عمران خان جو میں نے سمجھا

تقریر میں سپر، تدبیر میں صفر
کھیل میں ہیرو، سیاست میں زیرو
ٹاک میں حاوی، کام میں واہی
وعدے ٹنوں کے، کارکردگی ماشوں کی
نام نمایاں، کارنامہ کم مایاں
شخصیت نکھری، کردار دھندلا
شور لامحدود، علم محدود

یہ وہ مجموعی تاثر ہے جو کہ طویل عرصے سے عمران خان کے بارے میں مجھے لاحق ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے کام اور باتیں ملاحظہ کرتے ہوئے رسوخ آتا ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی یہ ہے کہ کسی ایک میدان میں شہرت یا مقبولیت پا کر بندہ خود کو ہر مرض کا دوا سمجھنے لگتا ہے خواہ کسی اور میدان میں اسے الف ب کا پتہ نہ ہو۔

عمران خان کی اصل وجہ شہرت کرکٹ ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ کرکٹ میں رہ کر انہوں نے اساطیری شہرت اور مقبولیت حاصل کر کے اہم شخصیت بن گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ وہ ہر کام کے لیے اہل ہوں گے یہی وجہ ہے کہ اس کی کرکٹ کے بعد مستقل طور فلاحی کاموں کے بجائے سیاست کی جانب آمد کو سنجیدہ حلقوں اور شخصیات نے بالکل اچھا نہیں سمجھا اور یہ کسی ذاتی پسند و نا پسند کی وجہ سے نہیں بلکہ خود عمران خان اور ملک و قوم کے وسیع مفاد میں یہ سمجھا گیا۔

کچھ عرصہ قبل دوران مطالعہ جنگ اخبار میں تعلیمی اعتبار سے عالمی ریکارڈ یافتہ نوجوان علی معین نوازش جو کہ گزشتہ دس پندرہ برس سے مستقل شعبہ صحافت سے منسلک ہے، کا کالم نظر سے گزرا تو حیرت ہوئی کہ یہ تو گویا میرے احساسات کی ہو بہو ترجمانی کی گئی ہے، پھر کیا تھا توجہ سے پڑھا، پھر پڑھا، تیسری بار پھر پڑھا یہاں تک کہ اندر سے آواز آئی عنایت! "یہ آپ دونوں میں مشترک تخیل سے برآمد ہونے والا کالم ہے” بس میں نے مذکورہ کالم فوراً "اون” کر دیا۔ اب آئیے پہلے میرے اپنے احساسات اور پھر علی معین نوازش کا کالم ملاحظہ کریں۔

بعض الفاظ عین مجھے اپنے احساسات کے بہترین ترجمان لگتے ہیں۔ سماج میں اشتراک اور اختلاف کا سب سے معتبر سطح انسانی تخیل ہے جو کہ الفاظ کی شکل میں ظاہر و باہر ہو رہا ہے۔ ہم اگر اپنے خیالات اور الفاظ میں ارادی ربط و ضبط پیدا کر کے منظم انداز میں اظہار پر قدرت پا لیں تو یقین کریں ہمارے درمیان "مطلوب مشترکات” تیزی سے نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے جس کو سادہ الفاظ میں اتحاد و اتفاق سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ مشترکات ہمارے گرد و پیش میں موجود ہوتے ہیں لیکن نوع بہ نوع اختلاف اور تعصبات کے پردے ان کو نگاہوں کے سامنے لانے سے روکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے اور حال شاہد کہ معاشرہ اپنے احوال اور خیالات میں سب سے زیادہ جس طبقے سے متاثر ہو رہا ہے وہ ہے حکمران۔ حکمرانوں کے پاس وہ طاقت، موقع اور اختیار ہوتا ہے کہ جن سے اگر ہمت، بصیرت اور احساس کے ذریعے کام لیا جائے تو قوموں کی تقدیریں بہتر انداز میں بدلتی ہیں لیکن اگر اقتدار میں آکر صرف اس کے ساتھ جڑے چمک دمک کے رنگ بہ رنگ مظاہر، مفادات کی کشش اور مراعات کی رغبتیں ہی بندے کو اپنے سحر میں لے لیں تو عام لوگ مسائل کے گھیرے میں ایسے چلے جاتے ہیں کہ انہیں پھر عزت، تحفظ، آزادی، آسودگی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع میسر نہیں آتا۔

تبدیلی، بہتری، انصاف، احتساب، شفافیت، کرپشن سے پاک پاکستان، ریاست مدینہ کے نعرے اور چند کرپٹ خاندانوں کے حکومت پر تسلط کو چیلنج کرتے ہوئے عمران خان نے پرجوش اور انقلابی انداز میں اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ مندرجہ بالا نکات چونکہ قوم کے قلب و نظر سے پیوست وہ درینہ توقعات ہیں جن کو بھر لانے کی آرزو وہ سینے سے لگا بیٹھی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں تبدیلی اور بہتری کے لیے طویل عرصے سے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ موجودہ حالات پہ قطعاً مطمئن نہیں۔ قوم کی روح میں انصاف، تحفظ اور خوشحالی کے لیے آبدی طلب پائی جاتی ہے اور اپنی زندگیوں میں نوع بہ نوع محرومیوں سے وہ آخری حد تک تنگ آ چکی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی باتوں میں نوجوانوں کو تبدیلی کے واضح آثار نظر آنے لگے اور یوں انہوں نے خان کی بھرپور پزیرائی کی۔

بے تحاشہ میڈیا کوریج نے بھی خان کے پروموشن میں اہم کردار ادا کیا جبکہ جلسوں میں نوجوانوں کی غیر متوقع شرکت مزید برآں سیاست پر اثرانداز حلقوں سے ربط و ضبط نے خان کے عزائم میں گویا بجلی بھر دی یوں وہ 22 سالہ سیاسی جدو جہد کے بعد 2018ء کو اتحادی حکومت کے وزیراعظم بن گئے اور پونے چار سالہ دور حکمرانی کے بعد اپریل 2022ء کو گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آنے اور کامیاب ہونے کے بعد وہ اقتدار کے ایوانوں سے دوبارا انہیں سڑکوں پر چلے آئے جہاں اس نے جدوجہد کے بائیس سال گزارے تھے۔

عمران خان ہمارے سیاسی اور سماجی منظر نامے کا ایک ایسا چمکتا دمکتا نام ہے جو بلا شبہ کھیل، فلاحی کاموں اور انقلابی طرزِ سیاست کے طفیل کروڑوں دلوں کا دھڑکن بن چکا ہے۔ 1952ء کو میانوالی کے نیازی قبیلے سے تعلق رکھنے والے انجنئیر اکرام اللہ خان نیازی کے گھر اس وقت پیدا ہوئے جب یہ گھرانہ لاہور شفٹ ہوا تھا۔ عمران خان کے والد صاحب سول سروس سے منسلک تھے۔ ابتدائی تعلیم کیتھیڈرل سکول میں حاصل کی پھر ایچیسن کالج لاہور داخل ہوئے وہاں سے انگلینڈ چلے گئے جہاں اس نے پہلے رائل گرائمر اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات اور سیاسیات میں گریجویشن کی بعد ازاں وہ باقاعدہ کرکٹ سے منسلک ہوگئے۔ عمران خان نے انگلینڈ اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے کرکٹ کھیلی ہے۔

عمران خان 20 سال کی عمر میں 1972ء کو کرکٹ سے منسلک ہوئے اور چار سال بعد 1976ء کو باقاعدہ پاکستان آکر قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے جبکہ 1982ء سے 1992ء تک بطورِ کپتان فرائض انجام دیئے۔ 1988ء میں کسی وجہ سے کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ترغیب پر واپس لے لیا اور حسب دستور کپتان کے طور پر اپنی خدمات جاری رکھیں۔ 1992ء کو پاکستان نے عمران خان کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتا اس کے بعد انہوں نے کرکٹ سے مستقل ریٹائرمنٹ لے کر تعلیم اور صحت سے متعلق فلاحی منصوبوں پر بھرپور توجہ مرکوز کی جن میں سب سے بڑا منصوبہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال ہے یہ انہوں نے اپنی والدہ شوکت خانم مرحومہ کی یاد میں قائم کیا جو کینسر جیسے موذی مرض سے زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔

عمران خان ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہے۔ خوبصورت اور وجیہہ، سمارٹ اور صحت مند، مضبوط قوّت ارادی والا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار، وہ ذہنی لحاظ سے بے قرار، روحانی اعتبار سے ناآسودہ جبکہ طبعی طور پر شرمیلا واقع ہوا ہے لیکن انسان چونکہ ایک بے حد پیچیدہ مخلوق ہے اس لیے معروف معنوں میں وہ شرمیلا نہیں بھی ہے، باہمت ہے لیکن ساتھ ساتھ بے صبرا بھی، جوش و خروش سے بھرا بھی ہے اور لطیف انسانی احساسات کا حامل بھی۔ خوش لباس، خوش خوراک، خوش بیان اور خوش اطوار انسان اس کے علاؤہ ہے۔ عمران خان نے نفرت اور محبت کے جذبات بھی نارمل پیمانوں سے کہیں زیادہ پائے ہیں۔ بے باک ہے، پر اعتماد ہے، برجستہ انداز میں بولتا ہے، پرکشش ہے، صحت مند ہے اور بلند قد کاٹھ کا حامل بھی، اپنی انہیں خوبیوں کی بدولت موصوف خواتین اور نوجوانوں میں نہ صرف بے حد مقبول ہے بلکہ مختلف اوقات میں مختلف سکینڈلز کے زد میں بھی آیا ہے۔

عمران خان اپنی انفرادی زندگی میں ایک کامیاب، متاثر کن اور ہردلعزیز شخصیت ہے۔ انہوں نے کئی کامیابیاں حاصل کر کے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ نو دس برسوں کی عملی سیاست میں وہ ایک ناکام سیاستدان اور نامراد حکمران کے طور پر سامنے آئے ہے۔ وہ ذہنی طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی خاص کرنے میں کامیاب نہیں ٹھہرا۔ وہ جب اقتدار سے باہر تھا تو بہت زیادہ پرجوش نظر آتا تھا اور محسوس یہ ہو رہا تھا کہ اگر خان کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو گویا سب کچھ خود بخود بہتر ہونا شروع جائیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار کبھی سو دن، کبھی چھ ماہ اور کبھی ایک سال میں حالات بہتر کرنے کی خوشخبری قوم کو سناتے رہے لیکن لمحہ موجود میں اپنے چار سالہ اقتدار (کے پی کے میں بارہ سالہ حکومت) کے بعد بھی تمام تر مسائل اور احوال وہی کے وہی ہیں جہاں چار سال یا بارہ سال پہلے تھے ہاں خرابیوں میں بالخصوص مہنگائی، بدامنی، بدنظمی اور معاشی بحران میں کئی گنا اضافہ ضرور ہوا ہے۔ یہ ثابت ہوا کہ وہ اقتدار میں آکر میدان عمل میں اپنے دعووں اور وعدوں کے مطابق کارکردگی بالکل نہ دکھا سکے۔ ہم یہ رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ کھیل کود اور فلاحی خدمات کے میدان میں کامیاب عمران خان جب سیاست اور حکومت کے دائروں میں وارد ہوا تو ایک مکمل ناکام اور نامراد عمران خان بن گیا۔

یہ حقیقت ہے عمران خان کے پاس شہرت، مقبولیت اور کچھ فلاحی خدمات کا سہرا ضرور ہے لیکن سیاست اور حکومت کے معاملات کو کامیابی سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے، ملک کے مفادات کو تحفظ دینے اور قوم کو ترقی کے شاہراہ پر مسلسل آگے بڑھانے کا معاملہ ایک بالکل الگ چیز ہے۔ عمران خان کے پاس قابل عمل وژن، لائق ٹیم اور انتظامی تجربہ بالکل نہیں تھا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوا تھا کہ وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے بعد، مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے جو کہ ممکن نہیں تھا۔ شہرت، مقبولیت اور خدمت تو ممکن ہے آپ کو اقتدار تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہو لیکن اقتدار کو پھر متوقع اہداف تک رسائی کے لیے کامیابی سے استعمال کرنا ایک بالکل مختلف کیمسٹری ہے۔ اپنی انتیس سالہ سیاسی زندگی میں عمران خان ایک مشہور شخص تو بن گیا لیکن ایک سنجیدہ اور سمجھدار لیڈر نہیں بن سکا۔ شور بہت مچایا اور شعور تھوڑا بھی نہیں دیا۔ اس نے بس کچھ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو ایک خاص قسم کے خمار میں مبتلا کیا جس کے آگے پیچھے کچھ نہیں۔

عمران خان کی شخصیت نے نوجوانوں کو ایک ایسے سحر میں مبتلا کر دیا تھا جس کے زیرِ اثر آکر خان سے سب کچھ کی توقع لے کر بیٹھ گئے لیکن ان کے ہاتھ خالی تھے اور خالی ہی رہیں۔ آج بھی "خان یہ کرے گا” اور "خان وہ کرے گا” کے علاؤہ بتانے کو ان کے پاس کچھ نہیں۔ آئیے ذرا نظارہ کر کے دیکھتے ہیں کہ خان کن کن شاہراہوں سے گزر کر سیاسی منظر نامے پر نمودار ہو کر قوم کے لئے "آخری امید” بن کر آئے لیکن اہلیت کے فقدان، غیر سنجیدہ ٹیم کی دستیابی اور حالات کی ستم ظریفی نے مل کر اسے ایک اندوہناک "مایوسی” میں بدل دیا۔

1995ء کو ایک ارب پتی برطانوی شخصیت سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی۔ جمائما خان سے عمران خان کے دو بیٹے پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ رشتہ 2004ء کو بوجوہ طلاق پر ختم ہوا۔ 1994ء میں جنرل حمید گل کے مشورے پر جماعت اسلامی کے ہم خیال گروپ پاسبان میں شمولیت اختیار کی، یہاں سے اس کے سیاسی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا لیکن پھر اپریل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت قائم کر کے باضابطہ سیاسی جدو جہد شروع کی۔ عمران خان نے ملک میں تبدیلی کا نعرہ دے کر نوجوانوں کو اپنا خاص ہدف بنایا اور باور کرایا کہ اگر نوجوان میرا ساتھ دیں تو ہم ایک ایسی حکومت کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے جو ملک میں حقیقی انصاف، شفاف احتساب، عمومی ترقی اور میرٹ پر فیصلوں کو یقینی بنا دیں گی۔

عمران خان نے اپنی ہر انتخابی مہم میں بلند بانگ دعووں سے عوامی توقعات کو بہت زیادہ بڑھایا اور یقین دلایا کہ اگر حکومت مل گئی تو تمام تر عوامی مسائل کو حل کر کے ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کر دیں گے۔ 1997ء میں اپنے پہلے انتخابی معرکے میں پورے جوش و خروش سے اتر تو گیا لیکن کامیابی کوئی حاصل نہیں ہوئی۔ 2002ء کے انتخابات میں بھی صرف اپنے سیٹ پر میانوالی سے جیت گئے اور بس۔ 2008ء میں جماعت اسلامی سمیت بائکاٹ پر چلا گیا جبکہ 2011ء میں موصوف کو پہلی مرتبہ بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ ملک بھر میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے سیاسی دھارے میں گویا ایک نئی اور طاقتور آواز متعارف کروائی۔

2013ء میں عمران خان کو پہلی مرتبہ قابلِ ذکر انتخابی کامیابی ملی اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے نہ صرف قومی اسمبلی کے 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کی بلکہ کے پی کے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی جس کے بعد خان صاحب نے نہایت جارہانہ انداز میں سیاسی مہم جوئی شروع کی۔ انتخاب میں دھاندلی کا الزام لگا کر 2014ء میں نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126 دن تک دراز دھرنا دیا جس نے حقیقت میں نظام مملکت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔

2018ء میں اس کو قومی اسمبلی میں گوں واضح تو نہیں لیکن قابلِ ذکر سیٹوں پر کامیابی ضرور ملی جس کے بعد چند جماعتوں یعنی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق وغیرہ سے مل کر حکومت بنائی۔ انتخابی مہم کے دوران کہا تھا ہم نوے دنوں میں حالات کا دھارا درست کر دیں گے، ایک کروڑ نوکریاں تخلیق کریں گے، پچاس لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ انصاف کا قیام یقینی بنائیں گے، شفاف احتساب کا آغاز کریں گے اور ماضی کے حکمرانوں نے جو قومی سرمایہ لوٹ کر باہر کے بنکوں میں منتقل کر دیا ہے اس کو واپس لائیں گے، میرٹ کے مطابق فیصلے کریں گے، دولت مندوں سے ٹیکس لے کر معاشرے کے محروم طبقات پر لگائیں گے تاکہ ان کا معیار زندگی بلند ہو۔

یہ ساری ایسی باتیں تھیں جن کے لیے عوام کے دلوں میں طویل عرصے سے ایک تمنا موجود تھی ان کو گویا عمران خان کی صورت میں ایک نجات دہندہ مل گیا۔ لوگ خاص کر نوجوان دیوانہ وار اس کی جانب بڑھنے لگیں اور اپنے ووٹ اور سپورٹ سے عمران خان کا ساتھ دیا لیکن حکومت ملنے کے بعد کارکردگی ان دعووں اور وعدوں کے مطابق ہرگز نہیں تھی جن کے لیے خان نے انتخابی مہمات میں عزم ظاہر کیا تھا۔

بیرونی قرضوں کو موصوف قومی آزادی میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتا رہا لیکن حکومت میں آنے کے بعد تواتر سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے گئے۔ کرپشن کو سب سے بڑی خرابی گردانتے تھے لیکن اپنے چار سالہ دور حکومت میں کرپشن کا راستہ روکنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی بلکہ الٹا کرپشن میں اضافہ ہی ہوا۔ روزگار کے مواقع کروڑ تو درکنار الٹا لوگ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار ہونا شروع ہوئے۔ پچاس لاکھ گھر بنانا تو دور کی بات الٹا لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دئیے۔ چار سالہ دور حکومت میں خارجہ پالیسی کی بھی کوئی شکل نہیں بن سکی، سی پیک سے منسلک مختلف منصوبوں پر عملاً کام رک گیا اور مجموعی طور پر سی پیک کے حوالے سے سرد مہری اختیار کی گئی۔ کشمیر کے مسئلے پر بلا شبہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں جرآت مندانہ موقف اختیار کیا لیکن حقیقی طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عملی اقدامات کچھ نہیں اٹھایا، 2019ء میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی (متنازعہ) حیثیت ختم کر کے اسے وفاقی سطح پر مکمل کنٹرول میں لے لیا لیکن عمران حکومت "فیشن ایبل” قسم کے احتجاج اور ہفتہ وار چند منٹ کی خاموشی کے علاؤہ کچھ نہ کر سکی۔ یورپ، عرب دنیا اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں کوئی گرم جوشی باقی نہیں رہی۔ آمریکا کے ساتھ بھی تعلقات صدر ٹرمپ سے چند نمائشی ملاقاتوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے اور بس۔ ایسے ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جن کا نام تھا نہ کردار، شخصیت تھی نہ قابلیت۔

سیاسی مخالفین پر سیاسی مقدمے بنا بنا کر انہیں نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈال تو دیا لیکن ان سے ایک پیسہ بھی برآمد نہ کر سکا، سیاسی مخالفین سے نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھا، برے ناموں سے ان کو یاد کیا جاتا رہا، برسرِ عام ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ سیاسی لیڈروں کو چوہے، ڈیزل، سب سے بڑی بیماری اور شوباز جیسے ناموں سے پکارا ردعمل میں ان کی جانب سے بھی ایسے ہی نام اور کام ظاہر ہوتے رہے جس سے سیاسی ماحول میں موجود لحاظ اور احترام کے قدروں کو شدید نقصان پہنچا۔

عمران خان کے دور میں مہنگائی نے ایک اژدہا کی صورت اختیار کر کے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر کر دیا۔ عالمی منڈی کا بہانہ بنا کر یا سہارا لے کر ہر چند روز بعد قیمتوں میں اضافہ معمول بن گیا تھا۔ غریب کے لیے تو خیر اس ملک میں پہلے بھی کچھ خاص نہیں تھا اور خان کے دور میں بھی چند لنگر خانوں کے علاؤہ کچھ بھی نہیں بنا لیکن متوسط طبقے کو بری طرح نچوڑا گیا اور اس کے معاشی مسائل میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ انہیں وجوہات سے خان صاحب ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر مقبول ہوگیا۔ اپوزیشن نے انہیں وجوہات کو بنیاد بنا کر عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔ خان نے اس اقدام کو بیرونی سازش سے تعبیر کیا اور جلسوں میں ببانگِ دہل کہنے لگا کہ "مجھے عالمی قوتیں سازش کر کے ہٹانا چاہتی ہیں”۔

بے شمار ثبوت سامنے آئیں کہ جن سے پتہ چلا کہ بیرونی سازش حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوئی بلکہ یہ خان اور تحریک انصاف کا اختیار کردہ محض ایک سیاسی حربہ تھا جو بے باکانہ انداز میں استعمال کیا گیا۔ کارکردگی کچھ بتانے کو تھی نہیں اوپر سے حکومت ختم ہوئی تو عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے جان بوجھ کر یہ ڈرامہ رچایا گیا، خوب چلایا گیا اور عوام کو اس کے ذریعے بےوقوف بنایا گیا اصل میں کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی وہ ایسٹبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آیا بھی تھا اور رہا بھی لیکن جب ایسٹبلشمنٹ نے مجبوری یا مصلحت کے پیش نظر ہاتھ کھینچ لی اوپر سے ٹھوس عوامی مسائل کا سہارا لے کر ملکی اپوزیشن نے خان کو خطرناک قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا۔ خان سے متوقع کارکردگی نہ دکھائے جانے کی وجہ سے عوام کی مایوسی اپنی جگہ ایک حقیقت تھی، اوپر سے بوجوہ اپنے لوگ بھی ناراض تھے جو منحرفین کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے مل کر نو اپریل کو اسے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا اور نتیجتاً اپوزیشن کا متفقہ امیدوار میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے۔ اب ملک میں حالت یہ ہے کہ اتحادی سارے مل کر نئی حکومت تشکیل دے کر چلا رہے ہیں جبکہ عمران خان سڑکوں پر آگیا ہے اور پورے زور و شور سے سازشی بیانیہ عوام کے سامنے رکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مختلف کیسوں کے سبب (بالخصوص نو مئی کی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے) جیل میں ہے جہاں ملاقاتوں کے لیے انیاں جانیاں جاری ہیں اور یہ ان ملاقاتوں میں مؤثر احتجاجی مظاہروں کے لیے مختلف منصوبے بن تو رہے ہیں لیکن کامیاب نہیں۔ کئی بار تو صوبائی حکومت (کے پی کے) کے زیر اہتمام مظاہرے جگ ہنسائی کا سبب بنے ہیں۔

اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں عمران خان کو مختلف ممالک کے دوروں کے دوران، مختلف سربراہان مملکت سے، مختلف تحفے تحائف ملے تھے ان کی مجموعی تعداد 58 بنتی ہے۔ یہ تحفے تحائف دو افراد ایک دوسرے کو نہیں بلکہ دو ریاستیں ایک دوسرے کو عطا کرتی ہیں۔ ان تحائف کی ملکیت فرد کے پاس نہیں بلکہ ریاست کے پاس ہوتی ہے۔ سیاسی اور سفارتی قوائد و ضوابط کے پیشِ نظر یہ کوئی بھی حکمران گھر نہیں لے کے جاتا بلکہ ان کو توشہ خانہ میں جمع کرایا جاتا ہیں۔ عمران خان نے ان قیمتی تحائف کو یا تو توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا یا جمع کرواتے ہی وہاں سے اونے پونے قیمت پر واپس حاصل کیے اور اپنی ذاتی منفعت کے لیے انہیں استعمال میں لائے جس پر اس کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر ہوا۔ طویل تحقیقات کے بعد 21 اکتوبر 2022ء کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مذکورہ معاملے میں کرپشن کا مرتکب قرار دے کر نااہل کر دیا۔ نااہلی کے بعد وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی نہیں رہے اور آگے ممکن ہے اسے قید اور جرمانے کی سزا سے بھی گزرنا پڑ جائے۔ عمران خان خود کو ایمان دار اور شفاف سمجھتے چلے آرہے ہے لیکن پہلے ممنوعہ فنڈنگ کیس اور اب توشہ خانے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے نے عمران خان کی سیاست اور ایمان داری کے تاثر کو شدید نقصان پہنچایا۔ آگے کا پتہ نہیں لیکن یہ معاملہ وقتی طور پر اس کے لیے نیک شگون قطعاً نہیں۔

اب آئیے علی معین نوازش کے خیالات ملاحظہ کرتے ہیں وہ لکھتا ہے!

عمران خان کے ناقابلِ معافی گناہ

اِس کالم کے عنوان میں مَیں نے گناہ کا لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کیوںکہ انسان نادانی میں حماقت اور غلطی کا مرتکب تو ہو جاتا ہے لیکن گناہ جانتے بوجھتے ہوئے کرتا ہے۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے مگر کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں تاریخ کبھی نہیں معاف کرتی۔

انسان بالخصوص کسی بھی حکمران کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کے اقدامات تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ جب وہ اقدامات کیے جا رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت حکمران کے اِرد گرد خوشامدی بھی موجود ہوتے ہیں اور اُسے گمراہ کرنے والے بھی۔

ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں عوام کا ایک قابلِ قدر حصہ بھی لیڈروں کے خوف ناک اقدامات پر تالیاں بجا کر نعرے لگاتا رہا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے، حکومت کے دوران اور بالخصوص اِن آخری دنوں میں، ہر موقع پر عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اُن سے کچھ ایسے گناہ سرزد ہو گئے کہ تاریخ اُن کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

عمران خان کا پہلا گناہ اقتدار کے حصول کیلئے پاکستان میں جمہوریت اور سول سپرمیسی کو نقصان پہنچانا ہے۔ پرویز مشرف کا دورِ آمریت ختم ہونے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں یہ بار دفعہ ہوا کہ منتخب جمہوری حکومت اور اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور ایک پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔

یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال کا دورانیہ پورا کیا، باوجود اِس کے کہ اُسکا وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا لیکن دوسری طرف عمران خان کی یہ کوشش رہی کہ 2013 میں جمہوری عمل سے بننے والی حکومت کسی نہ کسی طرح وقت سے پہلے ہی چلی جائے۔

نواز شریف کے دور میں عمران خان کا دھرنا دینا، کنٹینر پر کھڑے ہوکر امپائر کی باتیں کرنا، یہ سب چیزیں معاملات کو عدم استحکام کی طرف لے کر گئیں اور آہستہ آہستہ نظام کو کمزور کرتی گئیں اور آخر میں جو کسر رہ گئی تھی وہ 2018کے عام انتخابات سے پہلے بدترین پری پول ریگنگ اور Electables کے ردوبدل سے پوری ہو گئی اور عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم بن گئے۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ اُنہوں نے جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا سو پہنچایا، ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ مفروضہ بھی بیٹھا دیا کہ اُن کے علاوہ باقی سیاستدان یا تو کرپٹ ہیں یا نااہل۔ اُن کے دورِ حکومت میں احتساب کے نام پر جو بدترین مہم چلائی گئی، اسی میں ایک بھی کنووِکشن نا ہو سکی اور احسن اقبال جیسے ایمان دار اور قابل شخص کو بھی مہینوں نیب کے ذریعے جیل میں رکھا۔ اِیسی انتقامی کارروائیوں نے بھی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا۔

عمران خان، اُن کے ساتھیوں اور سوشل میڈیا ٹیم نے جو پاکستان میں جھوٹ اور فیک نیوز کی بنیاد رکھی اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے دوسروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، پھر یوٹرن کی افادیت سمجھائی گئی، بعد میں اپنی ناقص کارکردگی پر ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ میں ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے اور معیشت کو بھی سنبھال لیا گیا ہے۔

ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ پرانی حکومتوں پر ڈال کر عوام کو بار بار گمراہ کیا گیا جبکہ اپنی کابینہ میں موجود کچھ لوگوں کیخلاف کرپشن پر کوئی سخت ایکشن نہ لیا گیا اور اُنہیں صرف ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت پر لگا دیا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ احتساب کا استعمال بھی صرف ایسے لوگوں کیخلاف کیا گیا جو عمران خان کیلئے ناپسندیدہ تھے۔

پھر اسی جھوٹ اور فیک نیوز کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے پاکستان میں پولرائزیشن، فاشزم اور نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جس کی وجہ سے سیاست میں تہذیب ختم ہوئی اور گالم گلوچ کاچلن عام ہوا۔ یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ یہ عدم برداشت ملک کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہو گی۔

اِس عدم برداشت کی واضح مثال دیر میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں گزشتہ روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے امام مسجد کی داڑھی نوچی اور مسجد کی حدود میں سیاسی نعرہ بازی کی۔ آج ملک جن حالات سے دوچار ہے اُس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عمران خان صرف وزیراعظم بننا چاہتے تھے، اُن کی اِس منصب کیلئے نہ کوئی تیاری تھی اور نہ ہی انہیں گورننس کا کوئی تجربہ تھا۔

بہتر یہ ہوتا کہ وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بن کر گورننس کے حوالے سے کچھ سیکھ ہی لیتے۔ پنجاب میں اُنہوں نے عثمان بزدار اور کے پی میں محمود خان جیسے مہروں کو وزیراعلیٰ بنائے رکھا، جن کے حوالے سے شدید عوامی اور ادارتی تحفظات موجود ہونے کے باجود انہیں تبدیل نہ کیا گیا۔

اپنی حکومت کے آخری دِنوں میں عمران خان یہ جان چکے تھے کہ اُنہیں دوبارہ حکومت میں آنے کا موقع نہیں ملے گا اِس لیے اُنہوں نے اپوزیشن اور میڈیا دونوں کے خلاف پلان بنا لیا تھا کہ اِن کو خوب دبائیں گے تاکہ وہ عوام کیلئے خود کو واحد آپشن ثابت کر سکیں۔

اس مقصد کے لیے اُنہوں میڈیا کے خلاف PECA قانون میں ترامیم کرکے ایک ایسا کالا قانون بنایا جس کے تحت وہ اپنے مخالف صحافیوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تو اپنے محسن، محسن بیگ کو بھی نہیں بخشا۔ ویسے تو انہوں نے اپنے کسی بھی محسن کو نہیں بخشا۔ اپوزیشن کو دوبارہ جیلوں میں بند اور کمزور کرنے کی منصوبہ بندی تیار تھی۔

اُنہوں نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین، جس پر ایک بیرونی کمپنی نے آڈٹ میں اعتراضات بھی اٹھائے تھے، کا استعمال کرکے الیکشن میں برتری حاصل کرنے کا پلان بنایا تھا۔ اِسی لیے اپوزیشن کو بھی عدم اعتماد لانا پڑی۔ البتہ یہ اپوزیشن کی خوش قسمتی تھی کہ عمران خان کی اپنی ضد کی وجہ سے اُن کا اداروں کیساتھ تصادم ہوا اور ادارے نیوٹرل ہو گئے۔

چیزیں جس طرف جا رہی تھیں، اُن کے پیش نظرمیں نے اپنے ذہن میں اس کالم کا خاکہ چند ماہ پہلے ہی بنا لیا تھا لیکن عدم اعتماد کے دوران آئین شکنی اور اِس کیساتھ ساتھ باقی جو کچھ ہوا اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے آخری وقت تک جمہوریت اور نظام کو خطرے میں ڈالے رکھا اور اقتدار نہ چھوڑنے پر بضد رہے۔

انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنے دیرینہ ساتھی کی قربانی دے دی۔ آج اپنی بنائی گئی پولرائزیشن، فاشزم اور جھوٹ کے ذریعے اُن کو عوام کے متمول طبقے کے ایک مخصوص حصے کی حمایت شاید حاصل ہو لیکن غریب عوام جو خان صاحب کے دور میں پس کے رہ گئے ہیں، اُن کے ساتھ نہیں۔

اب بھی عمران خان اقتدار اور انتقام کے لیے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، جس سے ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں اور ریاست کمزور ۔

اس ساری صورتحال میں ہماری عدالتیں اور ادارے ہیرو بن کر نکلے ہیں اور خان صاحب وِلن۔ جب ان کی بنائی ہوئی پولرائزیشن کی گھٹا چھٹ جائے گی اور اُن کے بولے ہوئی جھوٹ اور فیک نیوز پر سچ کو برتری ملے گی تو تاریخ خان صاحب کے نا قابلِ معافی گناہوں کی گواہی دے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے