹ مستقل نہیں رہتی۔ 2023 کی ایک عالمی تحقیق کے مطابق خواتین ریسنگ ڈرائیورز کی تعداد صرف 10 فیصد ہے۔ عرشیہ کی موجودگی اس رجحان میں تبدیلی کی جانب ایک نمایاں قدم ہے۔

رنگا رنگ دلچسپیوں سے بھرپور شخصیت کی حامل عرشیہ صرف فارمولا ای جیسے جدید ترین الیکٹرک ریسنگ فارمیٹ میں مہارت نہیں رکھتیں، وہ گھڑسواری، سنو بورڈنگ، اسکائی ڈائیونگ اور اسکوپا ڈائیونگ جیسی مہم جو سرگرمیوں میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔ ان کی یہ ہمہ جہت شخصیت ظاہر کرتی ہے کہ جذبہ اور جرات کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتی۔ ان کی تعلیمی کامیابیاں، جن میں سائنسی تحقیقی مضامین کی اشاعت بھی شامل ہے، ان کے علم و فہم کا ثبوت ہیں۔

عرشیہ کی مثال ان تمام پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے جو خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، لیکن اکثر ان خوابوں کو تعبیر کی سانس نہیں ملتی۔ انہوں نے نہ صرف خود کے لیے نئی راہیں بنائیں بلکہ آنے والی نسل کو بھی دکھا دیا کہ وہ ڈرائیور، انجینئر، ٹیکنیشن یا مینیجر بن کر موٹرسپورٹ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، "ہم اپنے طور طریقے خود بناتے ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو نارمل مان کر کریں تو وہ وقت کے ساتھ نارمل ہو جاتی ہے۔” یہی سوچ ان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔

عرشیہ اختر کی داستان میں رفتار ہے، مگر یہ رفتار صرف گاڑیوں کی نہیں، سوچ کی تبدیلی، معاشرتی قیود کو توڑنے اور نئی راہیں بنانے کی بھی ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ کوئی حد اتنی بلند نہیں کہ عبور نہ کی جا سکے اور کوئی خواب اتنا بڑا نہیں کہ حقیقت کا روپ نہ دھار سکے، بشرطیکہ حوصلہ، محنت اور استقامت ساتھ ہوں۔ ان کی جدوجہد، کامیابیاں اور طرزِ فکر آنے والے وقت میں ہزاروں لڑکیوں کے خوابوں کو نئی جان بخشیں گے۔

اب ایک اور سچ کی طرف آتے ہیں، اور وہ یہ کہ خوابوں کی تعبیر انہیں نصیب ہوتی ہے جو نہ صرف خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھیں بلکہ ان کی تعبیر کے لیے بھی دن رات کی محنت کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ تاہم افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشتر خواتین کو خواب دیکھنے کا موقع ہی میسر نہیں ہوتا یا تو وہ اجازت کے محتاج بن جاتی ہیں، یا زندگی کی تلخ حقیقتوں میں الجھ کر اپنے خوابوں کو خاموشی سے دفن کر دیتی ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ معاشی تنگی ہوتی ہے یعنی وہ غربت جو نہ صرف خواتین کے فیصلوں کو محدود کرتی ہے، بلکہ ان کے امکانات اور صلاحیتوں کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔

اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو ہمیں اپنے ملک میں لاکھوں ایسی خواتین نظر آئیں گی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود مختلف ہنر رکھتی ہیں جیسے سلائی، کڑھائی، کھانا پکانا، ڈیزائننگ، بیوٹی سروسز، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، یا ہاتھ سے بنی اشیاء کی تیاری۔ اگر ان ہنروں کو منظم طور پر کاروبار کی شکل دی جائے، اور خواتین یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ صرف گھر کے دائرے تک محدود نہیں رہیں گی وہ اپنے گھر سے ہی چھوٹا سا ذاتی کاروبار شروع کریں گی، تو یہ قدم نہ صرف ان کی ذاتی زندگی میں خوشحالی لا سکتا ہے بلکہ ان کے خاندان، محلے اور پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔

یہ خیال سننے میں شاید ابتدا میں مشکل لگے، مگر اگر ہر خاتون محض چھوٹے پیمانے پر شروعات کرے جیسے ہوم بیسڈ کھانے کی ڈیلیوری، بیوٹی سروسز، کپڑوں یا دستکاری کی آن لائن فروخت، یا فری لانسنگ تو یہی چھوٹا قدم آگے چل کر معاشی خودمختاری میں بدل سکتا ہے۔ اس سفر میں تسلسل، سیکھنے کا جذبہ اور خود پر یقین ہی اصل کلید ہے۔ایسی خواتین کی زندگیوں سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ کامیابی کا انحصار نہ کسی بڑے سرمائے پر ہوتا ہے، نہ ہی کسی بڑے شہر میں موجود ہونے پر۔ اصل سرمایہ ہنر، ارادہ اور مستقل مزاجی ہے۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ خواتین اپنے ہنر اور وقت کو ضائع نہ ہونے دیں، بلکہ اسے اپنی پہچان کا ذریعہ بنائیں۔ حکومت، تعلیمی ادارے، اور نجی تنظیمیں اس سفر میں معاون بن سکتی ہیں، لیکن اصل اور پائیدار تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب خواتین خود اپنی اہمیت کو تسلیم کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ اب اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں گی۔ اگر پاکستان کی ہر عورت یہ ارادہ کر لے کہ وہ نہ صرف مسائل کا شکار بلکہ ان کا حل بنے گی، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کی گلیوں، قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں ایسی بے شمار کامیاب کہانیاں جنم لیں گی جنہیں نہ صرف دنیا سنے گی بلکہ سراہے گی۔

یہ کوئی دعویٰ نہیں یہ میرا پختہ یقین ہے۔ کیونکہ جب ایک عورت خواب دیکھتی ہے، تو وہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے بچوں، اپنے خاندان، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک نئی دنیا کا خواب دیکھتی ہے۔ اور جب وہ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے کمر کس لیتی ہے تو پھر نہ غربت دیوار بن پاتی ہے، نہ کوئی پرانی روایت رکاوٹ۔ پھر ہر خواب، حقیقت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے