زندگی بچانے والے اپنی زندگی سے کیوں ہار رہے ہیں؟

یورپ کی گلیاں صبح کی نرم روشنی میں نہاتی ہیں، جہاں ہوا میں نظم و ضبط کی خوشبو اور زندگی کی آسودگی گھلی محسوس ہوتی ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی برقی گاڑیاں، صاف فضا میں چمکتے شیشے کے عمارتوں کے عکس، اور ہر سمت پھیلا ہوا اطمینان یہ سب کسی مثالی معاشرے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت، اور سہولیات کی فراوانی نے یہاں کے شہریوں کے لیے زندگی کو سہل بنا دیا ہے۔ پارکوں میں کھیلتے بچے، مصروف کیفے، اور ہر شخص کے چہرے پر خود اعتمادی کی جھلک یہ سب ایک ایسے نظام کی گواہی دیتے ہیں جو انسان کو عزت اور سہولت دونوں فراہم کرتا ہے۔ جدید اسپتالوں میں بہترین علاج، جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہر ضرورت کے لیے موجود نظام نے یورپ کو دنیا میں فلاح و بہبود کی علامت بنا دیا ہے۔ یہاں زندگی ایک ترتیب یافتہ نظم کی مانند لگتی ہے، جس میں آسائش اور استحکام کے تمام رنگ موجود ہیں۔

لیکن اسی روشن تصویر کے پس منظر میں ایک خاموش اندھیرا پھیل رہا ہے۔ خوشحالی کے اس بظاہر بے عیب نظام میں ذہنی اضطراب کی لہر بڑھتی جا رہی ہے۔ عام شہریوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر چکا ہے۔ زندگی کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ ساتھ احساسِ تنہائی نے دلوں میں خاموش خلا پیدا کر دیا ہے۔ بلند معیارِ زندگی کے باوجود ذہنی سکون کم ہوتا جا رہا ہے، اور لوگوں کے درمیان رابطے مصنوعی بنتے جا رہے ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ایک نامعلوم کمی ہر روح کو بے چین رکھتی ہے۔ یہی بے چینی کبھی تھکن میں ڈھلتی ہے، کبھی مایوسی میں، اور کبھی زندگی سے بیزاری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بد قسمتی سے ان واقعات کا دائرہ عام شہریوں سے آگے بڑھ کر اُن پیشہ ورانِ صحت تک جا پہنچا ہے جو دوسروں کی زندگی سنوارنے کے لیے خود جلتے رہتے ہیں۔ یورپ کی چمکتی دنیا میں یہ ایک ایسا تضاد ہے جو خوشحالی کی بنیادوں پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتا جا رہا ہے۔

یورپ کے اسپتالوں کی چمکتی ہوئی راہداریوں اور جدید آلات سے مزین آپریشن تھیٹروں کے پیچھے ایک ایسا سچ چھپا ہے جو عام نگاہوں سے اوجھل ہے۔ ان سفید کوٹوں میں ملبوس انسان، جنہیں ہم مسیحا مانتے ہیں، اندر ہی اندر ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی حالیہ رپورٹ نے ایک ایسا پردہ چاک کیا ہے جس کے پیچھے چیختی ہوئی خاموشی ہے، ذہنی اذیت کا شور ہے، اور ایسی حقیقتیں ہیں جن پر ہم نے طویل عرصے تک آنکھیں بند رکھیں۔ یورپ بھر میں ڈاکٹرز اور نرسوں کے ذہنی دباؤ کی یہ لہر محض شخصی مسئلہ ہے یہ ایک مکمل نظامِ صحت کی بنیادیں ہلا دینے والی صورت حال بنتی جا رہی ہے۔

یہ رپورٹ، جو یورپی کمیشن اور ڈبلیو ایچ او کے باہمی تعاون سے 29 ممالک میں مرتب کی گئی، اس المیے کا آئینہ بن کر سامنے آئی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر دس میں سے ایک طبی کارکن نے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات کا اعتراف کیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ذہنی دباؤ کے ایسے خوفناک اثرات نہ کسی ایک فرد کے ہے یہ اس پورے شعبے کی تھکن اور ناقدری کی گواہی دیتے ہیں۔ ہر لمحہ دوسروں کی جان بچانے والے، جب خود اپنی زندگی کو بوجھ سمجھنے لگیں تو اس سے بڑا نقصان اور کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر ہینز کلوگے، جو یورپ میں ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں، نے اس بحران کو نہایت سنگین قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ صورت حال نہ صرف انفرادی مصائب تک محدود ہے بلکہ عوامی صحت کے پورے ڈھانچے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ جب ڈاکٹروں اور نرسوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے تو اس کے اثرات مریضوں کی دیکھ بھال، فیصلہ سازی، اور طبی کارکردگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جو نہ صرف عملے کو ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔ چوتھائی طبی کارکن ہفتے میں پچاس گھنٹوں سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ ایک تہائی کی ملازمتیں عارضی بنیادوں پر قائم ہیں۔ یہ عدم تحفظ ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ ذہنی سکون کو بھی نگلتا جا رہا ہے۔ مسلسل دباؤ، غیر یقینی مستقبل، اور کام کے غیر انسانی اوقات ایک ایسا ماحول تشکیل دے رہے ہیں جہاں تھکن معمول اور افسردگی فطری سی لگنے لگی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں میں خودکشی کے خیالات عام لوگوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ دیکھے گئے۔ یہ اعداد و شمار انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہر دس میں سے ایک شخص ایسا ہے جو گزشتہ دو ہفتوں میں زندگی ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ چکا ہے۔ ایسے خیالات تب جنم لیتے ہیں جب امید مرنے لگے، جب روز کام پر جانا ایک اذیت بن جائے، اور جب انسان کو لگے کہ وہ صرف ایک مشین بن چکا ہے جس کے جذبات اور احساسات کی کسی کو پروا نہیں۔

مزید برآں، تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایک تہائی کے قریب طبی کارکن اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران بدسلوکی یا تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات ان کے جسم پر زخم چھوڑتے ہیں، تو دوسری طرف ذہن میں خوف اور دل میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ جب خدمت کرنے والا خود غیر محفوظ ہو تو وہ کیسے کسی اور کو تحفظ دے سکے گا؟ طویل اوقاتِ کار، غیر متوازن ذمہ داریاں اور بغیر سہارے کے جینا، رفتہ رفتہ اس انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔

رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ 11 سے 34 فی صد طبی عملہ اب اپنی موجودہ ملازمت چھوڑنے پر غور کر رہا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو اگلے چند برسوں میں یورپ کو انسانی وسائل کی ایسی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو صحت کے شعبے کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دے گی۔ 2030 تک 9 لاکھ 40 ہزار طبی کارکنان کی کمی کا اندیشہ معمولی بات نہیں یہ ایک ممکنہ تباہی کی گھنٹی ہے جو ابھی سے سنائی دینے لگی ہے۔

تاہم، اس بحران سے نکلنے کی راہیں موجود ہیں، بشرطیکہ ان پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ رپورٹ میں تجویز کردہ اقدامات قابل غور ہیں: کام کی جگہ پر تشدد کے خلاف سخت پالیسی، آرام کے لیے مناسب وقفے، ذہنی صحت کی سہولیات تک آسان رسائی، اور عارضی ملازمتوں کی جگہ مستقل روزگار کی فراہمی، وہ بنیادیں فراہم کر سکتی ہیں جن پر ایک متوازن اور محفوظ کام کا ماحول استوار ہو۔ اگر ادارے انسانی پہلو کو اہمیت دیں تو اس بدترین صورتحال کو روکا جا سکتا ہے۔

امید کی ایک کرن اس صورت حال میں بھی جھلک رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو تہائی نرسیں اور تین چوتھائی ڈاکٹر تاحال اپنے پیشے کو بامقصد اور قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔ یہ اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں خدمت کا جذبہ زندہ ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سہارا دیا جائے، ان کی سنوائی ہو، اور وہ تحفظ فراہم کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب ادارے، حکومتیں اور عوام مل کر ان کا ہاتھ تھامیں، تاکہ وہ دوبارہ خود کو تنہا اور بے بس محسوس نہ کریں۔

یہ مسئلہ اعداد و شمار کی نہ ایک رپورٹ ہے بلکہ یہ تو انسانوں کی چیخ ہے، ایک خاموش فریاد ہے جو ہر سفید کوٹ میں گونج رہی ہے۔ اگر اس فریاد کو آج نہ سنا گیا تو کل ایسے بحران کا سامنا ہوگا جس کا علاج خود مسیحاؤں کے پاس بھی نہ ہوگا۔ اب بھی وقت ہے یورپی ممالک کے پاس بیدار ہونے کا، قدم بڑھانے کا، اور اُن لوگوں کی زندگی سنوارنے کا جو روز دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے