ہم ایک ایسے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں بولنے کی اہلیت کو عقل سمجھا جانے لگا ہے، اور چیخنے چلانے کو خوداعتمادی۔ یہ وہ دور ہے جہاں لفظوں کے شور نے سوچ کی گہرائی کو دبا دیا ہے۔ بھانڈ، مراثی، اور موٹیویشنل اسپیکر — تینوں آج کے سماج کے مقبول ترین کردار بن چکے ہیں۔ فرق صرف لباس، اسٹیج اور لائٹوں کا ہے، باقی تماشا ایک ہی ہے: لوگوں کو خوش فہمی کے نشے میں مبتلا رکھنا۔
کبھی مراثی گلی محلوں میں بادشاہوں کی مدح میں اشعار پڑھتا تھا، ان کی تعریف کر کے پیسہ کماتا تھا۔ آج وہی کردار سٹیج پر موٹیویشنل اسپیکر بن کر نمودار ہوتا ہے۔ وہ بھی تعریف ہی کرتا ہے — مگر اب وہ بادشاہوں کے بجائے عوام کی تعریف کرتا ہے، انہیں بتاتا ہے کہ تم دنیا کے سب سے عظیم انسان ہو، تم چاہو تو سب کچھ بدل سکتے ہو، تمہیں بس خواب دیکھنے ہیں۔ سادہ لوح سامعین تالیاں بجاتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، اور اگلے دن پھر وہیں جا کر کام کرتے ہیں جہاں سے آئے تھے، بس جیب سے ہزار دو ہزار روپے کم ہو جاتے ہیں۔
یہ نیا کاروبار "حوصلہ افزائی” کے نام پر احساسِ برتری کا دھندہ ہے۔
موٹیویشنل اسپیکر لوگوں کو سوچنا نہیں سکھاتا، بس خوش فہمی دیتا ہے۔
بھانڈ لوگوں کو ہنساتا ہے، مراثی خوشامد کرتا ہے، اور یہ اسپیکر خواب بیچتا ہے۔
تینوں کا مقصد ایک ہی ہے — سامنے والے کو وقتی طور پر خوش رکھنا تاکہ نفع حاصل کیا جا سکے۔
موٹیویشنل اسپیکروں کی اکثریت خود زندگی میں کسی قابلِ ذکر کامیابی تک نہیں پہنچی ہوتی۔ مگر مائیک ہاتھ میں آ جائے تو وہ سقراط بن جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دنیا تمہارے اندر ہے، کامیابی تمہارے قدموں میں ہے، لیکن خود کے پاؤں اکثر زمین پر نہیں ہوتے۔ یہ لوگ انسانوں کو عمل سے زیادہ الفاظ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ جو خود صبح دس بجے اٹھتے ہیں، وہ دوسروں کو صبح چار بجے جاگنے کے فضائل سمجھاتے ہیں۔
جو خود ناکام کاروبار چھوڑ کر اسپیکر بنے، وہ دوسروں کو کاروباری کامیابی کے گُر سکھاتے ہیں۔
اور جو خود حقیقت سے بھاگ کر مائیک پکڑتے ہیں، وہ دوسروں کو حوصلے اور استقامت کے لیکچر دیتے ہیں۔
یہ لوگ دراصل سماج کے نئے جوکر ہیں — سوٹ میں لپٹے، لائٹوں میں نہائے، مگر اندر سے خالی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سچ سننے کے روادار نہیں رہے۔ ہمیں وہی سننا پسند ہے جو دل کو اچھا لگے، چاہے وہ سراسر جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر وہ شخص مشہور ہو جاتا ہے جو "تم کر سکتے ہو” کی رٹ لگا دے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ "حوصلہ” ہے، حالانکہ یہ ذہنی تسلی کا نشہ ہے — ایسا نشہ جو تھوڑی دیر کے لیے سکون دیتا ہے مگر عقل کو مفلوج کر دیتا ہے۔
کبھی کسی موٹیویشنل اسپیکر نے یہ بتایا کہ نظام کیسے درست ہو؟ محنت کے ساتھ عقل کیسے استعمال کی جائے؟ خود فریبی سے کیسے نکلا جائے؟ نہیں۔ کیونکہ اگر لوگ حقیقت جان لیں تو تالیاں بند ہو جائیں گی،
اسٹیج کی چمک بجھ جائے گی،
اور ان کے "سیمنار” کا کاروبار ختم ہو جائے گا۔
بھانڈ پہلے بادشاہوں کے دربار میں ہوتے تھے، اب وہ عوام کے دربار میں ہیں۔
مراثی پہلے مالداروں کے گن گاتے تھے، اب وہ انٹرنیٹ پر فالوورز کے گن گاتے ہیں۔
اور موٹیویشنل اسپیکر وہ نیا چہرہ ہے جو مائیک اور سلائیڈز کے ساتھ وہی پرانا تماشہ پیش کر رہا ہے — "ہم سب بہت عظیم ہیں” کا ڈھکوسلا۔
حالانکہ سچ یہ ہے کہ عظمت محنت سے آتی ہے، تقریروں سے نہیں۔
ہمارے معاشرے میں علم، کردار، اور تحقیق کے بجائے بولنے کی مہارت کامیابی کی علامت بن چکی ہے۔ جو زیادہ بولتا ہے، وہ بڑا مانا جاتا ہے۔ جو کم بول کر زیادہ سوچتا ہے، وہ غیر اہم ٹھہرتا ہے۔ اسی لیے آج بھانڈ فلاسفر بن گیا ہے، مراثی استاد، اور موٹیویشنل اسپیکر "قائد”۔
ہمیں ان تماشوں سے باہر نکلنا ہوگا۔
حوصلہ ضرور رکھیں مگر خود فریبی نہیں۔
خواب ضرور دیکھیں مگر زمینی حقیقت کے ساتھ۔
ورنہ کل کا مورخ یہ لکھے گا کہ اکیسویں صدی کے انسا نے علم چھوڑ کر تقریر کا پیچھا کیا، حقیقت بھول کر تالیاں بجائیں، اور بھانڈوں کو مفکر مان لیا۔