پاکستان، طالبان معاہدہ یا ٹریپ

پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان حالیہ تنازعات اور پھر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کو پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

اکتوبر 2025 میں شروع ہونے والے اس تنازع نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، لیکن پاکستان کی سخت گیر پالیسی اور فوجی کارروائیوں نے طالبان کو اس مقام پر مجبور کر دیا جہاں وہ مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ معاہدہ نہ صرف ایک فوری جنگ بندی ہے بلکہ پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیسے پاکستان نے طالبان رجیم کو کیا ایک جال میں پھنسایا؟، دنیا کی نظروں میں یہ ثابت کر دیا کہ طالبان یا تو جان بوجھ کر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں یا پھر ان سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے پاکستان کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جسے پاکستان میں "فتنہ الخوارج” کہا جاتا ہے، نے افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے شروع کر دیے۔ یہ تنظیم، جو افغان طالبان کی اتحادی ہے، پاکستان کے اندر ہزاروں معصوم شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانوں کا ضیاع کر چکی ہے۔ 2025 تک، ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔ پاکستان نے بار بار افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پناہ دینا بند کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں، لیکن طالبان کی جانب سے انکار اور حمایت جاری رہی۔
اکتوبر 2025 کے آغاز میں، پاکستان نے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیکھ کر فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ 9 اکتوبر کو، پاکستانی فضائیہ نے کابل، خوست، جلال آباد اور پاکتیکا میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں کا ہدف ٹی ٹی پی کا امیر نور ولی محسود تھا، جو کابل میں چھپا ہوا تھا۔ یہ کارروائی پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ کا ایک واضح اظہار تھی۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی کے ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں، افغان طالبان نے پاکستان کی سرحد پر حملے شروع کر دیے، جس میں دونوں جانب سے فائرنگ اور توپ خانے کا استعمال ہوا۔ یہ تنازع ایک ہفتے سے زائد جاری رہا، جس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان نے جواب میں مزید گہرائی میں حملے کیے، افغان فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، اور سرحدی علاقوں میں تلاشی اور تباہی کی کارروائیاں کیں۔

یہ تنازع صرف فوجی نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی تھا۔ پاکستان نے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دے کر پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ اگر کابل ٹی ٹی پی کے خلاف "قابل تصدیق” کارروائی نہ کرے تو پاکستان کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اس دوران، افغان طالبان نے ان حملوں کو "غیر اعلانیہ جنگ” قرار دیا، لیکن پاکستان کی سخت گیری نے انہیں مذاکرات کی طرف دھکیلا۔

پاکستان کی حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طالبان کو اس مقام پر لایا جائے جہاں وہ یا تو ٹی ٹی پی کی حمایت تسلیم کریں یا اپنی کمزوری کا اعتراف کریں۔ یہ ایک نفسیاتی اور سفارتی جال تھا۔ پاکستان نے پہلے سفارتی سطح پر دباؤ ڈالا: سرحدی جھڑپوں سے پہلے، طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان نے 200 سے زائد سرحدی فلیگ میٹنگز، 800 سے زیادہ سفارتی احتجاج، اور متعدد سیکیورٹی انتباہات جاری کیے۔ لیکن جب طالبان نے ٹی ٹی پی کو پناہ دینا جاری رکھا، پاکستان نے فوجی آپشن استعمال کیا۔
فضائی حملوں نے طالبان کو حیران کر دیا۔ وہ یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ پاکستان کابل تک حملے کرے گا۔ اس سے طالبان کی کمزوریاں بے نقاب ہوئیں: یا تو وہ جان بوجھ کر ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے تھے (جیسا کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو کابل میں پناہ دینے سے ظاہر ہوتا ہے)، یا پھر ان کے پاس ان دہشت گردوں سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ پاکستان نے عالمی میڈیا اور سفارتی چینلز کے ذریعے یہ بیانیہ پھیلایا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو استعمال کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر بھارت کے ساتھ حالیہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے بعد۔
18 اکتوبر کو دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے، جہاں دونوں فریقوں نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے یہ شرط عائد کی کہ طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ یہ معاہدہ پاکستان کی کامیابی تھا کیونکہ طالبان کو مجبوراً پاکستان کی پالیسیوں پر عمل کرنے پر اتفاق کرنا پڑا۔ پاکستان نے یہ ثابت کر دیا کہ بغیر فوجی دباؤ کے، طالبان مذاکرات کی میز پر نہیں آتے۔

افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح نے اس معاہدے کو پاکستان کی "پرفیکٹ ٹریپ” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، اگر طالبان نے مذاکرات میں ٹی ٹی پی کی نمائندگی کی تو وہ ان کی حمایت تسلیم کر رہے ہیں، اور اگر نہیں تو ان کی کمزوری ثابت ہوتی ہے۔ صالح کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ، جس میں ترکی ثالث ہے، طالبان کے لیے سفارتی تباہی ثابت ہو گا۔ مزید برآں، وہ کہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے (2020) کے تحت، طالبان اب چاہے مرضی سے ہوں یا مجبوری سے، پاکستان کی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ معاہدہ اصل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تھا، لیکن اب اسے پاکستان اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے تاکہ طالبان کو دہشت گردی کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا جائے۔
یہ معاہدہ پاکستان کی پوزیشن کو تقویت دیتا ہے
عمرانی رنگ دینے کی کوششیں اور حقیقت
کچھ عناصر، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ، اس معاہدے کو "عمرانی رنگ” دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے جیل سے بیان دیا کہ اگر انہیں پیرول پر رہا کیا جائے تو وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کر سکتے ہیں۔ وہ سیاسی حل کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے لوگوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ لیکن یہ کوششیں حقیقت سے دور ہیں۔ اگر پاکستان نے افغانستان میں کارروائی نہ کی ہوتی اور اپنی خودمختاری کا تحفظ نہ کیا ہوتا تو یہ معاہدہ ممکن نہ ہوتا۔
عمران خان کی حکومت میں ہی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تھے، اور 2021 میں انہوں نے ٹی ٹی پی کو "معافی” کی پیشکش کی تھی۔ لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے، اور ٹی ٹی پی کی واپسی نے پاکستان کو مزید کمزور کیا۔ اب پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس معاہدے کو عمران کی کامیابی قرار دے رہے ہیں، حالانکہ یہ موجودہ حکومت اور فوج کی سخت گیری کا نتیجہ ہے۔ یہ "راتب خور” عناصر حقیقت کو مسخ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی فوجی کارروائیاں ضروری تھیں، ورنہ طالبان کبھی مذاکرات پر آمادہ نہ ہوتے۔
پاکستان کی مضبوط پوزیشن اور مستقبل
یہ تنازع اور معاہدہ پاکستان کی سفارتی اور فوجی طاقت کا مظہر ہے۔ پاکستان نے نہ صرف طالبان کو جال میں پھنسایا بلکہ عالمی سطح پر یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ امر اللہ صالح جیسے سابق افغان رہنماؤں کے بیانات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ عناصر اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کارروائیاں ہی اس کامیابی کی بنیاد ہیں۔
مستقبل میں، پاکستان کو سرحدی سلامتی کو مزید مضبوط کرنا چاہیے، اقتصادی پابندیوں کا استعمال کرنا چاہیے، اور عالمی برادری کو شامل کر کے طالبان پر دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ معاہدہ ایک آغاز ہے، لیکن اس کی کامیابی طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر منحصر ہے۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی خودمختاری کا تحفظ کر سکتا ہے، اور یہ پیغام پوری دنیا کے لیے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے