کارساز سانحہ کی صبح

18 اکتوبر 2007 کی صبح ہم PIA کے ذریعے جناح بین الاقوامی ہوائی اڈہ کراچی پر پہنچے تھے۔ ایئرپورٹ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

ہم عمرے کے مبارک سفر سے واپس آرہے تھے۔وہاں ہمیں معلوم ہوچکا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہی ہیں، جس کی وجہ سے بہت ساری فلائٹس کا شیڈول بھی متاثر ہوا تھا، لیکن ہماری فلائٹ معمول کے مطابق تھی۔ فجر کے قریب ایئرپورٹ پر پہنچے تو ہمارے استقبال کے لیے عمِ مکرم قاری غلام اللہ فاروقی صاحب اور والدِ صاحب زید مجدہم کے دیرینہ دوست جناب اشرف بھائی صاحب موجود تھے۔

اشرف بھائی صاحب اپنی گاڑی بھی لائے تھے۔ آپ ہمیں بڑی ہوشیاری سے ایئرپورٹ سے باہر لے آئے، کیونکہ چاروں طرف جیالوں کی یلغار تھی، ہر طرف سے راستے بند یا پھر رکاوٹیں تھیں۔ اس صورتِ حال میں بغیر کسی مشکل کے گاڑی نکالنا کمالِ مہارت ہی کہلائے گا۔

بہرحال ہم سیدھا ڈرگ روڈ آئے، جہاں سے ٹرین میں سوار ہو کر گھر کی طرف نکل پڑے۔ شام میں افسوسناک خبر ملی کہ کارساز کے موقع پر بم دھماکے میں کتنی ہی جانوں کا نقصان ہوا ہے اور محترمہ اس حملے میں محفوظ رہیں۔

اگلے دن اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم صاحب کا نہایت بھونڈا بیان اخبار میں چھپا، جس میں انہوں نے بینظیر بھٹو صاحبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:

“آپ نے ایئرپورٹ سے کارساز کا سفر گھنٹوں میں طے کیا اور پھر کارساز سے بلاول ہاؤس لاشوں کو روندتے ہوئے منٹوں میں پہنچ گئیں۔”

ارباب غلام رحیم صاحب پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ شوکت عزیز صاحب جب ایم این اے منتخب کرانے کا فیصلہ ہوا تھا تو وہ تھرپارکر سے الیکشن لڑے تھے، جہاں سے ارباب غلام رحیم کے بھائی نے سیٹ چھوڑی تھی۔

ارباب غلام رحیم صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے کٹر سیاسی مخالف تھے۔ ان کو “جام صادق ثانی” بھی کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے ہر طرح سے ان کا گھیرا تنگ کر رکھا تھا۔ اپنے زمانے میں سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کا خاتمہ کر چکے تھے۔ پورے صوبے میں بلدیاتی انتخابات میں انہیں بری شکست دی تھی، حتیٰ کہ لاڑکانہ میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ق) کا ناظم محمد بخش آریجو کامیاب ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ الطاف حسین انڑ کے ڈرائیور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نواب شاہ سے فریال تالپور اور کسی اور ضلع سے مزید ایک ضلع ناظم کامیاب ہوسکا تھا۔

ارباب غلام رحیم صاحب بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر بھی ان کے خلاف بیانات داغتے رہے، جس کی سزا بھی بیچارے کو بہت بری ملی کہ 2008 میں سندھ اسمبلی میں حلف برداری کی تقریب کے دوران کسی نے ان کو جوتا مار دیا۔ اس کے بعد ان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی، اور انہیں بھی عارضی طور پر دبئی جانا پڑا۔ بڑے عرصے بعد جب وہ لوٹے تو اس وقت پیپلز پارٹی اپنا پرانا بدلہ لے چکی تھی۔ ان کے خاندان میں ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی اور پھر تھرپارکر — جو ارباب خاندان کا مرکز اور قلعہ سمجھا جاتا تھا — وہاں سے بھی ان کا صفایا کر دیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے