بھارت میں شناخت کا بحران: جب حجاب سیاست کا ہتھیار بن گیا

بھارت کی موجودہ فضا میں مذہبی شناخت ایک ایسا نازک موضوع بن چکی ہے، جو کسی بھی لمحے اشتعال انگیزی کا روپ دھار سکتی ہے۔ ایسے حالات میں جب ایک نوجوان طالبہ اپنی مذہبی روایت کے تحت حجاب پہن کر اسکول جانا چاہتی ہے، تو معاملہ محض ایک کپڑے کے ٹکڑے تک محدود نہیں رہتا۔ یہ سوال بن جاتا ہے آئینی حقوق کا، شخصی آزادی کا اور سب سے بڑھ کر اس بنیادی انسانی وقار کا، جس کی ضمانت ہر جمہوری ریاست اپنے شہریوں کو دیتی ہے۔ حجاب کے گرد اٹھنے والا یہ تنازعہ اس بچی کے لئے نہ صرف لباس کا مسئلہ ہے یہ اپنی پہچان کو بچانے کی ایک خاموش جنگ تھی، جس میں اُس کی آواز دبی، جذبات کچلے گئے اور آخر کار فیصلہ کسی اور نے کر لیا۔

کیرالہ کے شہر کوچی میں واقع ایک معروف کرسچن مشنری اسکول، سینٹ ریٹا پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کی ایک مسلم طالبہ جب حجاب پہن کر اسکول پہنچی، تو تعلیمی ماحول کی بجائے ایک غیر متوقع شور شرابے نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسکول انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ طالبہ نے یونیفارم کے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے، جبکہ طالبہ اور اس کے والدین کا موقف تھا کہ مذہبی لباس پر پابندی آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ تنازعہ محض اسکول کے احاطے تک محدود نہ رہا یہ جلد ہی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ایک گرم بحث میں تبدیل ہو گیا، جس میں ہر کوئی اپنی رائے کے ساتھ میدان میں کود پڑا۔

اس سارے جھگڑے کے دوران ریاستی وزیر تعلیم وی سیوان کٹی نے مداخلت کرتے ہوئے اسکول کو حکم دیا کہ طالبہ کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیرالہ جیسی سیکولر ریاست میں کسی بھی طالب علم کو اپنی مذہبی شناخت کی بنا پر مشکلات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر کا یہ بیان ملک بھر میں بحث و مباحثے کا مرکز بن گیا، جس کے بعد نہ صرف مذہبی طبقات حرکت میں آئے، بلکہ تعلیمی اداروں کی آزادی اور ان کے ضابطوں پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔

معاملہ اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر گیا، جب اسکول انتظامیہ نے ریاستی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہنگامہ آرائی کے خدشے کے پیش نظر اسکول کو دو دن کے لیے بند کر دیا گیا، اور پولیس تحفظ کی درخواست بھی کی گئی۔ طالبہ کی تصویر اور خبر جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، تو معاملے کو مذہبی جذبات سے جوڑ کر پیش کیا گیا، جس سے صورتحال مزید بگڑنے لگی۔ ایک طرف طالبہ کے حق میں مظاہرے شروع ہو گئے، تو دوسری طرف اسکول کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں۔

صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی، جب مقامی چرچ نے وزیر تعلیم کے بیان پر برہمی کا اظہار کیا۔ سائرو-مالابار چرچ نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ وزیر تعلیم کے اقدام سے فرقہ پرست عناصر کو حوصلہ ملا ہے اور یہ قدم تعلیمی اداروں کی خود مختاری پر حملہ ہے۔ چرچ کے ترجمان اخبار ‘دیپیکا ڈیلی’ نے یہاں تک لکھا کہ حجاب کے نام پر مذہبی انتہا پسندی کو اسکولوں میں داخل ہونے دینا سیکولرزم کے لئے خطرہ ہے، اور حکومت کو مذہبی تنظیموں کے دباؤ سے بچنا چاہیے۔

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر مقامی رہنماؤں نے طالبہ کے والد سے ملاقات کی۔ گفت و شنید کے بعد جو خبر سامنے آئی، وہ کسی حد تک غیر متوقع تھی۔ طالبہ کے والد نے اعلان کیا کہ ان کی بیٹی اسکول کے اصول و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے بغیر حجاب کے تعلیم حاصل کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو طول دے کر اسے سیاسی ایندھن بننے دینا نہیں چاہتے۔ ان کے اس فیصلے کو بعض حلقوں نے سمجھوتہ قرار دیا، تو کچھ نے اسے دباؤ کا نتیجہ کہا۔

وزیر تعلیم نے اس مفاہمت کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چونکہ طالبہ کے والد اور اسکول کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے، اس لیے اب معاملہ ختم سمجھا جائے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست میں کسی بھی شخص کو اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہراساں ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا بیان اگرچہ اعتدال پر مبنی تھا، مگر اس سے واضح ہو گیا کہ حکومت اس تنازعے کو مزید بڑھانا نہیں چاہتی۔

یہ تنازعہ محض ایک فرد یا اسکول تک محدود نہیں تھا، یہ بھارت کے اُس وسیع تر مسئلے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مذہبی علامات اور آئینی آزادی کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کرناٹک میں پہلے ہی اسی نوعیت کے مسئلے پر حجاب پر مکمل پابندی لگ چکی ہے، جس کے بعد متعدد مسلم طالبات نے اپنی تعلیم ترک کر دی۔ ایسے حالات میں کیرالہ جیسے ریاست کا نرم رخ دکھانا امید کی ایک کرن تھا، جو بعد میں دباؤ میں آ کر بجھتی محسوس ہوئی۔

حجاب جیسے موضوع پر بھارت میں اکثر اوقات سطحی گفتگو کی جاتی ہے، جس میں یا تو آزادی کے نام پر مذہب کو کچلا جاتا ہے، یا مذہب کے نام پر اداروں کو مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل ضرورت ایک ایسی فکری فضاء کی ہے، جو ہر فرد کو اپنی شناخت، یقین اور عقیدے کے ساتھ جینے کی آزادی دے، اور یہ آزادی دوسروں کے حقوق پر ضرب نہ بنے۔ جب ایک اسکول کے ضوابط، ایک طالبہ کے مذہبی جذبے اور ایک والد کی سماجی فکر میں ٹکراو پیدا ہو، تو ریاست کا کردار محض نہ کہ ایک تماشائی بنے بلکہ منصفانہ فیصلے کا ہونا چاہیے۔

اس پورے قضیے میں جس کردار نے سب سے زیادہ قربانی دی، وہ وہی طالبہ ہے جس کا مقصد صرف تعلیم حاصل کرنا تھا۔ اس کا خواب، اس کی شناخت اور اس کی مرضی سب گفتگوؤں، تبصروں اور پالیسی بیانات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اُس کے بارے میں فیصلے کیے گئے، بغیر یہ سوچے کہ اُس پر ان فیصلوں کا کیا اثر ہوگا۔ اسے خاموشی سے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، مگر وہ آواز جو کبھی اس کے حق میں اٹھنی چاہیے تھی، وہ کہیں شور میں دب کر رہ گئی۔

آج کیرالہ کا یہ واقعہ بھارت کے ان تعلیمی اداروں کے لیے بھی ایک پیغام ہے، جو مذہب اور ضوابط کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کے مستقبل اور عقائد کے بیچ جھولتے رہتے ہیں، اُن کے لیے یہ ایک آئینہ ہے۔ اور وہ سیاسی قوتیں جو مذہبی جذبات کو ہتھیار بنا کر عوامی رائے کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں، اُن کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ جب ایک طالبہ کی شناخت پر سیاست کی جاتی ہے، تو اصل نقصان تعلیم، برداشت اور تہذیب کو ہوتا ہے۔

یہ معاملہ شاید وقتی طور پر ختم ہو چکا ہو، مگر جو زخم اس نے چھوڑے ہیں، وہ برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ اس قسم کے واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی آزادی صرف نعروں میں خوبصورت لگتی ہے، اس کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب اس آزادی کو عملی صورت میں قبول کیا جائے۔ اور جب یہ قبولیت نہیں آتی، تو متاثرہ صرف وہ شخص ہوتا ہے جس پر پابندی لگائی جاتی ہے، بلکہ وہ معاشرہ بھی ہوتا ہے جو خاموشی سے اپنی ہی اقدار کو دفن کرتا چلا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے