بودھی درخت، بہار سے ٹیکسلا تک

اکتوبر کی نرم دھوپ میں ہلکی ہوا رُک رُک کر چل رہی تھی ۔ صبح کے وقت ،سرما کی پہلی بارش کے بعد نرم دھوپ بھلی لگ رہی تھی جب میں ٹیکسلا میوزیم پہنچا ۔ٹیکسلا میوزیم سے متصل باغ میں لگے پرانے اور بوڑھے درختوں پر پرندوں کی دلربا چہچہاہٹ نے استقبال کیا ۔میں چلتے چلتے ایک درخت کے قریب پہنچ گیا ۔درخت کے اردگرد ایک ریلنگ لگی ہوئی تھی ۔میرے چاروں طرف خاموشی تھی۔ درخت کے گرد لگی ہوئی لوہے کی ریلنگ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر ،میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔تب اچانک مجھے یوں لگتا ہے جیسے زمانوں کی طنابیں سمٹ گئی ہیں اور وقت الٹے پاؤں لوٹ گیا ہے۔

534 ق م میں ویساکھ کا مہینہ تھا ،پورے چاند کی تاریخ تھی۔ سدھارتھ کو،بھوک پیاس اور موسم کی شدت سے بے نیاز ،ایک درخت کے نیچے چلہ کرتے 49 واں دن تھا، اُس شام ہوا کے ایک نرم جھونکے نے نڈھال سدھارتھ کے وجود کو چھوا تو سدھارتھ کے وجود میں تازگی آ گئی ۔ سدھارتھ کو نروان حاصل ہو گیا۔ سدھارتھ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اُس روز شہزادہ سدھارتھ ،مہاتما بُدھ بن گیا۔

جس درخت کے نیچے ، سدھارتھ کو نروان حاصل ہوا تھا، وہ درخت پیپل کا درخت تھا جو کہ ریاست بہار میں تھا۔ اس دن کے بعد سے پیپل کا درخت بودھی کے درخت کے نام سے موسوم ہو گیا۔
وقت کا دریا آگے بڑھ گیا ۔جب سری لنکا میں بدھ مت کو فروغ ملا تو اشوک اعظم کے بیٹے مہندرا اور بیٹی سنگا میتا تھیری 251 ق م میں سری لنکا گئے۔

بدھا کے وصال کو 229 برس بیت چکے تھے۔ مہندرا اور سنگا میتا نے سنہالی بادشاہ ویوانم پیا تسا کو پیپل کے اُس درخت کی شاخ بطور تحفہ پیش کی، جو بودھ گیا،بہار میں موجود تھا۔ یہ شاخ زمین میں دبا دی گئی تاکہ یہ تن آور درخت بن جائے۔

وقت کا دریا آگے بڑھتا رہا۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے آٹھ دسمبر 1963 کو سری لنکا کے دورے پر گئے۔ اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ سری لنکا نے پاکستان کو پیپل کے اس درخت کی ایک شاخ تحفے میں دی، جو انو رادھ پور میں اُس درخت سے لی گئی تھی، جسے اشوک کے بیٹے اور بیٹی نے سری لنکا کو تحفے میں دیا تھا۔

یہ شاخ 25 جنوری 1964 کو اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیکسلا میوزیم سے متصل باغ میں لگا دی جو آج بھی موجود ہے اور جس کے گرے ہوئے پتوں کو بدھ مت کے ماننے والے بطور تبرک ساتھ لے جاتے ہیں۔ میں اُسی درخت کے سامنے کھڑا ،ماضی میں سفر کر رہا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے