ملالہ یوسفزئی کے بعض غلط خیالات کی تردید

آج سے ٹھیک چار سال قبل ملالہ یوسفزئی نے معروف برطانوی فیشن میگزین ووگ (Vogue) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادیاں کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہوسکتی؟”۔

اس طرح چند برس پہلے معروف بھارتی اداکارہ شلپا شیٹھی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ "زندگی کو آئس کریم کی طرح انجوائے کرنی چاہیے”۔

اس طرح کچھ عرصہ قبل آمریکہ میں ایک ادارے نے شادی کے بارے میں عمومی رجحان کے حوالے سے ایک سروے کا اہتمام کیا۔ مقصد اس سروے سے یہ تھا کہ عام لوگ شادی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟۔ سروے کے نتائج نہایت حیرت انگیز تھے ہوا یوں کہ "سروے میں 74 فیصد لوگوں نے شادی کو ایک پرمسرت زندگی کے حصول میں رکاوٹ قرار دیا”۔

یہ چند مظاہر ہیں اس رویے کا جس کے تحت انسان نے فطرت سے ایک بڑی لڑائی مول لی ہے۔ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس میں ہار ہمیشہ انسان کا مقدر بنتی ہے۔ انسان کے لیے ہر لڑائی خطرناک ہے لیکن فطرت اور خود خالق کائنات کے خلاف لڑنے والی لڑائیوں کا تو نتیجہ ہمیشہ انسانی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ انسان اور فطرت کے درمیان صحت مند تعلق نکاح کی صورت میں جنم لیتا ہے جبکہ بے قید آزادانہ جنسی روابط سے مذکورہ تعلق اپنے آپ ختم ہوتا ہے۔

سب سے پہلے تو ملالہ بہن کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ان جیسے لاکھوں کروڑوں بچوں بچیوں کا انتظار اور استقبال میاں بیوی بن کر ہی ممکن ہوا ہے، پارٹنرز بن کر نہیں اور خود آپ کا استقبال اور پرورش بھی آپ کے والدین نے میاں بیوی بن کر ہی کیا تھا پارٹنرز بن کر نہیں۔ کیا پارٹنرز میں اتنا حوصلہ اور وفاداری ممکن ہیں کہ وہ اپنی مخلصانہ رفاقت اور استقامت سے وہ مقام تشکیل دیں جس میں انسان نے برس ہا برس رہنا ہوتا ہے یعنی خاندان۔

انسان کے لیے روئے زمین پر سب سے محفوظ مقام خاندان ہوتا ہے اور خاندان وجود میں ہی تب آتا ہے جب نکاح ہو۔ نکاح سے روگردانی اور آزادانہ جنسی تعلقات کو فروغ دینا ان لوگوں کا ایجنڈا ہے جو اس دنیا کو مختلف فرائض نبھانے کے لیے ایک میدان عمل کے بجائے عیاشی کا اڈا بنانا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی طلب کے شاہراہ پر دوڑ رہے ہیں جس کے آخری سرے پر کوئی اطمینان اور عزت نہیں۔

انسان کی فطرت میں صرف جنسی پیاس نہیں کہ کہیں سے تسکین دے کر آگے بڑھا جائے بلکہ اسے ایسے رشتے بھی لازم چاہیے جو اس کو دائمی خلوص، احترام، وفاداری اور بے آمیز محبت بھی دے سکیں۔ آج آگر ان معاشروں کا جائزہ لیں کہ جہاں نکاح کا اہتمام اور آزادانہ تعلق کی اجازت نہیں تو وہاں لوگ زیادہ مطمئن، خوشحال اور صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ الٹ حالات رکھنے والے ممالک اطمینان، خلوص، یکسوئی، پائدار انسانی تعلق اور بچوں کی نعمتوں سے معاشی آسودگی کے باوجود محروم دکھائے دے رہے ہیں۔

مذہب اور فطرت دونوں مل کر ہمیشہ ایسے سماج کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں جس میں مختلف متعین، پائدار اور معزز رشتے وجود میں آئیں۔ ان میں دو طرفہ اختیار کردہ ذمہ داریاں ہوں، خلوص اور وفاداری ہوں۔ ایک دوسرے کا دائمی پاس و لحاظ ہوں اور یہ کہ کئی عشروں تک رفیقانہ اور مخلصانہ طور پر زندگی بسر کر کے جو کچھ ایک دوسرے کے لیے کیا جاسکتا ہے وہ چند وقتی پارٹنر شپ میں قطعاً ممکن نہیں۔

انسان کی فطرت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت جنسی تعلقات میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی آمیزش کسی صورت برداشت نہیں۔ وہ اس تعلق کو ہر نامطلوب آمیزش سے پاک دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ ایسی کوئی بھی آمیزش جب اس کے تعلق میں شامل ہوتی ہے تو وہ بے سکونی، تشویش اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ذرا سوچئے ایک بندہ اپنی محبت، وسائل اور خلوص کا مستحق اس کو کیسے خیال کر سکتا ہے جب اسے بے آمیز اور پائدار رفاقت کا اطمینان نہ دے سکے۔

انسان حیوان نہیں کہ وہ صرف جنسی تعلق کا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی روح اور فطرت میں اس سے بڑھ کر دوسرے جواہر کی طلب موجود ہے۔ انسان محبت، خلوص، شرافت اور احترام کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس کے بغیر اس کے لیے ایک محفوظ اور مامون دنیا وجود میں نہیں آسکتی۔

نکاح ایک پائدار ڈسپلن کا نام ہے۔ اس میں خود کو رکھ کر ہی ایک مطمئن، آسودہ اور محفوظ زندگی اور سماج کا حصول ممکن ہے۔ ہر طرف منہ مارنے والے کی صحت قائم رہ سکتی ہے نہ شخصیت، تحفظ یقینی ہو سکتی ہے نہ مسرت، عزت سلامت رہتی ہے نہ ہی دین و اخلاق۔

ازدواجی تعلق کو صرف وقتی لذت پرستی کے طور پر نہیں بلکہ پوری دنیا اور اس کے محفوظ مستقبل کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ وقتی لذت پرستی ایسی چیز نہیں جس پہ انسان اور اس کا مستقبل قربان کیا جا سکے۔ آج حیران کن ترقی، خوش حالی اور آسانیوں کے باوجود انسان کے اوپر ایسے ایسے امراض اور ایسے ایسے فتنے سر اٹھا کر حملہ آور ہیں کہ جن کا کوئی علاج نہیں۔

انسان کو حیوان سے جو جو چیزیں ممتاز کر رہی ہیں ان میں سے ایک نکاح بھی ہے۔ آپ نکاح اور خاندان کو سماج سے باہر کر کے دیکھیں بخدا جنگل نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ نکاح تو وہ ذریعہ ہے جس میں نسل انسانی کی بقاء کا راز موجود ہے نکاح کو چھوڑ کر آزادانہ جنسی تعلقات نبھانا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ انسان کو مزید انسان بن کر رہنا قبول نہیں اور وہ اپنی آزاد مرضی سے حیوان بننے پر آمادہ اور تیار ہوگیا ہے۔

انسان نے زمین پر جن وسائل کے ساتھ زندگی کا آغاز کیا ان میں سب سے اہم اور بنیادی مزید برآں خالق کائنات کا وضع کردہ طریقہ نکاح ہے۔ نکاح سے مرد و زن نے دائمی رفاقت کا معاہدہ کر کے گویا آنے والی نسل کے لیے ایک خاندان تشکیل دے دیا گیا۔

دنیا میں آنے والے بچے کے لیے خاندان سے بھلا زیادہ موزوں مقام کون سا ہو سکتا ہے؟ ایک بچے کو پیدائش کے ساتھ ہی پرورش، تحفظ اور تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس طویل ذمہ داری کو نبھانے کے لیے پارٹنرز نہیں بلکہ میاں بیوی بن کر رہنا پڑتا ہے کیونکہ طویل تعلق کے لیے جس خلوص، محبت، اپنائیت اور رفاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف نکاح کی صورت میں ممکن ہے پارٹنرز کی صورت میں قطعاً نہیں۔

ازل سے یہ چلا آرہا ہے کہ انسانوں میں کچھ فطرت کے اصول اور تقاضوں سے ہم آہنگ رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کچھ بالکل الٹ طور پر فطرت سے لڑ کر، فطرت کے خلاف چل کر بلکہ فطرت سے اپنا مکمل ناطہ توڑ کر صبح و شام کرتے ہیں۔ اول الذکر لوگ زندگی کو خالق کائنات کا عطیہ سمجھتے ہیں، وہ اس کو بامقصد یقین کرتے ہیں اور آخرت میں زندگی کے حوالے سے جواب دہی کا احساس رکھتے ہیں جبکہ آخر الذکر طبقہ زندگی کو محض ایک "اتفاق” تصور کرتے ہیں اور گویا اعلان کرتے ہیں کہ

"بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”

مرد و زن اپنی ساخت، رجحان، وجود، ذہنی و نفسیاتی ڈھانچے اور صلاحیت کار کے اعتبار سے مختلف نقش و نگار اور رنگ و آہنگ کے حامل ہیں لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے اس دنیا میں ایک متفقہ اور پائدار تعلق کا آغاز جس رشتے سے کیا اس کا نام ہے نکاح۔ تمام رشتے ناطے، سماج کا مستحکم ڈھانچہ اور ایک مطمئن خاندان کی تعمیر جس رشتے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے وہ ہے نکاح۔ نکاح ایک پائدار، پر اعتماد اور خالص دو طرفہ تعلق کے آغاز کا ایک قانونی اور اخلاقی اعلان ہے۔ یہ کوئی جادو یا منتر نہیں بلکہ دو آزاد اور خود مختار انسانوں کے ایک دوسرے سے مل کر رہنے کا اعلان اور باہم عائد شدہ حقوق و فرائض کو تسلیم کرنے کا اظہار ہے۔

انسان اور فطرت کے صحت مند تعلق کا جس نکتے سے آغاز ہوتا ہے وہ ہے نکاح۔ ماضی اور حال کا سبق ہے کہ فطرت کے مطابق چلنے میں ہی انسان کے لیے اطمینان ہے، اعتماد ہے، تحفظ ہے، خلوص اور وفاداری ہیں، ذمہ دارانہ روش ہے، شراکت اور وحدت کا خوبصورت امتزاج ہے اور یہ کہ حقوق و فرائض کا دائمی التزام ہے۔ ایک پارٹنر نوٹ نچھاور کر کے نوچ تو سکتا ہے لیکن پائدار محبت اور خلوص سے سرفراز نہیں کر سکتا۔

انسان، انسان ہے حیوان نہیں کہ کہیں سے بھی جنسی تسکین پاکر آگے نکل جائے اور یہ بھول جائے کہ میں نے کب، کہاں اور کس کے ساتھ کیا کیِا تھا۔ مجھے شک ہے کہ گلوبل ایلیٹ (عالمی اشرافیہ) زندگی کے منظر نامے سے دین و اخلاق نکال کر وہاں صرف جنس اور دولت کا چل چلاؤ چاہتا ہے تاکہ انسان اپنی انسانیت بھول کر محض "لذت پرست حیوان” بن کر رہ جائے جن کو کھلونوں کی طرح استعمال کرنا آسان رہے اور جن کو وقتی لذت کی لالچ دے کر کسی بھی جانب موڑا جا سکتا ہوں۔

قدرت نے زمین پر انسان کے سکون، سہولت، آسودگی، بقاء، تحفظ، خوشحالی اور ارتقاء ذات و صفات کے لیے جو جو انتظامات کیے رکھے ہے اگر انسان ان کے فوائد، اثرات اور ثمرات پر سنجیدگی سے سوچیں تو اس کا سر اپنے رب کے سامنے ابدی طور پر جھکے گا۔ ان سب میں سے ایک انسانوں کے باہمی رشتے ناطے اور تعلقات بھی ہیں۔ انہیں رشتوں اور تعلقات کے حاملین ہی ایک فرد کو اپنی پہلی سانس سے آغوش شفقت و محبت میں لے کر اس کو آخری ہچکی تک تھام لیتے ہیں۔

رشتوں کے لیے کوئی بھی خدا کو درخواست نہیں کرتا۔ یہ زیادہ تر اس کی عطاء پر منحصر ہوتے ہیں اور وہی ذات ان کی مصلحتوں کو اپنی انتہائی گہرائی اور گیرائی میں جان سکتی ہے، کوئی اور نہیں۔ گوں کچھ منتخب رشتے بھی زندگی میں آجاتے ہیں لیکن وہ بھی کچھ وقت گزرنے کے بعد قدرتی بن جاتے ہیں۔ کوئی بندہ اگر رشتوں کے وجود اور حقیقت پر ذرہ بھی غور کریں تو اس پر اپنے ہر رشتے اور تعلق سے اس قدر روشنی، خوشبو، سکون، شیرینی اور حلاوت آجائی گی کہ جن سے اس کی پوری ہستی معطر، آسودہ، تر و تازہ اور توانا ہوں جائے۔

رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے ہر بندے کو محتاط بن کر رہنا چاہیے نہ کہ بے باک۔ موجودہ دور تیز رفتار تبدیلیوں اور غیر متوقع حالات کا ہے۔ صنعتی انقلاب، مادی ترقی، مالی افراط و تفریط، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتاری، پیشہ ورانہ استغراق اور وقت کے دائرے میں رونما ہونے والی سرعت نے بلا شبہ کسی حد تک انسانی سوچوں اور رویوں میں تبدیلی ضرور لے آئی ہے، جس کے مظاہر روز دیکھنے والوں کو نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود انسانی رشتوں اور تعلقات میں موجود لطف، سکون اور ذائقہ اب بھی چار دانگ عالم میں خود کو محسوس کراتا ہے اور کوئی بھی ہوش مند فرد اس کی حقیقت، افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا۔

نکاح ایک الہامی حکم ہے، نکاح انبیاء کرام کی سنت ہے، نکاح فطرت کا ایک بنیادی تقاضا ہے، نکاح گھروں کی رونق ہے، نکاح تمام رشتوں کی جڑ ہے، نکاح باہمی حقوق اور فرائض کو نبھانے کا ایک سچا پکا وعدہ ہے، نکاح پائدار رفاقت کے لیے ایک رضا مندانہ معاہدہ ہے، نکاح نسل انسانی کی بقاء کی واحد مضبوط ضمانت ہے۔ جو اس رشتے کی قدر کرے گا خدا اس کا قدر دان ہوگا اور جو اس رشتے کی ناقدری کر گزرے گا اللہ اسے سکون اور ٹھہراؤ سے محروم کر کے رسوا کرے گا۔ وہ بظاہر انسانوں میں نظر آئے گا لیکن حقیقت میں وہ حیوانوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے