اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوسروں کو استعمال کرنا

انسانی فطرت میں کامیابی اور ترقی کی جستجو ہمیشہ سے شامل رہی ہے۔ ہر فرد اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ مگر جب یہ کوشش صرف ذاتی مفاد کے لیے ہو اور اس میں دوسروں کا استعمال بطور سیڑھی کیا جائے، تو یہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے قابلِ اعتراض بن جاتی ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا باعث بھی بنتی ہے۔

دوسروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ایک ایسی روش ہے جو وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر طویل المدت میں انسان کی ساکھ، تعلقات اور شخصیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس رویے میں انسان دوسروں کے جذبات، وقت، محنت یا وسائل کو محض اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے، اور جب مقصد حاصل ہو جائے تو ان کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس طرح کا طرزِ عمل خودغرضی، بے حسی اور عدمِ احساس کی علامت ہوتا ہے۔

ایسے افراد اکثر چالاکی، خوشامد، یا جھوٹی ہمدردی کے ذریعے دوسروں کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنی باتوں سے دوسروں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے خیرخواہ ہیں، حالانکہ ان کے دل میں صرف اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف دھوکہ دہی کہلاتا ہے بلکہ اعتماد کے رشتے کو بھی مجروح کرتا ہے۔ اعتماد ایک بار ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ بحال کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

سماجی، تعلیمی، یا پیشہ ورانہ میدان میں ایسے رویوں کی کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً، کوئی طالب علم دوسرے ساتھیوں سے نوٹس یا اسائنمنٹ لیتا ہے، خود محنت نہیں کرتا، اور امتحان میں اچھے نمبر حاصل کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ یا کسی دفتر میں ایک ملازم دوسروں کے کام کو اپنا ظاہر کر کے ترقی پا لیتا ہے۔ یہ وقتی کامیابیاں آخرکار ضمیر کی عدالت میں مجرم بناتی ہیں۔

دوسروں کو استعمال کرنا صرف اخلاقی طور پر غلط نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ ایک دن ایسا آتا ہے جب لوگ پہچان لیتے ہیں کہ کون ان کا سچا خیرخواہ ہے اور کون صرف مفاد پرست۔ تب انسان تنہا رہ جاتا ہے، کیونکہ لوگ ایسے افراد سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
تعلقات میں خلوص، ہمدردی، اور باہمی احترام ہی دیرپا بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ بنیاد ہی مفاد پرستی پر ہو تو وہ تعلق دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔

اس کے برعکس اگر ہم اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوسروں کے ساتھ تعاون اور اشتراک کو بنیاد بنائیں، تو یہ رویہ نہ صرف ہمیں کامیاب بناتا ہے بلکہ ایک مضبوط، مثبت، اور پائیدار سماج کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ حقیقی کامیابی وہی ہوتی ہے جو صرف خود کے لیے نہ ہو، بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے۔

اسلامی تعلیمات میں بھی خودغرضی اور مفاد پرستی کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے وہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔” اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ کامیابی کا اصل معیار دوسروں کی فلاح کے ساتھ جڑا ہوا ہے، نہ کہ انہیں استعمال کر کے آگے بڑھنا۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دوسروں کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کرنا ایک فریب ہے جو وقتی طور پر دل خوش کر دیتا ہے، مگر دیر پا نہیں ہوتا۔ اصل ترقی وہی ہے جو ایمانداری، محنت، اور باہمی تعاون سے حاصل کی جائے۔ اگر ہم ایک صحت مند، مثبت، اور مہذب معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں دوسروں کو سیڑھی بنانے کے بجائے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے